• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہل پاکستان کیلئے حوصلہ بخش لمحہ ہے کہ سینٹ آف پاکستان اپنے قیام کی گولڈن جوبلی منا رہا ہے 1973کے دستور پاکستان نے وفاقیت کیلئے قوم کی جدوجہد اور کاوشوں کو آواز دی اور ایک دو ایوانی مقننہ کا قیام ممکن ہوا، قومی اسمبلی اور سینٹ پر مشتمل پارلیمانی نظام متعارف ہوا، پاکستان کو وفاقی ریاست کی حیثیت سے ترقی کے یکساں مواقع فراہم کئے اور وفاقی اکائیوں کو وفاقی سطح پر برابر کی نمائندگی کا موقع فراہم کرنے کیلئے ایوان بالا کا قیام عمل میں لایا گیا، بنیادی مقصد صوبوں کے حقوق اور مفادات کا بہتر انداز میں تحفظ کیا جا سکے ، کیونکہ ایک مضبوط ایوان بالا ہی وفاقی نوعیت کی مضبوط ریاست کی ضمانت دے سکتا ہے۔ 

وفاقی اکائیوں کو برابر کی بنیاد پر نمائندگی کا ایک اور بنیادی مقصد یہ تھا، کیونکہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کی آبادی جو کہ قومی اسمبلی کی رکنیت کی بنیاد ہے تینوں صوبوں کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ ہے ،اسلئے سینٹ میں صوبوں کو برابر کی بنیاد پر نمائندگی دی گئی تاکہ قومی اسمبلی میں آباد ی کی بنیاد پر پیدا تفریق کو متوازن کیا جا سکے، آئین کے ذریعے سینٹ کا کردار قومی یکجہتی وہم آہنگی کا فروغ متعین کیا گیا تاکہ چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی یا احساس استحصال کا شائبہ تک نہ ہو۔

سینٹ ایک مستقل ادارہ ہے جسے تحلیل نہیں کیا جا سکتا، جنرل ضیا الحق کے مارشل لا اور جنرل پرویز مشرف کے 1999 ء کے غیر اعلانیہ مارشل لا میں دونوں ایوان بند کر دیئے گئے تھے ، آئین نے چیئرمین سینٹ کو یہ اختیار دیا کہ جب بھی صدر پاکستان کا عہدہ خالی ہو گا چیئرمین سینٹ قائم مقام صدر کی حیثیت سے فرائض ادا کریں گے ، حالیہ سیاسی تاریخ میں 9 اپریل 2022 کو جب عمران حکومت نو کانفی ڈینس ووٹ سے ختم ہوئی تو میاں شہباز شریف اعتماد کے ووٹ سے وزیر اعظم بنے، 11 اپریل 2022 کو نئے وزیر اعظم کی حیثیت سے میاں شہباز شریف کی حلف برداری کا مرحلہ آیا تو اس وقت صدر عارف علوی بیمار ہوگئے ،وہ چھٹی پر تھے، ان کی عدم موجودگی میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے قائم مقام صدر کی حیثیت سے نئے منتخب وزیر اعظم سے ایوان صدر میں حلف لیا تھا۔ دستو ر میں ترمیم ہو یا عمومی قانون سازی، کوئی بل اس وقت تک منظور نہیں ہوتا،جب تک قومی اسمبلی کے ساتھ سینٹ سے منظوری نہ ہو۔

6اگست 1973ء ، پہلی سینیٹ کے چیئرمین حبیب اللہ خان حلف اٹھارہے ہیں
6اگست 1973ء ، پہلی سینیٹ کے چیئرمین حبیب اللہ خان حلف اٹھارہے ہیں 

