• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹھیک چھے منٹ بعد ایجنٹ تھری زیرو کی کال آئی۔

احمد صدیقی نے کال ریسیو کی ۔’’ آئی ایم سوری سر ۔۔ایک منٹ کی تاخیر ہوگئی ۔‘‘

’’ کوئی بات نہیں ۔۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔

’’ آپ اپنی جی ڈرائیو کھولیں ۔۔تمام اخبارات ،تصاویر ، رپورٹس اور فولڈرز اس میں موجود ہیں ۔‘‘

’’ شکریہ ایجنٹ تھری زیرو ۔‘‘انہوں نے فون کال منقطع کر کے عمر سے کہا’’ میری جی ڈرائیو کھولو۔‘‘

عمر نے فورا میز پر رکھے ابو جی کا لیب ٹاپ آن کیا اور جی ڈرائیو کھول دی۔

دیوار پر ایک بڑی اسکرین تھی ،جس پر کمپیوٹر ڈیٹا ڈسپلے ہو رہا تھا۔

عمر نے ایک ایک فولڈر کھولنا شروع کیا اور سب ایک ایک کرکے اسکرین پر ان رپورٹس کو پڑھتے رہے ،اخبارات دیکھتے رہے اور تصویروں کا جائزہ لیتے رہے۔

علی ان تصویروں کو دیکھ رہا تھا جن میں کاریں جلتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔

’’ اوہ۔۔ اوہ ۔۔یہ کیا ۔۔یہ دیکھیں ابو جی ۔۔‘‘

احمد صدیقی نے اس کی طرف دیکھا۔

اس نے تصویر پر انگلی رکھتے ہوئے اس کا کیپشن پڑھا اور بولا ۔’’ یہ واحد کا ر ہےجو اس روڈ پر جلائی گئی ،جہاں بسیں جلائی گئی تھیں ۔‘‘

احمد صدیقی نے بھی کیپشن پڑھا اور پر جوش انداز میں اس نقشے کی طرف گئے جو انہوں نے دیوار پر لٹکا رکھا تھا۔

انہوں نے نقشے پر ایک جگہ انگلی رکھی ۔’’ہاں ۔۔وہ کار یہاں جلائی گئی تھی اخبار کے آفس اور ریلوے کالونی کے درمیان ۔‘‘

’’اس کار میں ایک آدمی مرا ہوا پایا گیا تھا ابو جی ۔۔یہ رہی اس آدمی کی تصویر ۔‘‘

اس کا بائیو ڈیٹا دیکھتے ہوئے علی بولا۔’’ اس آدمی کا نام ’’راشد بھرواناتھا۔پولیس کو آج تک پتا نہیں چل سکا کہ یہ کار کس نے جلائی تھی ۔۔یہی سمجھا گیا ہوگا کہ ہنگاموں کے دوران مشتعل افراد نے اسے بھی کار کے ساتھ جلا دیا۔ پولیس یہی تو کرتی ہے۔

احمد صدیقی نے پوچھا،’’ جہاں کار جلائی گئی وہ جگہ اخبار کے آفس سے کتنے فاصلے پر ہے ۔؟‘‘

عمر نے سوچتے ہوئے کہا ۔’’ بائیک پر جایا جائے تو کوئی آدھا گھنٹا۔‘‘

’’ ہوں ۔۔‘‘ احمد صدیقی نے آگے بڑھ کر اس آدمی راشد بھروانا کا دوسرا فولڈر کھولا اور بولے۔

’’ فارنزک رپورٹ کے مطابق۔۔راشد بھروانا نامی اس آدمی کی موت لگ بھگ ساڑھے سات بجے ہوئی تھی۔‘‘

کیسا عجیب اتفاق ہے ‘‘۔ احمد صدیقی نے کہا

’’ ہم سمجھے نہیں ۔۔‘‘

’’ بھئی دیکھو نا۔۔جاوید باقری اگر اخبار کے آفس سے سات بجے ریلوے کالونی کی طرف روانہ ہوا ہوگا تو وہ اس جگہ، جہاں یہ کار جلائی گئی تھی ساڑھے سات بجے ہی پہنچا ہوگا ۔‘‘

