’’صنفی مساوات ناصرف بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے، بلکہ ہمارے سب سے بڑے عالمی چیلنجوں کا حل بھی اسی میں پنہاں ہے، لیکن اس اہم انسانی حق کی پامالی کی وجہ سے نصف انسانیت پیچھے رہ گئی ہے۔‘‘ یہ بات عالمی یومِ خواتین 2023کی مناسبت سے اپنی ترجیحات اعلان کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئےکہی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’صنفی مساوات طاقت کا سوال ہے۔ پدرشاہی نظام، جس کی پشت پر ہزاروں سال کی طاقت ہے، پھر سے اپنی موجودگی کا احساس دِلانے کی کوشش کررہی ہے۔ اقوام متحدہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے ہر جگہ لڑ رہی ہے اور ان کے ساتھ کھڑی ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ صنفی مساوات کو کس قدر اہمیت دیتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف میں اسے مرکزی حیثیت دی گئی ہے اور خواتین کے حقوق کے لیے جاری جدوجہد کو ہر سال عالمی یومِ خواتین (IWD) کے ذریعے منایا جاتا ہے۔
گٹیرس نے، ’’عام انتخابات سے لے کر بورڈ رومز اور امن کی میزوں تک، ہر جگہ خواتین کی نمائندگی میں فرق کو ختم کرنے کے لیے کوٹہ سمیت دیگر اقدامات کی حمایت دُگنی کرنا ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں صنفی تفریق پر توجہ مرکوزکرنا‘‘ کے عزم کا اعادہ کیا، جو ڈیجیٹل دائرے میں بڑی عدم مساوات کو تقویت دینے کا باعث ہے۔
عالمی یومِ خواتین کیا ہے؟
عالمی یومِ خواتین ہر سال 8مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کی ابتداءفروری 1909ء میں ’نیشنل ویمنز ڈے‘ کے طور پر ہوئی۔ اس کے اگلے سال، کوپن ہیگن، ڈنمارک میں کام کرنے والی خواتین کی دوسری بین الاقوامی کانفرنس میں، حقوق نسواں کی کارکن کلارا زیٹکن نے خواتین کے عالمی دن کا مطالبہ کیا تاکہ انھیں مساوی حقوق کے لیے اپنے مطالبات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بڑی آواز فراہم کی جائے۔
فن لینڈ کی پہلی تین خواتین ارکان پارلیمنٹ سمیت 17 ممالک کی خواتین شرکاء نے اسے متفقہ طور پر منظور کیا۔ خواتین کا عالمی دن پہلی بار مارچ 1911 میں منایا گیا اور اس کی تاریخ 8 مارچ 1913 میں مقرر کی گئی۔ اقوام متحدہ نے اسے پہلی بار 1975 میں منایا اور 1996 میں اس نے پہلی سالانہ تھیم ’’ماضی کا جشن منانا، مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا‘‘ کا اعلان کیا۔
دنیا بھر میں یہ دن کس طرح منایا جاتا ہے؟
عالمی یومِ خواتین دنیا بھر کے کئی ممالک میں قومی تعطیل کے ساتھ منایا جاتا ہے، خواتین کو پھول اور تحائف پیش کیے جاتے ہیں اور اس حوالے سے دنیا بھر کے بڑے شہروں میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ 8 مارچ، 1914 کو، لندن میں خواتین کے حق رائے دہی کے لیے مارچ کیا گیا، اس میں خواتین کے حق رائے دہی کا مطالبہ کیا گیا، جس کے ردِعمل میں یہ ہائی پروفائل مہم چلانے والی سلویا پنکھرسٹ کو گرفتار کر لیا گیا۔
2001میں، اس دن کے لیے دوبارہ توجہ دلانے، خواتین کی کامیابیوں کا جشن منانے اور صنفی مساوات کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے Internationalwomensday.com پلیٹ فارم کا آغاز کیا گیا تھا۔
2011میں صد سالہ پر، اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما نے مارچ کو خواتین کی تاریخ کے مہینے کے طور پر پکارنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب خواتین اور لڑکیوں کو مواقع تک رسائی حاصل ہوتی ہے، معاشرے زیادہ انصاف پسند ہوتے ہیں، معیشتوں کے خوشحال ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اور حکومتیں اپنے تمام لوگوں کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کرتی ہیں۔‘‘
8مارچ کی تاریخ کیوں؟
کلارا نے خواتین کے عالمی دن کے لیے کوئی خاص تاریخ منتخب نہیں کی تھی۔ اور یہ 1917 تک متعین بھی نہیں ہوئی تھی جب پہلی عالمی جنگ کے دوران روسی خواتین نے ’روٹی اور امن‘ کے مطالبات کے ساتھ ہڑتال کر دی اور چار دن کے بعد روسی سربراہ کو حکومت چھوڑنی پڑی اور خواتین کو ووٹ کا عبوری حق مل گیا۔
جس دن روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی تھی وہ جولیئن کیلنڈر میں 23 فروری تھی جو موجودہ کیلنڈر میں 8 مارچ ہے اور اسی لیے یہ آج کی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