پارلیمانی کمیٹیوں کی کارکردگی کسی بھی ملک میں پارلیمان کی توقیر اور فعالیت کا فیصلہ کرتی ہیں ،میاں رضا ربانی کے عہدچیئرمینی میں ایک نئی پارلیمانی روایت اپنائی گئی ، اداروں میں ہم آہنگی ،سول ملٹری ریلیشن شپ عدلیہ اور پارلیمان میں بہتر تعلقات کا ر، کا لجز اور یونیورسٹیز میں اسٹوڈینٹس یونیز کی بحالی ،داخلی سلامتی کے مسائل سمیت دیگر قومی بحرانوں پر اتفاق رائے سے لائحہ عمل کی تیاری کیلئے پورے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی کو رواج دیا گیا ، عسکری قیادت نے ان کیمرہ سیشن میں پارلیمان کو اعتماد میں لیا ،جبکہ 5 سال قبل چیف جسٹس ظہیر جمالی کو سینٹ سے خطاب کا موقعہ دیا گیا۔ 

دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کے ایوان بالا کو زیادہ خود مختار بنانے کیلئے وسیم سجاد، رضا ربانی ،سید نیئر حسین بخاری، فاروق ایچ نائیک اور صادق سنجرانی کی کاوشیں لائق تحسین ہیں، اس سے وفاقی اکائیوں کیلئے موثر انداز میں آواز اٹھانے، خاص طور پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ایوان بالا کے ووٹ کو برابری کی اہمیت دی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سینٹ آف پاکستان وفاقی اکائیوں کے حقوق کے محافظ کی حیثیت سے اجاگر ہوا ہے او رصوبوں کو اختیارات کی منتقلی میں درپیش مسائل کے حل کرنے میں مدد ملی۔

پاکستانی عوام کیلئےلمحہ انبساط و مسرت ہے کہ وفاق اور صوبوں کے مابین ہم آہنگی کیلئے 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو وفاق سے وہ تمام اختیارات منتقل کئے گئے جس کا عوام سے آئین کے ذریعے وعدہ کیا گیا تھا، پبلک اکائونٹس کمیٹی میں سینٹ کی نمائندگی سے ایگزیکٹو کے پارلیمانی احتساب کا نظام مزید موثر ہو گیا ہے، اسی وسیلے سے پارلیمانی اور جمہوری اصولوں کو ایک نئے آدرش کے ساتھ عام کرنے میں مدد ملے گی۔پہلی سینٹ نے 6 اگست 1973ء کواسلام آباد میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی عمارت میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ 45 رکنی سینٹ کا پہلا انتخاب قومی اسمبلی (وفاقی دارالحکومت اور قبائلی علاقہ جات کے لئے ) اور صوبائی اسمبلیوں نے صوبائی سینیٹروں کے لئے سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کے ذریعے کیا۔ 

اس نظام کو اپنانے کا مقصد تھا کہ صوبےکی چھوٹی سے چھوٹی آواز کو بھی وفاق میں نمائندگی ملے۔ اس وقت سینٹ کی مدت 4 سال تھی۔ ٹوٹتی بنتی اسمبلیوں کے اس ملک میں ایک مستقل ادارے کا آئینی تحفظ دیا گیا۔ آدھے سینیٹر ز 1975ء میں قرعہ اندازی کے ذریعے ریٹائرڈ ہو گئے اور نئے آنے والوں کے بعد توقع یہ تھی کہ ہر دو سال بعد انتخابات اس میں نئی نمائندگی لا پائیں گے۔ 1977ء میں سینیٹرز کی تعدد میں اضافہ ہوا اور اسکے اراکین کی تعداد 63 ہو گئی۔ ہر صوبے سے 14، قبائلی علاقوں سے 5 اور وفاقی حکومت سے 2 سینیٹرز شامل ہوئے۔ 

1973ء کے آئین کی تشکیل کے وقت سینٹ کی اہمیت پر تقریر کرتے ہوئے اس وقت کے نو جوان رکن اسمبلی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اس کے لئے ( ہاؤس آف فیڈریشن ) کا نام استعمال کیا۔ یہ نام 30 برس بعد سینٹ کے مونوگرام ” کا حصہ بنا۔ اسلام آباد کی شاہراہ دستور کا افتتاح بھی علامتی طور پر سینٹ آف پاکستان کے پہلے چیئر مین حبیب اللہ خان نے کیا کہ، یہ ادارہ تسلسل کے ساتھ دستور اور وفاقی اکائیوں کے حقوق کا نگہبان ہوگا۔ ایسا اس لئے بھی ضروری تھا کہ ہم نے سر زمین بے آئین ہونے اور وفاقی اکائیوں کو حقوق نہ دینے کی بھاری قیمت چکائی لیکن یہ خواب 5 جولائی 1977ء کوٹوٹ گیا اور پھر 1985ء میں پہلی بار غیر جماعتی بنیادوں پر سینٹ واپس آئی۔

اس سلسلہ پر اس کی عمر چھ سال ہوئی اور اراکین کی تعداد بھی 87، ٹیکنو کریٹ اورعلماء کے لئے ہر صوبے سے 5 نشستیں مختص کی گئی۔ 1988ء کے بعد سینٹ کے چار انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ 1999ء میں ایک بار پھر سینٹ آف پاکستان کا بوریا بستر اسمبلیوں کے ساتھ گول کر دیا گیا۔ 2002ء میں اس کے اراکین کی تعداد 100 ہو گئی اور خواتین کے لئے 17 نشستیں مختص کی گئی،بعد ازاں 18 ویں ترمیم نے ہر صوبے سے ایک ایک نشست اقلیتوں کے لئے مختص کر دیں۔

تاریخی اعتبار سے 1973 میں بھی سینٹ میں خواتین کی نمائندگی تھی علماء بھی تھے اور ٹیکنو کریٹ بھی، مذہبی اقلیتیں بھی مخصوص نشستوں سے پہلے سینٹ آف پاکستان کا حصہ تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کے تصورات اور نظریات کی روشنی میں وفاقی طرز نظام کو اپنایا گیا تو وفاقی اکائیوں کے درمیان پائے جانے والے آبادی کے فرق کو سیاسی وزن میں برابری عطا کرنے کیلئے بوگر ا فارمولا میں سینٹ کے قیام کی تجویز دی گئی لیکن ہم نے ون یونٹ اور پیر یٹی کے راستے اپنائے ،جس سے پاکستانی وفاقیت کی روح بری طرح گھائل ہوئی۔1973میں بھی پنجاب کی آبادی باقی تینوں صوبوں سے زیادہ تھی اور سینٹ آف پاکستان نے سب کو برابری دی۔ 

اب قبائلی علاقہ جات کی 8 نشستیں دو مراحل میں 2023 اور 2024 میں ختم ہو جائیں گی کیونکہ یہ اب خیبر پختونخواہ کا حصہ بن چکے ہیں ، اس طرح سینٹ 104 سے 96 ارکان تک رہ گیا ہے، اگرچہ 47سالوں میں سینٹ آف پاکستان کے اختیارات میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوا ہے تاہم آج بھی اس کے پاس مالیاتی اختیارات نہیں ہیں ،یہ مطالبہ بھی ہو رہا ہے کہ اگر سینٹ آف پاکستان میں واقعی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے تو سینٹ کے انتخابات کو براہ راست کیا جائے اور اسے بجٹ پاس کرنے کے مالیاتی اختیارات دیئے جائیں، مخصوص نشستوں کے کلچر کی بجائے یہ یقینی بنایا جائے کہ پارٹیاں تمام طبقات کو حق نمائندگی سونپیں، براہ راست انتخاب سے یہ فائدہ بھی ہو گا کہ صوبائی دارالحکومتوں سے باہر کے اضلاع سے بھی سینیٹر نکل آئیں گے۔ سینٹ آ ف پاکستان کو اپنے کام اور اپر وچ میں بھی ،صوبوں کے حقوق اور صورتحال پر بات کرنا ہوگی۔ اس ضمن میں ہر تین ماہ بعد کسی ایک صوبے پر خصوصی فوکس کر کے اس کی آواز وفاق تک پہنچائی جائے۔ 