علی نے نقشے پر اس جگہ انگلی رکھی جہاں کار جلائی گئی تھی ۔’’ مطلب وہ عین کار جلائے جانے کے وقت وہ یہاں ہوگا۔‘‘

جاوید نے اس وقت دیکھ لیا ہو گا کہ گاڑی کس نے جلائی اور اس نے کار جلائے جانے کی تصویریں بنا لی ہوگی۔‘‘

’’ اس کا مطلب ہے، وہ کار جلانے والے کو یا کار میں جلائے جانے والے کو پہچانتا تھا۔ اس نےمجرم کوکی تصویر بنائی پھر اسے بلیک میل کرنے لگا ۔‘‘

’احمد صدیقی نے تاسف سے کہا ،’’اور پھر خود مارا گیا ۔۔‘‘

’’ ہمیں یہ جاننا ہے کہ جاوید کا خون کس نے کیا تو یہ جاننے کے لیے پہلے یہ یہ پتا لگانا ہوگا کہ راشد بھروانا کا خون کس نے کیا ،کس نے اس کی گاڑی کو آگ لگائی ۔‘‘احمد صدیقی نے کہا

’’ یہ تو کیس میں سے ایک اور کیس نکل آیا ۔‘‘ عمر نے کہا

احمد صدیقی نے متعلقہ پولیس اسٹیشن فون کر کے راشد بھروانا کے گھر کا پتا حاصل کر لیا۔

احمد صدیقی بہ ظاہر وکیل تھے لیکن کچھ مخصوص اور اہم حلقوں میں احمد صدیقی کی ایک شہرت اسپیشل فورس کے ایک اہم ایجنٹ کی بھی تھی۔

زیادہ تر لوگ یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ زیرو ون کون ہے ۔۔وہ صرف اپنے موبائل فون پر آنے والی کال سے جان پاتے تھے کہ زیرو ون کی کال آرہی ہے۔ احمد صدیقی صرف اہم سچویشن میں ہی اسپیشل فورس کے لوگوں کی خدمات حاصل کرتے تھے۔

دوسرے دن عمر اور علی کے اسکول سے واپس آئے تو ان کے ابو جی ابھی تک آفس سے واپس نہیں آئے تھے، وہ عام طور پر لنچ گھر ہی کرتے تھے اور پھر واپس چلے جاتے تھے۔

ابھی عمر اور علی لنچ کر ہی رہے تھے کہ ان کی ابو جی کی کال آگئی۔

عمر نے کال ریسیو کی۔

’’ جی ابو جی ۔۔‘‘

’’ لنچ ہورہا ہے ۔۔‘‘ انہوں نے پوچھا۔

’’ جی ہاں ۔۔آپ نہیں آئے ۔۔؟‘‘

’’ میں راستے میں ہوں تم دونوں لنچ کرتے ہی باہر آجانا ٹھیک دس منٹ بعد ۔‘‘

’’ سمجھ گیا ابو جی ۔۔‘‘ یہ کہہ کر عمر نے فون کال منقطع کر دیا۔

’’ کیا کہہ رہے تھے ابوجی ۔۔؟‘‘

عمر نے جلدی جلدی پوری بات بتائی اور وہ لنچ میں مصروف ہوگیا۔

لنچ کرتے ہی وہ ٹھیک دس منٹ بعدگھر سے باہر آگئے۔

جوں ہی باہر آئے ان کے ابو جی کی گاڑی دروازے پر آگئی،’’ چلو ۔۔بیٹھو ۔۔‘‘

’’ کہاں جا رہے ہیں ہم ۔؟‘‘ انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی پوچھا۔

’’ اندازہ لگا ؤ۔‘‘ وہ مسکرا کر بولے ۔

’’ راشد بھروانا کے گھر ۔؟‘‘علی نے کہا

’’ ہاں ۔۔پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ پوش علاقے میں ایک عمدہ سے گھر کے سامنے کھڑے تھے۔

’’ یہ راشد بھروانا تو پیسے والا تھا ۔۔‘‘ عمر نے کہا۔

ہاں مگر، یہی پیسہ کبھی کبھی زندگی چھیننے کا سبب بن جاتا ہے ۔‘‘

دونوں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔

’’ آپ کو پتا چل گیا کہ راشد بھروانا کو پیسے کے لیے قتل کیا گیا ہے۔؟‘‘ علی نے تعجب سے پوچھا۔

