• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ کس قسم کی شناخت ۔۔؟‘‘احمد صدیقی نے پوچھا

’’ کوئی کارڈ ۔۔یا اسی نوعیت کی کوئی چیز ۔۔جس سے معلوم ہو کہ آپ ۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے ایک دم رکی پھر جیسے بھرم دیتے ہوئے بولی ۔

’’ اصل میں میرے انکل بھی پولیس میں ہیں ۔۔ایس پی ہیں ۔۔اس لیے ۔۔‘‘

’’ کیا نام ہے آپ کے انکل کا ۔۔؟‘‘

’’ ایس پی علی تاجی ۔۔‘‘

’’ ان کا نمبر تو ہو گا ۔۔آپ کے پاس ۔۔؟‘‘

’’ زبانی یاد ہے وہ گھر بھی آتے رہتے ہیں ۔‘‘

’’ ان کا نمبر بتائیے ۔۔میں ان سے آپ کی بات کر وادیتا ہوں کہ میں کون ہوں ۔‘‘

ملیحہ نے نمبر بتانے کی بہ جائے اپنے سیل فون سے ایک نمبر ملایا اور فون کال ملتے ہی بولی ۔’’ انکل میرے گھر ایک صاحب آئے ہیں، ان کے ساتھ دولڑکے بھی ہیں، کہتے ہیں کہ وہ ایجنسی کے لوگ ہیں، پھر اس نے مسکراتے ہوئے فون ان کی طرف بڑھایا۔

’’ لیجیے بات کیجیے ۔۔‘‘

احمد صدیقی نے فون لیا اور کان سے لگاتے ہوئے بولے۔

’’ ہیلو علی تاجی ۔۔کیسے ہو ۔۔احمد صدیقی بول رہا ہوں ۔۔‘‘

دوسری طرف سے چونک کر کہا گیا ۔

’’ اوہ ۔۔یہ آپ ہیں سر ۔۔؟‘‘

’’ ہاں میں، اپنی بھتیجی کو بتادیں، مجھے ان سے کچھ پوچھ گچھ کرنی ہے، ان کے شوہر کے قتل کے سلسلے میں ۔‘‘

’’ ٹھیک ہے سر آپ فون دیں ملیحہ کو ۔‘‘

احمد صدیقی نے مسکراتے ہوئے فون ملیحہ کی طرف بڑھا دیا۔

’’ جی انکل ۔۔‘‘پھر وہ دوسری طرف کی بات سنتی رہی ۔اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔

اس فون کو سنتے ہی راشد بھروانا کی بیوہ مودب انداز میں بات کرنے لگی۔

’’ جی سر، پوچھیے کیا پوچھنا ہے۔‘‘

احمد صدیقی نے مسکرا کر کہا۔

’’ہم آپ کے شوہر کے قتل کی تفتیش کر رہے ہیں۔‘‘

اس نے نظریں اٹھائیں اور حیرت سے بولی ۔

’’لیکن تعجب ہے ۔ چار سال بعد ؟‘‘

احمد صدیقی نے اثبات میں سر ہلایا۔‘‘

’’ تفتیش تو ہو چکی تھی ۔۔پولیس نے فائل بند کر دی تھی ۔‘‘

’’وہ ہمیں معلوم ہے ۔‘‘ احمد صدیقی نے بات درمیان میں کاٹ دی ۔

’’ ہم اس کیس کی نئے سرے سے تفتیش کر رہے ہیں ۔‘‘

’’ اس کی کیا وجہ ہے۔؟‘‘

’’ کچھ ایسے حالات و واقعات سامنے آئے ہیں کہ، اس کیس کو ری اوپن کرنا پڑے گا ۔‘‘

’’ میں سمجھی نہیں ۔‘‘ اس نے حیرانی سے کہا۔

’’ کیا آپ کو وہ شام یاد ہے ۔۔جب مسٹر راشد گھر سے باہر گئے تھے ۔‘‘

اس نے انکار میں سرہلایا ۔’’ وہ گھر سے باہر نہیں گئے تھے بلکہ آفس سے گھر آرہے تھے۔‘‘

’’ اوہ ۔۔‘‘’’ آفس سے نکلتے وقت آپ سے کیا بات ہوئی تھی ان کی، کچھ یاد ہے آپ کو۔‘‘

’’ وہی معمول کی بات ۔۔‘‘ ’’وہ شام میں کیسے بھول سکتی ہوں ۔۔بارہ جولائی کی رات کو راشد مجھے ہمیشہ کے لیے اکیلے چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔‘‘

وہ ایک دم اپنا چہرہ چھپا کر رونے لگی۔ احمد صدیقی ہمدردی سے بولے۔ ’’معذرت چاہتے ہیں آپ کو یہ سب یاد نہیں دلانا چاہیے تھا ،آپ کے زخم ہرے ہوگئے ۔‘‘

’’آپ خود سوچیے جھگڑا تھا پولیس کا اور عوام کا اور اس کے بیچ میں میرا گھر اجڑ گیا ۔۔کسی نے زندہ جلا دیا انہیں ہنگاموں کی آڑ میں ۔‘‘

اسی وقت دروازہ کھلا اور ایک نوجوان تیزی سے اندر آیا۔ آتے ہی بولا۔

’’ملیحہ جلدی تیار ہوجاؤ۔۔ ہمیں فورا چلنا ہے ۔ ایک زبردست پارٹی میں اور ۔۔ ‘‘وہ بولتے بولتے رک گیا۔

ایک دم سے اس کی نظر احمد صدیقی ،عمر اور علی پر پڑی،’’ اوہ آئی ایم سوری، کون ہیں آپ لوگ ۔۔؟‘‘

’’ ہم تو اپنا تعارف کر اہی دیں گے ۔۔آپ بتائیں ۔۔آپ کون ہیں ۔‘‘عمر نے کہا۔

اس کے جملے پر وہ نوجوان ایک دم اس کی طرف دیکھنے کے بعد ملیحہ کو دیکھنے لگا۔

’’ میں ۔۔میں ملیحہ کا شوہر ہوں ۔‘‘

تینوں بری طرح چونکے۔

’’ ملیحہ بھروانا کے شوہر ۔۔؟‘‘

’’ ملیحہ بھروانا یہ چار سال پہلے تھیں۔ اب میری بیوی ہیں اور ملیحہ وہاج کہلاتی ہیں ۔‘‘

’’ اوہ، تو آپ وہاج سعیدی ہیں۔ گھر کے دروازے پر آپ ہی کےنام کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی ہے۔؟‘‘

’’ جی ہاں، میں ہی وہاج سعیدی ہوں ۔‘‘ اس نے چونک کر کہا ۔’’ لیکن آپ نے اپنا تعارف نہیں کرایا۔۔آپ کون ہیں ۔‘‘

احمد صدیقی نے اپنا اور اپنے بیٹوں کا تعارف کرایا تو وہ ایک دم چپ ہوگیا ۔ذرا سٹپٹا کر ملیحہ کی طرف دیکھنے لگا۔

’’ یہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ملیحہ ،چار سال بعد اب یہ لوگ گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں ۔؟‘‘

یہ اسپیشل فورس کے آفیسر ہیں اور راشد کی موت کی تحقیقات کرنے آئے ہیں، اس کیس کو ری اوپن کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’ کیا کوئی خاص وجہ ہے۔ جواب چار سال بعد اس کیس کو ری اوپن کرنے کا خیال آیا ہے ۔‘‘

’’ جی ہاں، اس قتل کے بعد ۔۔‘‘

اس نے ان کی بات کاٹ دی۔ وہ تو حادثہ تھا۔ ہنگاموں میں کسی نے کار جلائی تھی اور وہ اس کار میں ہی زندہ جل گیا تھا ۔‘‘

’’ ہاں ۔۔اب ہی معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کار کس نے جلائی تھی ۔۔ہنگاموں کا فائدہ کس نے اٹھایا تھا ۔‘‘