ماضی میں فقط ایک دو مثالیں ملتی ہیں کہ صوبوں کی شکایات کے لئے خصوصی کمیٹیاں بنیں۔ سینیٹ آف پاکستان کے حوالے سے اصلاحات کے کسی بھی ایجنڈا پر غور کرنے سے پہلے یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ یہ برطانوی ہاؤس آف لارڈ ز یا پھر بھارتی راجیہ سبھا سے مختلف ادارہ ہے۔ یہ ہاؤس آف فیڈریشن ہے جیسا کہ جرمنی کا ایوان بالا۔ اسے صرف بزرگوں کی دانش تک محدود نہیں کیا جاسکتا، یہاں صوبائی حقوق کی مؤثر نگہبانی لازمی ہے۔ سینٹ آف پاکستان نے جمہوری کلچر کے نمو کے لئے جمہوریت کے گمنام شہیدوں کی یادگار کی تعمیر کی لیکن یہ شاید واحد قومی یادگار ہے جہاں ہمیں ابھی تک قومی جھنڈا لہرانا بھی نصیب نہیں ہوا۔

پاکستان میں پارلیمانی اداروں کو دباؤ میں رکھنے کا کلچر ختم ہونا چاہیئے، باوجود ڈھیروں کمزوریوں کے یہی ادارے قوم کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ امید ہے کہ اس ادارے کی تاریخ اور روح، اصلاحات کےذریعے مزیدکی جائیں گی۔ حالیہ برسوں میں سینٹ کے کردار کا اثر واضح طور پر سامنے آیا ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں سینیٹ ہی وہ واحد ادارہ ہے جس نے ہر حکومت کے سامنے ایک موثر جیک اینڈ بیلنس کا کردار ادا کیا اور کئی اہم قوانین بنائے۔2015 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کی سربراہی میں ایوان بالا نے مسلم لیگی حکومت کے سامنے ’چیک اینڈ بیلینس‘ فراہم کرنے کا وہ کردار ادا کیا، جو ایوان زیریں میں نظر نہیں آیا تھا۔ پارلیمانی امور کے نگراں ادارے فافن کی رپورٹ کے مطابق 2015 کے بعد سے سینیٹ میں سب سے اہم تبدیلی ادارے میں شفافیت اور خود احتسابی ہے۔ 

نئی آنے والی تبدیلیوں کے مطابق اراکین سینیٹ کے لیے سینیٹ کے اجلاس میں شرکت اور ساتھ حکومتی افسران اور وزرا کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے نئے قوانین وضع کیے گئے۔ لیکن سینیٹ کا سب سے اہم کردار حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازی پر بحث، ان میں اصلاح اور خود نئی قانون سازی کرنا تھا۔ اس کے علاوہ ایوان بالا نے متعدد ایسے بل جو کہ سینیٹ سے پاس ہونے کے باوجود قومی اسمبلی میں زیر التوا تھے انھیں دوبارہ ممبران کے سامنے پیش کیا، جس کے بعد انھیں قانون کی حیثیت دے دی گئی۔ 2013 میں انسداد ریپ کا بل پیش کیا گیا تھا، جو کہ سینیٹ سے منظوری کے باوجود قومی اسمبلی میں رکا ہوا تھا۔

اکتوبر 2016 میں اس بل کو پاس کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ کارو کاری کے خلاف قانون 2014 میں بنایا گیا تھا۔ یہ بل بھی التوا میں تھا جسے اکتوبر 2016 میں منظور کیا گیا۔ لیکن دوسری جانب پشاور کے آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد اسمبلی میں پیش کی گئی 21ویں ترمیم کے بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ر ہنما رضا ربانی نے کہا کہ انھیں اس ترمیم کی بدولت فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دینے کے لیے ووٹ کرنے پر ’نہایت شرمندگی ہے۔2017 میں سینیٹ نے معلومات تک رسائی یا رائٹ ٹو انفارمیشن بل کو بھی اگست میں منظور کر کے قانونی حیثیت دی۔

مئی میں یہ بل قومی اسمبلی سے سینیٹ گیا تھا لیکن سول سوسائٹی نے اسمیں کافی خدشات کا اظہار کیا تھا، جس کے بعد بل میں ترمیم کر کے اُسے سینیٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں یہ منظور ہوا۔ اس کے علاوہ اکتوبر 2017 میں سینیٹ سے الیکشن ایکٹ 2017 بھی ترامیم کے بعد منظور ہوا، جس کے بارے میں مذہبی جماعتوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اس میں ختم نبوت کے منافی قانون سازی کی گئی ہے۔ 

