ثاقب نثار صاحب بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں بلکہ انہیں عدلیہ کا عمران خان کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ دونوں میں بہت سے خصائل مشترک ہیں۔ عمران خان کی طرح ثاقب نثار بھی انقلابی دِکھنے کی ایسی ایکٹنگ کرسکتے ہیں کہ انسان شاباش دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اسی طرح عمران خان سیاسی فیصلوں میں یوٹرن لینے میں ثانی نہیں رکھتے اور ثاقب نثار صاحب دوران سماعت یا پھر فیصلہ سناتے وقت اچانک ایسا یوٹرن لیا کرتے کہ انسان حیران رہ جاتا۔
مثلاً جب اعظم سواتی نے باجوڑ سے مہاجر ہونے والے ایک غریب خاندان کے ساتھ ظلم کیا تو ثاقب نثار نے عدالت میں ایسا ماحول بنا رکھا تھا کہ جیسے اب اعظم سواتی کی خیر نہیں اور اس مظلوم خاندان کو انصاف مل کر رہے گا۔ تماشہ لگانے کیلئے انہوں نے عرفان منگی صاحب کی قیادت میں جے آئی ٹی بھی بنادی۔
اس جے آئی ٹی نے سرکار کے کروڑوں روپے خرچ کرکے شواہد کے ساتھ بڑی زبردست رپورٹ بھی مرتب کردی۔ اعظم سواتی کو مذکورہ خاندان کے ساتھ ظلم، سیلاب متاثرین کو ملین ڈالر کے جعلی نوٹ دینے، امریکہ میں شہریت کے حوالے سے دونمبری کرنے اور سی ڈی اے کی زمین پر قبضے کا مرتکب قرار دے دیا لیکن پھر اچانک یوٹرن لے کر ثاقب نثار نے اس رپورٹ کو دبا دیا۔
کوئی انصاف نہ ہوا اور آخری وقت تک سواتی صاحب وزارت کے مزے لوٹتے رہے۔ اسی طرح انہوں نے نقیب اللہ محسود کے معاملے میں عمران خان کی طرح بڑی ڈرامہ بازی کی۔ سوموٹو لے کر ہر طرف سے داد شجاعت وصول کی۔ نقیب اللہ محسود مرحوم کے مرحوم والد کے ساتھ انہوں نے بھری عدالت میں ایسے وعدے کئے کہ سماعت کے بعد ان کی خوشی دیدنی تھی لیکن اس معاملے میں بھی وہ ڈرامہ باز ثابت ہوئے اور آج تک نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کو سزا نہیں ہوئی۔
عمران خان اور ثاقب نثار میں ایک اور قدر مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں بڑے اعتماد سے ایسے انداز میں جھوٹ بولتے ہیں کہ مخاطب پکار اٹھتا ہے کہ سچ ہے تو بس یہی ہے۔ ثاقب نثار کی عمران خان کی تقلید ملاحظہ کیجئے کہ ایک ہی دن (پیر) ڈان نیوز کے اینکر عادل شاہزیب کو بتایا کہ ان کا عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں لیکن اسی روز سما ٹی وی کے مایہ ناز رپورٹر زاہد گشکوری کو بتایا کہ عمران خان سے دو ہفتے قبل بات ہوئی تھی اور انہوں نے مجھ سے عدالتی فیصلوں میں مدد طلب کی تھی۔
عمران خان نے اپنے آپ کو بہت بہادر مشہور کر رکھا ہے لیکن عملاً ایسا نہیں۔ بہادر انسان کی نشانی یہ ہے کہ وہ بروقت اور منہ پر سچ بیان کرتا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے میرے خلاف سازش کی ہے یا میرے قتل کا منصوبہ بنایا ہے وہ ویڈیوز میں نے مختلف جگہوں پر رکھی ہیں اور اگر کچھ ہوا تو وہ سامنے لائی جائیں گی۔
حالانکہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے یا ایسا راز ہے تو انہیں جرات کا مظاہرہ کرکے اب سامنے لانا چاہئے تاکہ قوم کو حقائق کا پتہ چلے۔ خدانخواستہ کچھ ہوجانے کے بعد ان کا کیا فائدہ ہوگا۔ اسی طرح ثاقب نثار صاحب بھی عمران خان صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی انکشافات پر مبنی کتاب ان کی وفات (اللہ انہیں لمبی زندگی دے) کے بعد شائع ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ پھر فائدہ کیا ہوگا؟ ہمت ہے تو اب ٹی وی پر بیٹھ کر سچ بولیں تاکہ دوسرا فریق بھی جواب دے سکے اور پتہ چل سکے کہ کون کتنے پانی میں ہے؟ عمران خان اور ثاقب نثار کی ایک اور عادت بھی مشترک ہے ۔ وہ یہ کہ دونوں کبھی یہ گمان نہیں کرتے کہ کوئی فرد اپنے نظریے یا اصول کی خاطر بھی کسی کی حمایت یا مخالفت کرسکتا ہے۔
