• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توشہ خانہ میں جس طرح سب کے تحائف سامنے آئے، اس پر ایک لطیفہ یاد آیا۔بیس سال پہلے ،ہم اس وقت اسکول میں تھے،ایک دن سر نے کوئی سوال پوچھا۔ میرے ایک نالائق سے ہم جماعت نے فوراً ہاتھ کھڑا کیا۔ ہر سوال پہ اس کا بازو بلند ہوتا۔ مجھے کافی حیرت ہوئی کہ اتنا لائق وہ تھا نہیں۔ بعد میں اس سے پوچھا تو کہنے لگا:کانفیڈنس سے ہاتھ کھڑا کر دو تو سر سمجھتے ہیں کہ اسے سبق یاد ہے۔ یاد رکھو، استاد کی نگاہیں ایسے میں ان بچوں کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں، جنہیں کچھ نہ آتا ہو اور اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ استاد سے وہ نظریں چرا رہے ہوتے ہیں۔ ”سر کو اپنے کانفیڈنس کی مار مارو“ اس نے یہ قیمتی نسخہ مجھے بتایا۔

کچھ دن یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر ایک دن سر کو شک ہوا۔وہ جب بازو بلند کئے کلاس میں پھدک رہا تھا۔ سر نے کہا: ہاں تم بتاؤ۔ اس نے پھر کھڑے ہو کر بتیسی نکال دی کہ نہیں آتا۔سب بہت محظوظ ہوئے۔ سر کہنے لگے کہ میں نے اس سے پوچھنا بھی نہیں تھا۔ صرف اس کے پھدکنے اور بازو پھڑپھڑانے کی وجہ سے پوچھ لیا۔

ایسا لگتا ہے کہ توشہ خانے میں پوری حکومت قوم کو اپنے کانفیڈنس کی مار ماررہی تھی۔ اندر ہی اندر گھڑیاں اور تحائف سب نے لئے ہوئے تھے۔ آپ کوجب پتہ ہے کہ آپ نے بھی گھڑیاں لے رکھی ہیں تو عمران خان کو آپ کس منہ سے گھڑی چور کہہ رہے ہیں۔صرف اس امید پہ کہ ہمارا ڈیٹاکبھی سامنے نہیں آئے گا۔ اب جو لطیف صورتِ حال پیدا ہوئی ہے، بالخصوص محترمہ مریم اورنگزیب صاحبہ کے حوالے سے کہ وہ بڑے طنطنے کے ساتھ عمران خان کو ”گھڑی چور“ کہا کرتی تھیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ شریف خاندان ہمیشہ سے لندن فلیٹس کی ملکیت سے انکار کرتا آیا تھا۔ مریم نواز صاحبہ نے کہا تھا کہ میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں۔ میں اپنے والد کے گھر میں رہتی ہوں۔ پھر جب یہ بات پھیل گئی کہ پانامہ لیکس سامنے آنے لگی ہیں اور سیاستدانوں کی خفیہ جائیدادیں منظرِ عام پر آجائیں گی تو حسین نواز نے فوراً انٹرویو دیا۔ کہا:الحمد للہ لندن فلیٹس ہمارے ہیں۔

عمران خان کی طرف سے گھڑی اور دیگر تحائف کی فروخت پر حکومت کو یہ موقف اپنانا چاہئے تھا کہ تحائف ہم بھی لیتے رہے ہیں لیکن خان صاحب تو اپنے آپ کو بڑے ایماندار بلکہ عظیم مصلح کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ان کو کیا یہ زیب دیتا تھا کہ مارکیٹ میں یہ تحائف فروخت کر کے باقی رقم اپنی جیب میں ڈال لیں۔ یہ بات ہے بھی درست کہ عمران خان کا جو قد ہے، جس طرح انہوں نے دولت کے حصول کو اپنی زندگی کامقصد بنانے کی بجائے شوکت خانم اسپتال اور نمل جیسے تعلیمی ادارے بنائے، انہیں یہ واقعی زیب نہیں دیتا تھا۔ لطیفہ یہ ہے کہ خا ن صاحب نے یہ کارنامہ سرانجام دیا بھی نہیں۔ تحائف کی فروخت اور اس سے جتنی شرمندگی خان صاحب کو اٹھانا پڑی یہ ان کی اہلیہ کی وجہ سے ہوئی، جنہوں نے ان کاموں کیلئے گوگی کو بھرتی کیا ہوا تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ نجی باتوں کو زیرِ بحث نہیں لانا چاہئے۔ کیا ان کی اہلیہ کی طرف سے تحائف کی فروخت سے عمران خان کی سیاست کیلئے شدید مسائل پیدا نہ ہوئے؟ کئی مہینے تک مسلسل سبکی۔ ایک جگہ خان صاحب تشریف لے گئے تو حریف گھڑی چور کے نعرے لگانے لگے۔

ایک وہی کیا، خان صاحب کے اقتدار میں آنے کا امکان پیدا ہوا تو لٹیروں کی ایک پوری نسل نے عمران خان کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ ایک بار کپتان نے خود بتایا کہ وہ سیاستدان جو ان سے بات کرنے کے روادار نہیں تھے، وہ پارٹی عہدوں کیلئے ان کے آگے پیچھے پھرنے لگے۔ ان سے کہنے لگے کہ ہم تو شروع ہی سے آپ کو پسند کرتے تھے، بس پارٹی شمولیت میں تھوڑی سی دیر ہو گئی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ خان صاحب کی حکومت میں مریم نواز صاحبہ نے کہا تھا کہ اگر تیل مہنگا ہو تو جان لو کہ تمہارا وزیرِ اعظم چور ہے۔ بعد میں پی ڈی ایم کی حکومت نے کئی مرتبہ بے تحاشا قیمت بڑھائی۔نواز شریف کی حکومت میں اسد عمر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جس نرخ پہ شریف حکومت بیچ رہی ہے، اس سے کہیں سستا فروخت ہونا چاہئے اور ہم برسرِ اقتدار آ کر سستا بیچیں گے۔ خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد اگر مجھے قرض لینا پڑا تو میں خودکشی کر لوں گا۔ یہ سب محض سیاست برائے سیاست ہے۔ حاصل اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ سچ بولنا چاہئے۔ خان صاحب کو کہنا چاہئے تھا کہ قرض اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ہمیں بھی برسرِ اقتدار آکر شروع میں قرض لینا پڑیں گے لیکن ہمارے پاس ایک مکمل منصوبہ ہے، جس کے ذریعے ہم ادائیگی شروع کریں گے۔ویسے خان صاحب کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ معاشی صورتِ حال کتنی خراب ہو چکی یہ اور بھی خوفناک صورتِ حال ہے کہ لیڈر کو حالات کی خرابی کا اندازہ ہی نہ ہو۔

مسئلہ یہی ہے کہ سچ کوئی نہیں بولتا۔ ہر شخص اپوزیشن میں رہتے ہوئے مقبول نعرے بلند کرتا ہے۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد اسے پسپائی اختیار کرناپڑتی ہے۔ پی ڈی ایم کی ذہانت کا تو آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ خان صاحب کا دورِ حکومت ختم ہونے کا انتظار کرنے اور پھر پانچ سال کیلئے حکومت لینے کی بجائے پی ٹی آئی کی حکومت گرادی۔ تیل مہنگا کرنے سے وہ سب مشکل فیصلے جو کپتان کو کرنا تھے، وہ اپنے اوپر لئے۔ خان صاحب کی مقبولیت کا گراف پھر سے بلند ہوگیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین