• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختار احمد

گرامر اسکول اپنی پڑھائی کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ یہاں ڈسپلن کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ یہاں مختلف مضمون پڑھانے کے لیے الگ الگ ٹیچرز نہیں تھیں بلکہ ہر کلاس کی ایک ٹیچر مقرر تھی، جو نہایت تعلیم یافتہ تھیں۔ اس اسکول کے پہلی کلاس سے لے کر چوتھی کلاس کے بچے بہت تمیز دار اور پڑھائی میں دلچسپی لینے والے تھے، مگر پانچویں کلاس کے بچے بہت شرارتی تھے، جبکہ، ان کی کلاس ٹیچر مس ندا بہت اچھی تھیں۔ ان پر بہت محنت کرتی تھیں، مگر جب ماہانہ ٹیسٹ ہوئے تو اس کلاس کی کارکردگی کوئی خاص نہیں تھی۔ بیشتر لڑکے فیل ہوگئے تھے اور باقیوں نے جو مارکس لیے تھے وہ بھی تسلی بخش نہیں تھے۔

یہ رپورٹ جب پرنسپل کے پاس پہنچی تو ان کا پارہ ہائی ہوگیا۔ انہوں نے فوراً مس ندا کو اپنے کمرے میں طلب کیا۔ سب بچوں کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ ان کے رپورٹ کارڈ پرنسپل صاحبہ کی ٹیبل پر موجود ہیں۔ سن گن لینے کے لیے مس ندا کے پیچھے طارق بھی نکلا اور گھوم کر پرنسپل صاحبہ کے کمرے کی پشت پر آگیا۔ وہ اپنی کلاس کے لڑکوں میں سب سے بڑا تھا۔ پرنسپل صاحبہ کے کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھا اور وہاں سے اندر کا منظر بہ آسانی نظر آرہا تھا

طارق نے دیکھا کہ مس ندا سر جھکا کر پرنسپل صاحب کے سامنے بیٹھی ہیں۔ پرنسپل صاحبہ کے چہرے پر شدید غصے کے آثار تھے۔ انہوں نے رپورٹ کارڈ ان کے سامنے پھینک کر بولیں۔ "مس ندا فاطمہ، میں نے آپ کی گھریلو مجبوریاں دیکھ کر اپنے اسکول میں نوکری دی تھی۔ آپ کی کارکردگی سے میں بہت مایوس ہوں۔ پورے اسکول میں آپ کی کلاس کا نتیجہ سب سے برا ہے۔"

اس بے عزتی پر مس ندا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ "میں تو بہت کوشش کرتی ہوں۔ چوتھی کلاس پاس کرنے کے بعد اس کلاس میں ان بچوں کا یہ پہلا مہینہ ہے۔ ویسے بھی وہ دو ماہ کی چھٹیاں گزار کر آئے ہیں اس لیے پڑھائی پر زیادہ دھیان نہیں دے سکے۔ آپ مجھے ایک موقع دیں، میں کوشش کروں گی کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔"

مس ندا کی حالت دیکھ کر طارق کو افسردہ ہوگیا۔ وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ ہماری لاپرواہی کی وجہ سے مس ندا کو ڈانٹ سننا پڑی ہے۔ میں آپ کو آخری موقع دے رہی ہوں۔ آپ کی کلاس کا رزلٹ اگر ایسا ہی رہا تو یہ ہمارے اسکول کے لیے بدنامی کا باعث بنے گا۔ میں مجبور ہوجاؤں گی کہ آپ کی جگہ کسی اور ٹیچر کا بندوبست کرلوں۔ بس اب جائیے۔" پرنسپل صاحبہ نے نہایت سخت لہجے میں کہا۔

طارق بھاگ کر واپس اپنی کلاس میں آیا اور اپنے ساتھیوں کو بتانے لگا کہ پرنسپل صاحبہ کے کمرے میں کیا ہوا تھا۔ ابھی اس کی بات ختم ہوئی تھی کہ مس ندا بھی کلاس میں آگئیں۔ انہوں نے شکایت کا ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا۔ البتہ ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں، ان کا اداس چہرہ دیکھ کر بچے بھی اداس ہوگئے۔ ان کی وجہ سے ان کی پیاری مس کی بے عزتی ہوگئی تھی۔

طارق نے اپنی بوتل میں سے پانی نکالا اور ان کے پاس گیا۔ "مس پانی پی لیں۔" مس ندا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس سے پانی لے کر پی لیا۔

"شکریہ طارق۔" انہوں نے ایک نظر پوری کلاس پر ڈالی اور بولیں۔ "بچو۔ انٹرویل کی گھنٹی بج گئی ہے۔ اب آپ لوگ لنچ کر لیں۔" یہ کہہ کر وہ خود بھی اسٹاف روم میں چلی گئیں۔

سراج اپنی جماعت کا مانیٹر تھا۔ ان کے جانے کے بعد وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کربولا۔ "دوستو۔ طارق کی زبان سے سنے کے بعدلنچ کرنے کودل نہیں چاہ رہا ہے۔ اگر ہم لوگ ٹھیک طرح سے اپنا سبق یاد کرکے ٹیسٹ دیتے تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ وہ تو ہمیں بہت محنت سے پڑھاتی ہیں۔ یہ ہماری غلطی ہے کہ ہم دھیان نہیں دیتے۔ اس کا ازالہ ہم صرف اس طرح سے کر سکتے ہیں کہ اپنی پڑھائی میں خوب دلچسپی لیں، تاکہ انھیں آئندہ ہماری وجہ سے بے عزتی نہ اٹھانی پڑے۔"

سب بچوں نے اس بات کا عہد کیا کہ اب وہ خوب دل لگا کر پڑھیں گے اور نہ صرف ٹیسٹوں میں بلکہ سالانہ امتحانوں میں بھی سب سے زیادہ مارکس لے کر دکھائیں گے۔

اگلے روز پانچویں کلاس کے شرارتی بچے جو پورے اسکول میں بدنام تھے، اپنی کلاس میں موجود تھے اور پورے انہماک سے پڑھائی میں مصروف تھے۔ اس روز ان میں سے کوئی بھی واش روم جانے کے بہانے ادھر ادھر گھومتا نہیں دکھائی دیا۔ انٹرویل کے بعد چھٹی تک ایک وہ لوگ نہایت سنجیدگی سے اپنی پڑھائی میں مصروف رہے۔ مس ندا یہ سب کچھ دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں۔ 

ایک ماہ بعد پھر ٹیسٹ کا رزلٹ پرنسپل صاحبہ کی ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔ وہ حیرت سے پانچویں کلاس کے بچوں کے رپورٹ کارڈ دیکھ رہی تھیں۔ کوئی بچہ ایسا نہ تھا کہ جس نے نوے فی صدسےکم مارکس لیے ہوں۔ وہ اپنی سیٹ سے اٹھیں اور پانچویں کلاس میں آئیں۔ مس ندا بورڈ پر لکھ رہی تھیں اور تمام بچے ان کی طرف متوجہ تھے۔ پرنسپل صاحبہ کو دیکھ کر سب کھڑے ہوگئے۔

"مس ندا شاباش، آپ نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔"

"یہ سب ان بچوں کی محنت کا نتیجہ ہے"۔ مس ندا نے مسکرا کر کہا۔ پرنسپل صاحبہ نے خوش دلی سے کہا "ہمارے اسکول کے سب سے زیادہ شرارتی بچے اب سب سے زیادہ اچھے بن گئے ہیں۔