مثلاً جو بھی صحافی عمران خان پر تنقید کرے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے مخالف فریق سے کوئی فائدہ لیا ہوگا حالانکہ صحافیوں، اینکرز اور یوٹیوبرز کو جس طرح عمران خان نے نوازا اور نواز رہے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ثاقب نثار بھی اپنے نفع و نقصان کو مدنظر رکھ کر نوٹسز لیتے اور فیصلے کرتے تھے لیکن دوسروں کے بارے میں بدگمانی سے کام لیتے رہے۔ الحمدللہ کے پی ایل آئی کے ڈاکٹر سعید اختر بھی زندہ ہیں اور انصار عباسی صاحب بھی۔ان سے تصدیق یا تردید کی جاسکتی کہ میں نہ ڈاکٹر سعید صاحب کو جانتا تھا اور نہ کبھی ان سے ملا تھا۔
مجھے انصار عباسی نے بتایا کہ اس طرح کے ایک ڈاکٹر امریکہ سے آئے ہیں۔ یہاں میاں بیوی نے کے پی ایل آئی جیسا عظیم ادارہ بنایا ہے لیکن نہ جانے کیوں ثاقب نثاران کے پیچھے پڑے ہیں اور میڈیا میں بھی ان کو بدنام کیا جارہا ہے۔ اس لئے اگر مناسب سمجھیں تو ان کا موقف جاننے کیلئے انہیں اپنے پروگرام جرگہ میں مدعو کریں۔
چنانچہ میرے پروڈیوسر نے ان کے ساتھ کوآرڈی نیشن کیا۔ میں نے انہیں لاہور سے ویڈیو لنک پر لیا اور اللہ گواہ ہے کہ اس پروگرام کے بعد بھی تین چار ماہ تک میں نے بالمشافہ ڈاکٹر صاحب کو نہیں دیکھا تھا لیکن اگلی سماعت پر ثاقب نثار صاحب نے ڈاکٹر سعید جیسے شریف النفس انسان کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ تم اینکرز کو پیسے دے کر ان سے اپنے حق میں پروگرام کراتے ہو۔
دونوں کی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ اپنے محسنوں کو معاف نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات انہیں ذلیل بھی کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کو جنرل باجوہ نے وزیراعظم سلیکٹ کروایا لیکن آج ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح نواز شریف نے ثاقب نثار کو لا سیکرٹری بنا کر احسان کیا تھا اور اس کا بدلہ انہوں نے نواز شریف کو جس انداز میں دیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
میں ثاقب نثار صاحب کی ناانصافیوں کی اسی طرح کی درجنوں مثالیں دے سکتا ہوں لیکن میرے نزدیک ان کی سب سے بڑی ناانصافی عمران خان کو صادق اور امین کا ٹائٹل دینا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ ٹائٹل صرف ایک ہستی کو جچتا ہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ اب کسی انسان یا اس کے سرپرستوں کو خوش رکھنے کے لئے عمران خان جیسے یا پھر کسی بھی بندے کو یہ ٹائٹل دینا ان کا ناقابل معافی جرم ہے۔
اسی طرح پانامہ میں نواز شریف کو سنگل آئوٹ کرکے تاحیات نااہل کرنا بھی ان کا بڑا جرم ہے لیکن صادق اور امین کے ٹائٹل کا جرم سب پر بھاری ہے۔ بہ ہرحال کچھ تو وقت نے ثابت کردیا اور جو ثابت نہیں ہوا وہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ صادق اور امین ایک بھی نہیں تھا بلکہ عمران خان سیاستدانوں کے ثاقب نثار اور ثاقب نثار عدلیہ کے عمران خان تھے۔ فرق یہ ہے کہ ایک نے سیاست اور دوسرے نے عدالت کو بے توقیر کیا۔