• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمر نے کہا ۔’’ آپ مجھے یہاں اتار دیں اور علی کو ملیحہ کے گھر ۔‘‘

’’ کیوں ؟‘‘ احمد صدیقی نے چونک کر دیکھا۔

’’ میں اپنے طور پر سلطان راجا کے حوالے سے کام کروں گا اور علی، وہاج کے بارے میں۔ شام کو آپ کو رپورٹ دیں گے ۔‘‘

’’چلو تم یہیں اترو، میں علی کو لے کر جاتا ہوں ،شام کو ملتے ہیں ۔‘‘

ان کے جانے کے بعد عمر، سلطان کے بنگلے کا معائنہ کرنےلگا۔ بنگلہ خاصا بڑا تھا۔دروازے پر ایک باوردی چوکی دار کھڑا تھا۔ عین اسی وقت ایک چھوٹی سی پرانی کار بنگلے کے قریب آکر رکی، اس میں سے ایک آدمی باہر نکلا اوربنگلے میں چلا گیا۔ عمر برابر کے خالی پلاٹ کی طرف مڑ گیا۔ 

اس نے اچک کر دیوار کا سرا پکڑا اور سر ذرا اوپر کرکے اندر جھانکا۔ کوئی دکھائی نہیں دیا۔ رہائشی عمارت کے سامنے ایک غیر ملکی ماڈل کی پرانی مگر لگژری گاڑی کھڑی تھی۔ عمر خاموشی سے دیوار کے دوسری طرف اتر کراس طرف بڑھا جہاں گاڑی کھڑی تھی۔

ابھی وہ قریب پہنچا ہی تھا کہ اسے کسی کے باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ تیزی سے گاڑی کے پیچھے چھپ گیا، وہاں سے جھانک کر دیکھا تو بدمعاش نما آدمی عمارت کے دروازے کے قریب کھڑا تھا، اس کے قریب ہی ایک لمبا سا ادھیڑ عمر آدمی عمدہ لباس میں کھڑا کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔ عمر سمجھ گیا کہ یہی سلطان راجا ہے۔ وہ فون پر کہہ رہا تھا ۔’’ گھبراؤ مت سب ٹھیک ہو جائے گا، میں دیکھ لوں گا اس وکیل کے بچے کو ۔‘‘

اس نے فون بند کیا تو اندر آنے والا اس کی طرف بڑھا اور تیزی سے بولا، ’’سلطان صاحب، بات یہ ہے کہ پارٹی کہہ رہی تھی۔‘‘

سلطان نے اس کی بات کاٹ دی ۔’’بے وقوف ایسی باتیں کھلےعام نہیں کرتے، گاڑی میں بیٹھو پھر بات کرتے ہیں، میں اندر سے فائل لے کر آتا ہوں‘‘۔

عمر نے ایک لمحہ سوچا، پھر جیب سے ایک مڑا تڑا تار نکال کر کار کی ڈکی کا تالاکھول کر اس کی ڈگی میں چھپ کر بیٹھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی گھر پہنچا تو شام ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد عمر بھی تھکا ہارا گھر آگیا۔’’ ہاں بھئی ۔کیا رپورٹ ہے ۔؟‘‘ احمد صدیقی نے پوچھا۔

عمر نے ایک طویل سانس لے کر کہا ،’’ میں کسی نہ کسی طرح سلطان کے بنگلے میں داخل ہو گیا تھا۔ وہاں وہ کسی بدمعاش نما آدمی کے ساتھ کہیں جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ میں ان کی گاڑی کی ڈکی میں چھپ گیا۔ گاڑی ایک فائیو اسٹار ہوٹل پہنچی۔

وہاں وہ کسی پلاٹ وغیرہ کی ڈیل کر رہے تھے۔ ایک ویٹر سے باتوں باتوں میں، میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ سلطان کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔کنسٹرکشن کا کام تو ٹھپ ہو چکا ہے، اس کا، پلاٹوں کی ڈیل کرکے اپنا کمیشن کھرا کرتا ہے۔ مجھے ان کی باتیں سننے کا موقع بھی مل گیا۔

’’ ہوں ،گڈ رپورٹ اور علی تم نے کیا تیر مارا۔‘‘

’’وہاج ، راشد بھروانا کا دوست اور اس کے آفس میں مینجر تھا۔ اب وہ راشد کی بچی کچھی دولت پر زندگی گزار رہا ہے۔

’’ لیکن سوال یہ ہے کہ ان تینوں میں سے قاتل کون ہے ۔؟‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملیحہ بہت پریشان تھی۔’’ وہاج نے کہا۔ ’’ راشد کو مروانے میں ہمارا تو ہاتھ نہیں تھا۔‘‘ اسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔ ملیحہ نے فون اٹھایا اور اسپیکر آن کر دیا۔ دوسری طرف سے ایک غراتی ہوئی آواز سنائی دی۔

’’ میڈم ،کیسی ہیں آپ ۔؟‘‘

’’ کک کون بول رہا ہے ۔؟‘‘

دوسری طرف سے بے ڈھنگے پن سے ہنسنے کی آواز سنائی دی ۔’’میں جاوید کا وارث ہوں۔ دونوں نے حیرانی سے ایک دوسر ے کی

طرف دیکھا ۔’’کون جاوید ۔؟‘‘

دوسری طرف سے غرا کر کہا گیا ۔’’ڈرامے بازی بند کرو ۔ جاوید کو تو راستے سے ہٹا دیا لیکن میں بے وقوف نہیں ہوں‘‘ ( آگے کیا ہوا، قاتل کون تھ 14ویں آخری قسط میں ملاحظہ کریں)