• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کرنے کیلئے بھارت نے 5اگست 2019ء کو جو کالے قوانین نافذ کئے تھے اب انہیں چارسال ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں کوشش یہ کی گئی کہ پوری مقبوضہ ریاست میں آبادی کا تناسب تبدیل کر دیا جائے۔ باہر سے ہندوؤں اور ریٹائرڈ فوجیوں کو لا کر آباد کیا جا چکا ہے، جن کیلئے خصوصی رہائشی کالونیاں تعمیر کی گئی ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر ریاست میں آزادی کی جدوجہد تیزہو اور کشمیری نوجوانوں کی سرگرمیوں پر قابو نہ پایا جا سکے تو ان ریٹائرڈفوجیوں کی ’’خدمات‘‘ حاصل کی جائیں جو نہ صرف آبادی کے تناسب کی تبدیلی میں مددگار ثابت ہوں بلکہ آزادی کی جدوجہد کچلنے میں بھی معاونت کریں، بیشتر مقامات پر مسلمان افسروں کی جگہ ہندو افسر تعینات کر دیئے گئے ہیں مسلمان خال خال ہی نظر آتے ہیں،غیر کشمیریوں کو ریاست میں جائیدادیں خریدنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے، سرمایہ کاری کے نام پر بھی ہندو ساہوکاروں کو کشمیر میں لایاجا چکاہے وہ جو املاک خرید رہے ہیں،اس کی 5اگست سے پہلے کسی کو اجازت نہ تھی اب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے غیر کشمیریوں کیلئے ریاست کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر مسلمان اکثریت کی ریاست ہے۔نریندر مودی جب پہلی مرتبہ 2014ء کے الیکشن کے بعد وزیراعظم بنے تھے تواس وقت سے ان کا منصوبہ یہ تھا کہ ریاست میں ہندو وزیراعلیٰ لایا جائے۔

باخبر ذرائع کے مطابق مودی سرکار نے اپنےحامیوں کے اطمینان کیلئے آزاد کشمیر پر حملے کی تیاری مکمل کر لی ہے، اور وہ کسی بھی وقت اچانک لائن آف کنٹرول کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس نے اگراپنے ان عزائم پر عمل کیا تو خطے میں کارگل جیسی جنگی صورت حال اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں جس سے انڈو پاک ہی نہیں ہمسایہ ممالک کے عوام کے متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے۔مودی کا خیال ہے کہ پاکستان کے اندرونی خلفشار اور معاشی بحران کے باعث آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کا یہ مناسب وقت ہے، جس کا ماضی میں اس کے ساتھی اعلان کرتے رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق اس حملے کا زیادہ امکان پونچھ اور میرپور سیکٹر میں ہے جہاں ہدف حاصل کرنا بھارت آسان سمجھ رہا ہے۔ بھارت نے آزاد کشمیر پر حملے کی تیاری اسی دن سے شروع کر رکھی ہے جب وزیر دفاع راج ناتھ نے اکتوبر 2022کو پڈگام میں بیان دیا تھا کہ اب ہماری فوج کا رخ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی طرف ہے جس پر قبضہ ان کی منزل ہے۔اس اعلان کے فوری بعد بھارتی سرکار مقبوضہ کشمیر میں غیر علانیہ جنگی ماحول بنا رہی ہے۔ امن وامان کے نام پر پہلے سے کثیر تعداد میں آرمی کے باوجود حالیہ دنوں میں خاموشی سے فوجی نفری میں اضافہ کیا گیا، فی الوقت 15 لاکھ سے زیادہ آرمی اور پیرا ملٹری فورسز کو مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں پہنچایا جا چکا ہے ، پونچھ، راولاکوٹ، کوٹلی،بھمبر اور میر پور سیکٹر کی سرحد کے قریب ترین علاقوں کے عوام کا کہنا ہے کہ رات کو سرحد پار گاڑیوں کی آمدورفت میں اچانک اضافے سے محسوس ہو رہا ہے کہ فوجی نقل و حمل غیر معمولی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چند ماہ کے دوران تیزی کے ساتھ فوجی حکمت عملی پر کام جاری رکھا ہوا ہے حتیٰ کہ ہندو شہریوں کو نان اسٹیٹ ایکٹر فورسز کے طور پر تیار کیا جا رہاہے جن کو سخت جان فوجی تربیت دے کر اسلحہ تقسیم کیا گیاتاکہ جنگ کی صورت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے یہ انتہا پسند ہندو کارکن فوج کے شانہ بشانہ لڑیں اور بوقت ضرورت مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں سے بھی نمٹ سکیں۔فوج کی مدد اور جموں و کشمیر کے نہتے و بے گناہ عوام کے قتل عام کیلئے ’’ویلیج ڈیفنس گارڈز‘‘کے نام سے نان اسٹیٹ ایکٹر فورس کو گائوں گائوں تیار کیا جا رہا ہے۔ اس سول فورس کو مختلف کیمپوں میں آرمی نہ صرف جنگی اسلحہ استعمال کرنا سکھا رہی ہے بلکہ سخت ترین جسمانی فوجی تربیت بھی دے رہی ہے۔

تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر پر اچانک بھارتی حملے کی تیاری کی خبریں کئی ذرائع سے آ رہی ہیں تاہم یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا مقام اور وقت کیا ہو سکتا ہے۔پاکستان کی فوج کو بھارت کے اس منصوبے کا ادراک ہے اور وہ بھی پوری طرح سے کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے چوکس ہے۔ ملک کی سلامتی کیلئے تمام ادارے، سیاستدان اور عوام ایک پیج پر ہیں،بھارت شاید بالاکوٹ ٹائپ کا دوسرا ایڈونچر کرنا چاہتا ہے۔لیکن اس کو پاکستان کی فوجی قوت اور ایٹمی طاقت کا اندازہ ہونا چاہئے کہ اس کے ساتھ بالاکوٹ میں ہوا کیا تھا۔ایسا نہ ہو کہ مودی کے فاشزم کی سزا پورے خطے کے عوام کو ملے۔دو ایٹمی قوتوں میں سے کسی ایک کے جارحانہ عزائم نہ صرف دونوں ممالک کے عوام بلکہ پورے خطے کیلئے خطرناک ہیں۔ بھارت میں کروڑوں ہندو انتہا پسند اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی پر امید ہیں کہ 2024میں جب مودی جی نئے انتخابات میں جائیں گے، اس سے پہلے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر چڑھائی کر کے اسے واپس حاصل کر لیں گے۔اسی طرح کے خیالات جموں کے راجیو ڈوگرہ کے ہیں، وہ کہتے ہیں ’’ جب تک مودی ہیں تب تک سب کچھ ممکن ہے۔ وہ کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے وعدے کے مطابق واپس حاصل کرکے دکھائیں گے، ورنہ ہم انہیں معاف نہیں کریں گے‘‘۔ پاکستان کی افواج اور آزاد کشمیر کی حکومت کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے خاص طور پر سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر شہریوں کیلئے لازمی ہے کہ وہ بھارتی فوج کی نقل و حمل پر نظر رکھیں اور کسی غیرمعمولی صورت حال کی صورت میں فوری طور پر مقامی انتظامیہ کو مطلع کریں تاکہ بھارت کے ناپاک عزائم پر قابو پایا جا سکے۔

تازہ ترین