خواتین دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا تعمیری کردار ادا کر رہی ہیں جن میں زراعت کا شعبہ نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ایشیائی زرعی نظام میں دیہی خواتین کا کردار اہم اور ممتاز ہے۔ جی ڈی پی میں اضافہ کے لحاظ سے پاکستان کا زرعی شعبہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے۔ ہماری محنتی خواتین کو ہماری زراعت پر منحصر معیشت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ محنت کش خواتین خوراک کی پیداوار میں مردوں کے ساتھ ساتھ کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کی دیہی خواتین نہ صرف بچوں، گھر اور باورچی خانے کو دیکھتی ہیں بلکہ وہ کھیتی باڑی میں مردوں کا ہاتھ بھی بٹاتی ہیں۔
تازہ اعداد وشمار کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں زراعت سے منسلک عورتیں کل مزدور عورتوں کا 63 فیصد ہیں اور ایشیا میں آج بھی زرعی شعبوں میں خواہ وہ شہری ہوں یا دیہی، عورتوں کا حصہ زیادہ ہے۔ زراعت اور اس سے جڑے دوسرے غیر رسمی شعبے کم آمدنی والے ملکوں کی 80 فیصد عورتوں کو روزی روٹی کی ضمانت دیتے ہیں جبکہ متوسط آمدنی والے ملکوں میں یہ شرح 40 فیصد ہے۔ واضح رہے کہ یہ ممالک دنیا کی کل آبادی کے 85 فیصد پر مشتمل ہیں۔
پاکستان میں دیہی عورت کا زراعت میں جو اہم کردار بنتا ہے اسے کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر بدقسمتی سے ان کے اس کردار کو خاطر خواہ شناخت حاصل نہیں۔ اس وقت کم و بیش 43 فیصد دیہی عورتیں زرعی کاموں سے منسلک ہیں۔ کھیت میں ہونے والی بیشتر سرگرمیاں انہی کی وجہ سے پایہء تکمیل کو پہنچتی ہیں۔ مثال کے طور پر جڑی بوٹیوں کی تلفی، گوڈی و نلائی، کپاس کی چنائی ، بیجوں کو ریشوں سے الگ کرنا، کاٹن جننگ فیکٹریوں میں کام کرنا سمیت کیڑے مار دواؤں کی تیاری اور مکسنگ میں بھی عورتیں مردوں کی مدد کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مویشیوں کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں۔
زراعت کے شعبے میں فعال کردار ادا کرنے والی کمپنی فاطمہ فرٹیلائزر نے ہمیشہ کسانوں، خاص طور پر خواتین کسانوں کی بہتری کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ پاکستان کی زرعی صنعت میں خواتین کاشتکاروں کی بھرپور شرکت کے اعتراف میں شروع کیا گیا فاطمہ فرٹیلائزر کا ’سرسبزتعبیر‘پروگرام اس بات کا ثبوت ہے۔ زراعت کے شعبے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ، سرسبز تعبیر پاکستان میں کاشتکارخواتین کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے لیے ایک قابل تحسین عمل ہے۔ یہ پروگرام کاشتکار خواتین کو مطلوبہ وسائل، تعلیم اور ترقی کے مواقع فراہم کرکے انہیں بااختیار بنانے میں سرگرم ہے۔
سرسبز تعبیر پروگرام کے تحت سرسبز نے 2022 کے تباہ کن سیلاب سے متاثر ہونے والی کاشتکار خواتین کو امداد فراہم کی۔ اُن مشکل حالات کے پیشِ نظر سرسبز تعبیر پروگرام کاشتکار خواتین کو راشن، خیمے، کمبل اور حفظان صحت کی خصوصی کٹس فراہم کرکے ان کی مشکلات کو کم کرنے کا باعث بنا۔ اس پروگرام نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں تین مہمات چلائیں، جس میں نواب شاہ میں 125خاندانوں اور سوات اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں 50 خاندان فی علاقہ کو مددفراہم کی گئی۔
اس کے ساتھ ساتھ سرسبز تعبیر پروگرام کا مقصد کاشتکار خواتین کو فوڈ پروسیسنگ کی مہارتوں میں تربیت دے کر بااختیار بنانا ہے تاکہ خام پیداوار کو فروخت کے قابل کھانے کی مصنوعات میں تبدیل کیا جا سکے۔ یہ اقدام خوراک کے ضیاع کو روکنے اور ان کاشتکارخواتین کی متوقع آمدنی میں اضافہ کرنے کا بھی باعث بنے گا۔ سرسبزتعبیر پروگرام اب تک یو ایس ایڈ کے تصدیق شدہ ٹرینرز کے ساتھ تین تربیتیں مکمل کر چکا ہے ، جس سے لودھراں، خانیوال اور فیصل آباد کے علاقوں میں تقریباً 200 خواتین مستفید ہو رہی ہیں، جبکہ پورے پاکستان میں مزید بیس ٹریننگز متوقع ہیں۔
فاطمہ فرٹیلائزر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ترقی پسندکاشتکار خواتین کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی سرگرم ہے۔ 'سرسبز' نے دبئی ایکسپو 2020 کے دوران پاکستان پویلین میں رابعہ سلطان، عذرا محمود اور نازو دھاریجو سمیت غیر معمولی طور پر متاثر کن پاکستانی کاشتکار خواتین کے اعزاز میں ایک خصوصی پینل ڈسکشن منعقد کی جہاں انہوں نے اپنی کہانیاں دنیا کے ساتھ شیئر کیں۔ ان کی حقیقی زندگی کی کہانیوں نے پاکستانی دیہی خواتین کی ایک نئی جرات مندانہ اور لچکدار تصویر پیش کی۔
سرسبز نے ویب سیریز ’سرسبز کہانی‘ کا بھی آغاز کیا جو پاکستان کی دیہی برادری کی سچی کہانیوں کو مختصر فلموں کی سیریز میں دنیا کے سامنے لاتی ہے۔ پہلی قسط نازو کی کہانی تھی جو کہ سندھ کی ایک بہادر لڑکی ہے جس نے اپنی زمین بچانے کے لیے ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا اور دوسری قسط نے جگنو محسن کی کوششوں اور کپاس کی کھوئی ہوئی فصل خاکی دیساں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ان کی جدوجہد پر روشنی ڈالی۔ ان کہانیوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے دیہی شعبے میں خواتین کتنی بااختیار، باہمت اور پرعزم ہیں۔
فاطمہ فرٹیلائزر زرعی شعبے میں خواتین کی نمایاں شراکت کو تسلیم کرتی ہے۔ جیسے جیسے خواتین کے لیے تعلیمی اور تربیتی ادارے فروغ پا رہے ہیں، مزید خواتین مختلف پیشہ ورانہ شعبوں میں حصہ لینے کے قابل ہورہی ہیں اور ملک کی معاشی اور سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ تاہم، نوکری پیشہ اور کاروباری خواتین کو حکومت کی جانب سے مدد اور مساوی حقوق اور مواقع فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