راشد علی
سب پریشان اور خوف زدہ تھے۔ مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں ۔
’’زخمی چوہا ہے۔‘‘طیب کہنے لگا۔’’ نہیں باجی سانپ لگتا ہے۔‘‘عاشی نے کہا۔
’’باجی! یہ دُم لگ رہی ہے، بلی کا بچہ لٹک رہا ہے۔‘‘سارہ نے بھی ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’ہائے ﷲ ! مجھے تو ڈر لگ رہا ہے، باجی اس کی دو آنکھیں بھی چمک رہی ہیں ۔‘‘ ننھی عائشہ کہتے کہتے رونے لگی۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔
طیب اور عاشی گھر سے باہر جانے لگے تو باہر گھپ اندھیرا دیکھ کر واپس لوٹ آئے۔
’’بس، امی آنے والی ہوں گی ڈرو مت۔‘‘ باجی اسما نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’ پتا نہیں کب آئیں گی۔ جب یہ سانپ ہمیں ڈس لے گا۔‘‘ عاشی کے ساتھ طیب بھی رونے لگا۔
اسما، سارہ، عاشی اور طیب چار بہن بھائی تھے۔ اسما سب سے بڑی تھی ۔ ان کی امی بچوں کی دادی کو قریب ہی اسپتال لے کر گئی ہوئی تھیں کہ اس دوران بجلی چلی گئی۔ ماچس ، کچن کی کھڑکی پر رکھتے تھے۔
اسما نے چھوٹی بہن عاشی سے کہا کہ وہ ماچس لے کر موم بتی جلالے کیوں کہ چارجنگ لائٹ کی چارجنگ ختم ہوگئی تھی۔ اچانک ماچس کے قریب اسے کھڑکی پر ایک کالی رنگ کی چیز لٹکتی ہوئی نظر آئی جو ہل بھی رہی تھی۔ عاشی کو ایسے لگا کہ جیسے یہ کوئی جاندار چیز ہے اور پھر اس نے چیخ کر سب بہن بھائی کو بلا لیا اور پھر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہونے لگیں ہر ایک کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ خوف سے سب کو پسینہ آنے لگا۔
امی اور دادی اماں کے انتظار میں ایک ایک لمحہ مہینوں کے برابر معلوم ہونے لگا۔ باجی اسماءسے چپکے ہوئے تھے۔ گھر میں کوئی اور ماچس کہاں رکھی ہے اس کا پتا نہیں تھا کہ وہ جلالیں اور کھڑکی کے پاس پڑی ہوئی ماچس کےقریب بھی کوئی جانے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ مارے ڈر کے چاند کی ہلکی روشنی میں بھی کوئی پڑوسی کے گھر جانے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ ان کے ابو کاروباری کام سے ‘ دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔
دروازہ بجنے کی آواز پر سب چونکے۔
‘’اری لڑکیو! گھر میں اتنا اندھیرا کیوں کر رکھا ہے؟ ‘‘ دادی اماں نے لاٹھی کی نوک زمین پر تیز مارتے ہوئے کہا۔
عاشی اور طیب امی سے چپک گئے۔‘’امی سانپ ہے اس کی آنکھیں بھی چمک رہی ہیں ۔’‘ عاشی نے کہا۔
’’ نہیں امی ! بلی کا بچہ لگتا ہے۔‘‘سارہ بڑبڑائی۔
’’ نہیں دادو! بڑا چوہا لگتا ہے اس کی دُم بھی ہل رہی ہے۔‘‘ طیب نے بھی خوف زدہ ہو کر دادی اماں سے کہا۔
’’ارے اچھا! ہٹو تو سہی مجھے کیسے چپک گئے‘‘۔ امی نے ان کو ایک طرف کرتے ہوئے کہا۔
اسما نے امی کو ساری صورتحال بتائی۔
’’ ارے! ماچس تو جلا لو۔‘‘دادو ماچس اس سانپ کے پاس ہی تورکھی ہے۔ ‘‘ عاشی نے روتے ہوئے کہا۔
’’ستیا ناس اس سانپ کا، اس لاٹھی سے ابھی اس کی گردن کا منکا توڑتی ہوں، کیسے ہمت ہوئی اسے ادھر رخ کرنے کی۔‘‘ دادی اماں نے کہا تو عاشی، طیب اور سارہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دادو کو تکنے لگے۔
’’امی! ٹھہریں پہلے وہاں سے ماچس اٹھا لیں ۔‘‘آمنہ نے دادی اماں سے کہا اور احتیاط سے ماچس اٹھانے کے لیے چل پڑیں ۔
‘’ نہیں امی آپ وہاں نہ جائیں ۔’‘ عاشی اور طیب نے اپنی امی کی ٹانگوں سے چپک گئے اور ساتھ منہ پھاڑے رو رہے تھے۔
’’ ارے اس صدی کے بچے کیسے نکمے اور بزدل ہیں ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے دادی نے دونوں کو ایک ایک لاٹھی رسید کی اور پھر فوراً وہ ماچس اٹھا لی۔ ماچس جلا کرموم بتی جلائی ، جس کی روشنی میں اس عجیب و غریب چیز کو دیکھا اور اسے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ لاٹھی کے ہتھے سے عاشی کی گردن کو ذرا کھینچا۔’’یہ رہا تمھاراسانپ اور پھر ایک چپت طیب کو بھی رسید کی۔
’’ یہ راہا تمہارا چوہا۔‘‘ دادی اماں نے کہا۔
جسے سانپ، چوہا اور بلی کہا جا رہا تھا۔ وہ سارہ کا دستانے تھے۔ جسے وہ پہن کر اسکول جاتی تھی ۔ آج اسکول سے آتے ہی بھوک کی شدت کی وجہ سے سیدھی کچن میں چلی گئی تھی اور دستانے اُتار کر کچن کی کھڑکی کے ساتھ لٹکا دیئے تھے اور پھر اٹھانا یاد نہ رہا۔
سانپ کی آنکھیں وہ ٹافی کا ریپر تھا جو دستانے کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ چاند کی روشنی میں دو چمک دار آنکھیں نظر آ رہی تھیں اور جب ہوا سے وہ دستانہ ہلتا تو وہ خوف زدہ ہو جاتے۔ چاروں بہن بھائی اس انوکھے سانپ، بلی سمجھ بیٹھےتھے ۔دستانے دیکھ کر سب بچے بے اختیار ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے۔