یہ مضمون تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ بیان کرتا ہے کہ مقامی حکومت کیو ں درکار ہے ؟ دوسرا2001 سے لے کر 2009 تک ہونے والے تجربے کا احاطہ کرتا ہے ۔ تیسرا اور آخری مقامی حکومتوں کیلئے ایک نظام تجویز کرتا ہے ۔
مقامی حکومت کیوں درکار ہے؟
عالمی بینک نے اپنی1997 ء کی رپورٹ میں کہا کہ حکومتیں اس وقت زیادہ موثرثابت ہوتی ہیں جب وہ کاروباری افراد اور شہریوں کی بات سنتی اور پالیسی سازی اور اس کے نفاذ کے عمل میں ان کی شمولیت یقینی بناتی ہیں ۔ حکومتوں میں بات سننے کے نظام کا فقدان ہو تو وہ عوام کے مفاد سے بیگانہ ہوجاتی ہیں ۔
1973 کا آئین دو درجوں والی حکومت کو بیان کرتا ہے: وفاقی اور صوبائی۔ 2010 میں 18ویں ترمیم کے بعد ایک نیا آرٹیکل 140A متعارف کرایا گیا جس میں کہا گیاکہ ،’’ہر صوبہ قانون کے مطابق مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اختیارات مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کوتفویض کرے گا۔‘‘سپریم کورٹ نے متعدد مواقع پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کی تاکید اور ہدایت کی ہے۔ آئین وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی تفصیل تو رکھتا ہے ، لیکن بدقسمتی سے مقامی حکومتوں کیلئے ایسی کوئی شق موجود نہیں۔ صوبائی حکومتیں اس ابہام کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ تاہم 2010 کے بعد سے وہ ان حکومتوں کیلئے کسی معقول قانون سازی کی کوشش میں ہیں۔ منطقی طور پر ایک بار جب صوبائی حکومتوں کو قابل تقسیم محصولات اور وفاقی حکومت کی طرف سے گرانٹس کے ساتھ مناسب اختیارات دیے جائیں تو پھر انھیںمقامی حکومتوں کو منتقل کیا جانا چاہئے۔
اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں طاقت کے مراکز میں اختیارات کے ارتکاز کے موجودہ کلچر نے نہ صرف گردونواح میں رہنے والی آبادی کو احساس محرومی کا شکار کردیا ہے بلکہ اس کی پیداواری صلاحیت بھی کم ہو گئی ہے۔ پھر یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہماری تحقیق نے 80 ایسے شعبوں کی نشاندہی کی جن کے مطابق عام شہری محرومی کے انڈیکس پر بدترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔اُنھیں بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں ۔ یہ صورت حال مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتی ہے۔
سیاسی جماعتیں جنہوں نے آئین میں اس آرٹیکل کو متعارف کرایاکیا وہ یہ نہیں سمجھتیں کہ اختیارات کے تبادلے کے ذریعے کمیونٹیز بااختیار بنانا، جس میں مقامی حکومت کا نظام ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، ہمارے معاشرے میں زیادہ اعتماداور ہم آہنگی کو فروغ دے گا۔ موثر اور مساوی طریقے سے بنیادی عوامی خدمات تک رسائی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ نتائج نہ صرف مقامی سطح پر اضافی وسائل کو متحرک کرنے میں مدد کریں گے بلکہ وسائل کے استعمال کو بھی بہتر بنائیں گے۔تاہم مرکزی سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی اور مقامی حکومت کو انتقالِ اقتدار کی مزاحمت انتہائی ناقابل فہم ہے، کیوں کہ مرکز سے صوبائی حکومت کو اختیارات کی منتقلی کا لازمی حصہ یہ تھا کہ ان اختیارات کو آگے ضلعی ناظموں یا میئروں کو منتقل کیا جائے ۔ وہ رہنماجو سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے اختیارات او ر اثر و رسوخ میں کمی آئے گی، و ہ پھر اراکین قومی یا صوبائی اسمبلی بننے کی بجائے ضلعی ناظم یا میئر کا الیکشن لڑلیں ۔
2001 سے 2009 تک ہونے والا تجربہ
پاکستان میں 2001 سے 2009 کے درمیان موجود بلدیاتی نظام کا معروضی جائزہ لینا مفید ہوگا۔ 2001 کے نظام میں بہت سی خامیاں تھیں، جن میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ امن و امان، ریونیو ریکارڈ، اور لینڈ ایڈمنسٹریشن کے افعال ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو غیر جانبدار سرکاری ملازمین کے پاس رہنا چاہئے تھا ۔ اسے ناظمین کو منتقل نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس صورت میں،ڈپٹی/اسسٹنٹ کمشنر کے دفاتر کو ختم نہیں کیا جانا چاہئے تھا ۔ ایسا کرنے سے ریاست کی رٹ کمزور ہوتی ہے۔ ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن آفیسر، ڈی سی او کے نئے بنائے گئے عہدے کی ایگزیکٹو اتھارٹی کو کمزور کر دیا گیا کیونکہ ان سے مجسٹریٹ کے اختیارات چھین لئے گئے تھے حالانکہ ان سے امن و امان کی بحالی، تجاوزات کے خاتمے، پرائس کنٹرول اور کئی طرح چونکہ بھرتیوں، تبادلوں، تقرریوں اور تادیبی کارروائیوں کے اختیارات صوبائی محکموں کے پاس رہے یہ صورت حال محکموں کی فعالیت کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی۔ قانون اور زمینی حقائق کےدرمیان فاصلہ عوام کیلئے نقصان دہ تھا۔ صوبائی حکومتوں کی جانب سے تیار کردہ نگرانی کے ناکافی انتظامات کی وجہ سے ضلعی حکومت کی سطح پر کرپشن پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ صوبائی سیکرٹریز نے ضلعی بیوروکریٹس پر کافی انتظامی اختیار برقرار رکھا اور ان اختیارات کو منتخب ناظمین کی افادیت کو کم کرنے کیلئےاستعمال کیا۔ ایک سہ فریقی محاذ آرائی ہونے لگی ، صوبائی وزراء اور سیکرٹریز نے ضلعی ناظمین کے خلاف صف آرائی کی۔ اس سے شہریوں کیلئےخدمات تک رسائی میں مشکلات بڑھ گئیں۔
اس دوران مالیاتی عدم مرکزیت محدود رہی کیوں کہ ضلعوں کو وسائل کیلئے صوبوں پر ہی انحصار کرنا تھا۔ ان کے پاس نئے محصولات جمع کرنے کا اختیار نہیں تھااور نہ ہی وہ سروس پر چارج لگا سکتے تھے ۔ اخراجات کے حوالے سے تنخواہوں ،معاوضوں اور مشاہروں کی ادائیگی ضلعی حکومتوں پر ڈال دی گئی ، اگرچہ وہ صوبے کے ملازمین تھے ۔ اس کی وجہ سے ضلعی حکومتوں کے پاس ترقیاتی اور دیگر امور کیلئے وسائل نہیں بچے۔
مقامی حکومت کے 90فیصد اخراجات صوبائی حکومتوں کی طرف سے ملنے والے وسائل سے پورے ہوتے تھے۔ مقامی مالیاتی نظام کو توسیع دینے اور اس ضمن میں عدم مرکزیت کی طرف قدم بڑھانے سے گریز اس نظام کی ایک اہم کمزوری تھی۔ صوبوں کے پاس وسائل میں مقامی حکومتوں کا حصہ 40فیصد تھا لیکن کل سرکاری اخراجات میں ان کا حصہ محض 13 فیصد تھا۔ صوبائی اور مقامی سطحوں پر وسائل کی منتقلی اس سے بہت کم رہی جس کی توقع تھی۔