الیکشن ایکٹ 2017 وہی بل ہے جس کے تحت پاکستان مسلم لیگ ن نے یہ ترمیم شامل کی تھی کہ نااہل قرار دیا گیا رکن قومی اسمبلی کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ اس ترمیم کی بدولت جولائی 2017 میں پاناما کیس کے مقدمے میں نااہل قرار دیے جانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ ن کی صدارت بدستور سنبھالے رکھی لیکن فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے اس قانون سازی کو کالعدم قرار دے دیا۔ 

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، توہین رسالتؐ قانون کے غلط استعمال کو روکنے، انسداد دہشت گردی اور اینٹی نارکوٹکس قوانین کے تحت سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائی کے معاملات پر سینٹ نے ایک واضح پوزیشن اختیار کی، آئین اور قانون کی بالا دستی، جمہوری اداروں کے احترام اور اداروں کےمابین بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کے ساتھ سینٹ نے مشکل اوقات میں قوم کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے اہم کردار ادا کیا، پارلیمانی ڈپلومیسی کا عصر حاضرمیں سیاسی اور بین الملکتی تنازعات کے حل میں اہم کردار ہے۔سینٹ نے پارلیمانی ڈپلومیسی کے فروغ کیلئے مختلف ممالک کے فرینڈشپ گروپس قائم کئے ،جو باہمی تعلقات کے ساتھ تجارت، پارلیمانی رابطوں اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دے رہے ہیں۔

سینٹ قومی اسمبلی کی طرح دنیا میں پارلیمان کے سب سے بڑے ادارے آئی پی یو (بین الپارلیمانی یونین) کا من ویلتھ پارلیمنٹری ایسوسی ایشن  (CPA) کا رکن ہے۔ بین الاقوامی اہمیت کے حامل سیاسی ،معاشی ،سماجی اور تہذیبی مسائل پر بحث اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کیلئے بین الاقوامی پارلیمانی اداروں کے سال میں دو دفعہ اجلاس منعقد ہوتے ہیں ، سینٹ کی ان اجلاسوں میں بھر پور نمائندگی ہوتی ہے، چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی کاوشوں سے اسلام آباد میں دنیا بھر کے پارلیمنٹرنز کا نمائندہ ادارہ انٹر نیشنل پارلیمنٹرنز کا نگریس (IPC) قائم کیا گیااور آئی پی سی کی تاسیسی کانفرنس میں40 سے زیادہ ملکوں کی نمائندگی تھی، جو پاکستان کے ساتھ دنیا کے پارلیمنٹرنز کا واضح اظہار یکجہتی تھا، آئی پی یو، سی پی اے، آئی پی سی اور ایشیائی پولٹیکل پارٹیز ایسویسی ایشن کے فورمز پر سینٹ وفود نے افغانستان ،مشرق وسطیٰ کشمیر میں امن کی فضا کیلئے ہر موقع پر آواز بلندی سے داخلی سلامتی کو مستحکم بنانے اور قومی خارجہ پالیسی پر اتفاق رائے کیلئے سینٹ کا سرگرم کردار کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ 

قومی اسمبلی کی طرح سینٹ کی پریس گیلری بھی تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہے حالیہ او آئی خارجہ وزرا ء کی کانفرنس کے موقع پر پارلیمنٹ ہائوس کی تزئین و آرائش میں پریس گیلری کو بھی نئے سرے سے آراستہ کیا گیا میڈیا کے ساتھ بہتر تعلقات کیلئے پارلیمنٹ ہاؤس میں سینٹ اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹس میڈیا کوریج کے صحافیوں پر مشتمل پارلیمانی رپورٹرز ایسویسی ایشن ( پی آر اے ) کو مکمل سہولتیں فراہم کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ بلڈنگ میں پی آر اے آفس بھی اپنے میڈیا پر سنز کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