• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسد بخاری

کسی گاؤں میں ایک دھوبی رہتا تھا، جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گاؤں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔ دھوبی اچھا کما لیتا تھا کہ باآسانی گزر بسر کر سکے، اس کے باوجود وہ بہت کنجوس تھا۔ خود تو مزے مزے کےکھانے کھاتا لیکن دن بھر محنت کرنے والے گدھے کو بھوکا رکھتا۔

کوئی اچھا چارا پا نی نہیں دیتا۔ گدھا بیچارہ بھوکا رہ رہ کر اس قدر لاغر ہو چکا تھا کہ اُس کے جسم کی ہڈیا ں تک واضح نظر آنے لگی تھیں، لیکن ظالم دھوبی کو اس معصوم جانور پر ذرا ترس نہ آتا۔ ایک دن دھوبی شہر والوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے لے جا رہا تھا کہ نقاہت کے باعث اچانک گدھا لڑکھڑا کر گر گیا۔

جس سے دھوبی کے سارے کپڑے مٹی میں گر کر خراب ہو گئے۔ دھوبی کو غصہ تو بہت آیا لیکن چونکہ وہ گدھے کی حالت دیکھ رہا تھا اس لئے اُسے مارنے سے باز رہا۔ وہ سنجیدگی سے اس بارے میں سوچنے لگا کہ ایسا کیا کام کیا جائے جس سے اُسے پیسے بھی نہ لگانے پڑیں اور گدھے کی خوراک کا بھی انتظام ہو جائے۔وہ انہی سوچوں میں گُم گدھے کو ساتھ لئے گاؤں کی طرف واپس جا رہا تھا کہ اُس کا گزر ایک جنگل سے ہوا، جہاں اُسے شیر کی کھال ملی۔ دھوبی کو ایک ترکیب سوجھی، اُس نے جھٹ کھال اٹھا کر گدھے کو پہنا دی۔

اگلے دن گدھے کو لے کر پاس کے کھیت میں گیا جہاں کسان کام کر رہے تھے۔انہوں نے جب شیر کو کھیتوں میں گھستے دیکھا تو وہ خوف کے مارے بھاگ کھڑے ہوئے خالی کھیت میں بھوکا گدھا مزے سے گھاس چرنے لگا۔ اب تو دھوبی نے روز کا یہی معمول بنا لیا وہ روزانہ گدھے کو کسی نہ کسی کے کھیت میں لے جاتا، لوگ شیر کی کھال میں چھپے گدھے کو شیر سمجھ کر ڈر جاتے اور اُسے بھگانے کی جرات نہ کرتے۔

دھوبی خود چھپ کر تماشہ دیکھتا ،جب گدھا گھاس چر لیتا تو اُسے لے کر واپس لوٹ آتا۔چند ہی دنو ں میں گدھے کی صحت بہتر ہو گئی اور دھوبی اس بات سے بے حد خوش تھا کہ بغیر کسی خرچ کے اُس نے گدھے کی خوراک کا انتظام کر لیا ہے۔ ایک دن حسبِ معمول دھوبی گدھے کو کھیت میں گھاس چرانے لے گیا، وہاں موجود لوگ شیر کو دیکھ کر خوف کے مارے بھاگ گئے۔

ان سب میں ایک سمجھدار آدمی بھی موجود تھا۔پہلے تو وہ بھی ڈر کر بھاگنے لگا لیکن اچانک جب اُس نے شیر کو گھاس چرتے دیکھا تو وہ ساری بات سمجھ گیا۔ اُسے درخت کی اوٹ میں چھپا دھوبی بھی نظر آ گیا تو ساری حقیقت واضح ہو گئی۔

اُس نے کھیتوں میں کام کرنے والوں کو پاس بُلایا اور انہیں ساری بات سمجھائی۔ سب نے مل کر دھوبی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔تمام لوگ پیچھے سے عین دھوبی کے سر پر آ کھڑے ہوئے۔ اُس نے مُڑ کر دیکھا تو اُسے اپنی شامت نظر آنے لگی۔

اس سے پہلے کہ وہ بھاگنے کی کوشش کرتا گاؤں کے لوگوں نے پکڑ کر نہ صرف اس کی خوب درگت بنائی بلکہ گدھا بھی اس سے چھین لیا۔ اس دن کے بعد دھوبی اپنے کاندھوں پر سامان لاد کر شہر سے لاتا اور لے جاتا ہے، جبکہ گدھے کا نیا مالک نہ صرف اُسے بے حد پیار کرتا ہے بلکہ کھانے کے لئے تازہ چارا مہیا کرتا ہے۔