وہ ایک دم چپ ہو گیااور دوسری طرف دیکھنے لگا۔

’’ آپ لوگوں کی شادی کب ہوئی ۔۔‘‘

’’ 2013۔۔‘‘ وہاج کے منہ سے ایک دم نکلا۔

دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا تھا۔

احمد صدیقی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

ایک سوال میں پوچھوں ابو جی۔؟‘‘ علی نے ایک دم پوچھا۔

’’ ہاں ہاں ۔۔پوچھو ۔۔‘‘ احمد صدیقی نے کہا

’’ مسٹر وہاج سعیدی ۔۔یہ گھر آپ کی ملکیت ہے ۔۔؟‘‘

وہاج نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا ’’ یہ کس قسم کا سوال ہے ۔۔؟‘‘

’’ ہاں تو آپ نے بتایا نہیں ۔۔؟‘‘ عمر نے کہا

’’ کیا نہیں بتایا ۔۔؟‘‘ وہاج عجیب سا ہوگیا۔

’’ یہی کہ یہ گھر آپ کا ہے ۔۔؟‘‘

’’ آف کورس۔۔مم۔۔میرا ہی ہے ۔۔کیوں ملیحہ ۔۔؟‘‘

’’ کیا کرتے ہیں آپ ۔۔؟‘‘ علی نے پوچھا۔

’’ کیا مطلب ۔۔؟‘‘

’’ مطلب ۔۔کام کیا کرتے ہیں آپ ۔۔؟‘‘

’’وہ ۔۔وہ ۔۔بزنس ہے ۔۔‘‘

’’ اچھا ۔۔کہاں ہے آفس ۔۔؟‘‘

اب وہاج بری طرح گھبرا گیا ۔’’ نن۔۔نہیں ۔۔ابھی آفس تو نہیں بنا ۔۔بنا رہا ہوں۔۔‘‘

اس کی گھبراہٹ دیکھ کرملیحہ کے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔

’’ آپ لوگ اتنا سٹپٹا کیوں رہے ہیں ۔۔؟‘‘ عمر نے پوچھا۔

’’ نہیں تو ۔۔نن۔۔نہیں تو ۔۔‘‘ وہاج نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔

’’ مسٹر وہاج ۔۔آپ کہتے ہی کہ یہ گھر آپ کا ہے ۔۔جب کہ ہماری معلومات کے مطابق۔۔یہ گھر ۔۔راشد بھروانا کا تھا ۔۔‘‘

وہاج نے ایک طویل سانس لی۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ اس کے گھر میں رہتا ہوں ۔۔تو یہ گھر میرا ہی ہوا نا ۔۔ویسے ۔۔یہ گھرراشد کا تھا، مگر ۔۔اب تو وہ اس دنیا میں نہیں رہا ۔۔اس کی صرف یادیں ہی رہ گئی ہیں۔۔‘‘

اس نے اس انداز میں کہا کہ سب ہی چونک گئے۔

’’ آپ جانتے تھے راشد بھروانا کو ۔۔؟‘‘ احمد صدیقی نے پوچھا۔

’’ہاں ۔۔بہت اچھی طرح ۔۔‘‘ وہاج نے جواب دیا۔

’’ مجھ سے زیادہ کون جانتا تھا اسے ۔۔‘‘

ملیحہ نے اس کی بات آگے بڑھائی۔

’’وہاج اور راشد بہت اچھے دوست تھے ۔۔کالج میں ہم تینوں ساتھ ساتھ تھے۔راشد کے جانے کے بعد وہاج نے مجھے سہارا دیا۔۔‘‘

’’ اوہ ۔۔اب سمجھا ۔۔‘‘احمد صدیقی کھڑے ہوگئے۔

’’ معاف کیجئے گا ۔۔ہم نے آپ کو تکلیف دی ۔۔ہم پھر آجائیں گے ۔۔بہت شکریہ ملیحہ جی ۔۔اور وہاج صاحب ۔۔‘‘

انہوں نے وہاج کی طرف ہاتھ بڑھایا، اور جب اس نے ہاتھ ملایا تو انہوں نے محسوس کیا کہ اس کا ہاتھ بہت دھیرے دھیرے لرز رہا تھا ۔ (جاری ہے)