’’ ہاں میرا خیال ہے اور ممکن ہے یہ خیال غلط ہو چلو بیل بجاؤ۔‘‘

وہ گاڑی سے اتر کر دروازے پر آچکے تھے۔

دروازے پر کسی وہاج سعیدی کی تختی لگی ہوئی تھی۔

’’ یہ تو کسی اور کا گھر ہے ۔وہاج سعیدی کی نیم پلیٹ ہے دروازے پر۔۔‘‘

احمد صدیقی مسکرائے ۔’’ تم بیل تو بجاؤ۔۔‘‘

علی نے آگے بڑھ کر بیل کے بٹن پر انگلی رکھ دی ۔چند ہی لمحوں بعد ایک چوکی دار نے دروازہ کھولا۔

’’ ہاں ۔۔‘‘ اس نے اکھڑ پن سے پوچھا ۔’’ یہ گھر راشد بھروانا کا۔۔‘‘

ان کی بات پوری نہیں ہوئی ۔۔اس نے بد تہذیبی سے کہا ۔’’ مرگیا وہ ۔۔‘‘

انہوں نے چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔’’ ان کی بیوی ۔۔؟‘‘

’’ ملیحہ میم ۔۔؟‘‘

’’ ہاں ۔۔ان سے ملنا ہے ۔۔‘‘

’’ ابھی تو تم کہتا تھا کہ راشد بھروانا۔۔‘‘ اس نے گھورتے ہوئے کہا۔

’’ ہم یہی کہنا چاہ رہے تھے کہ راشد بھروانا کی بیوی سے ملنا ہے،مگر آپ نے بات پوری نہیں ہو نے دی۔‘‘

اس نے تینوں کو باری باری گھورا اور دروازہ بند کر کے پلٹ گیا۔ چند لمحوں بعد واپس آیا ۔’’ نام کیا ہے ۔۔؟‘‘

احمد صدیقی نے ایک لمحہ سوچا اور جیب سے پرس نکال کر ایک کارڈ اس کی طرف بڑھا دیا ۔

’’ پڑھنا نہیں آتا ۔۔نام بتاؤ۔۔فون پہ بتائے گا ۔۔‘‘

’’ ان سے کہو ۔۔احمد صدیقی آئے ہیں ۔۔وکیل احمد صدیقی ۔۔؟‘‘

وہ چلا گیا ۔۔چند لمحوں بعد اس نے دروازہ کھولا ۔’’ اندر آجاؤ۔۔‘‘

کام والی لڑکی انہیں ڈرائنگ روم میں لے آئی۔ ڈرائنگ روم بہت پر تعیش تھا ،ہر چیز سے دولت ٹپک رہی تھی۔

وہ بیٹھ گئے، اسی وقت ایک نوجوان عورت جس نے انتہائی قیمتی لباس پہنا ہوا تھا، چہر ے پر حیرت سجائے سیڑھیوں سے اترتی دکھائی دی ۔’’ جی میں ملیحہ ہوں ۔۔‘‘

’’ میرا نام احمد صدیقی ہے۔ میں ایک اسپیشل ایجنسی سے ہوںاور ہم آپ کے شوہر راشد بھروانا کے قتل کی تفتیش کر رہے ہیں ۔‘‘

وہ ایک دم چونک کر ان کی طرف دیکھنے لگی۔

’’ کیا ہوا ۔۔آپ گھبرا کیوں گئیں ؟‘‘ عمر نے فورا کہا۔

تو اس نے تیزی سے خود کو سنبھالا۔’’ نن۔۔نہیں ۔۔میں گھبرائی نہیں ہوں ۔مجھے تو چوکیدار نے بتایاکہ کوئی وکیل ہیں ،مگر آپ تو ۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئی۔

ااحمد صدیقی نے مسکرا کر کہا۔

’’ اسپیشل فورس سے ہیں یہ بات ہر کسی کو تو نہیں بتا سکتے ۔‘‘

’’ اوہ ہاں ۔۔یہ بات تو ہے ۔۔‘‘

وہ بیٹھ گئی اور انہیں بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

’’ کیا میں آپ سے کسی قسم کی شناخت طلب کر سکتی ہوں ۔؟‘‘ (جاری ہے)