• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری عالمی جنگ میں امریکہ فیصلہ کن عنصر تھا۔اس کا عالمی تسلط یورپ میں جرمنوں کی شکست سے قائم ہوا ۔ اسے ایسی قوم کے طور پر سراہا گیا جس نے مغربی دنیا کو آزاد کرایا۔ دنیا میں امریکی ایجنڈا جنگ اور تصادم کو ہوا دیتا رہاہے۔ دوسری عالمی جنگ نے مغرب بمقابلہ مشرق سرد جنگ کو جنم دیا۔ سوویت یونین اور امریکہ نے پوری دنیا کو اسلحے کی دوڑ میں شامل کر دیا۔ ایشیا، یورپ اور بحرالکاہل کے مختلف حصوں کومفادات کے تحت حلیف بننے پر مجبور کر دیا۔ جوہری جنگ کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔کیوبا کے میزائل بحران جیسے فلیش پوائنٹس، ویتنام اور کریمیا میں جنگ اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔براہ راست فوجی تصادم سے گریز کیا گیا لیکن پراکسی جنگوں میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔ امریکی تسلط کا ایجنڈا پھر بھی جاری رہا۔ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے نے امریکی جنگی ایجنڈےکو نئی راہ دکھائی۔ افغانوں نے فراہم کردہ مہنگے امریکی ہتھیاروں سے لیس ہو کر سوویت یونین کو شکست دی لیکن اسرائیل کی حمایت، سعودی عرب میں فوجی اڈے اور طالبان کی مخالفت نے دہشت گردی کے اسباب کو جنم دیا۔ اس بار افغانستان پر حملہ کر دیاگیا۔اس طویل جنگ کا اختتام سوائے نقصانات اور تباہی کے کچھ نہ ہوا ،امریکی 20سال بعد افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ یہ ویتنام میں امریکی حکومت کوملنے والی ذلت کی ایک یاد دہانی تھی۔امریکی جنگی ایجنڈا محض دہشت گردی کے بنیادی نقطے پرانحصارکرتا ہے، عراق پر حملہ اسی جھوٹے پروپیگنڈہ کا شاخسانہ تھا۔ بے شمار جانیں ضائع ہوئیں، عراقی عوام کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ بعد میں ٹونی بلیئر نے اپنی غلطی تسلیم اور جنگ میں امریکیوں کا ساتھ دینے پر معذرت کی۔ امریکی فوج ہمیشہ غیر ضروری جنگوں میں الجھی رہی اور آئندہ بھی رہے گی۔ امریکی جمہوریت پر بھی جنگی ایجنڈے کی گہری چھاپ ہے۔نکسن کے دور سے بش خاندان تک جب بھی ری پبلکنز نے الیکشن جیتا ، انہوں نے فوجی تنازعے اور جنگوںکو سیاسی ہتھیار بنایا۔ ریپبلکن جنگ کی حمایت کیلئے ووٹ حاصل کرتے ہیں، امریکی فوجیوں کو آزادی اور جمہوریت کے محافظ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ڈیموکریٹس جنگوں کو جاری رکھنے اور فوجی مہم میں سیاسی ایڈجسٹمنٹ کا چورن بیچ کر انتخابات جیتتے ہیں۔ آزادی اور جمہوریت ایک ایسا دلفریب جال ہے جسے بنُنے میں سیاست اور ریاستی ایجنڈے کے تانے بانے شامل ہیں جو امریکہ کو برتر فائر پاور کے طور پر دکھاتا ہے۔ جب بھی اس اتھارٹی کو چیلنج کیا جاتا ہے، یہ امریکہ کے اندر یا باہر حکومتوں کی تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ جان ایف کینیڈی کا قتل اوربعد میں بل کلنٹن کی معزولی اس کی واضح مثالیں ہیں۔ امریکی اپنی خفیہ انٹیلی جنس اور بڑے پیمانے پر دفاعی بجٹ کے ذریعے بڑی کامیابی سے یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ یورپ کو غلامی میں اور پوری دنیا میں کسی بھی مخالف کو ڈرا دھمکا کر رکھنا ان کا وطیرہ ہے۔ بہت سے تنازعات پراکسی سپورٹ، فنڈنگ اور فوجی اڈوں کے ذریعے کنٹرول کئےجاتے ہیں۔ دنیا کے 80 ممالک میں امریکی فوجی اڈے فعال ہیں۔

امریکی حکمت اور پرانے ورلڈ آرڈر منصوبوں میں بے شمار خامیاں ہیں۔ چین کے عروج نے واشنگٹن کو حیران کر دیا ہے۔ چین کو امریکہ کی آشیر باد اور اس کی نظروں میںرہتے ہوئے ترقی کرنا تھی۔ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی قوم دولت مند امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کیلئے گندے مینوفیکچرنگ یارڈ سے زیادہ کچھ نہ تھی لیکن چین نے آہستہ آہستہ خود کو غلامی سے نکال کر قیادت کا منصب سنبھال لیا ۔ اس نے یہ مقام جمہوریت، صنعت کاری اور سماجی اصلاحات کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ایک سابقہ سپر پاور دوسری سپر پاور کے عروج کوہضم نہیں کر پا رہی ۔ امریکہ نے نیٹو اتحادیوں کی مدد سے یوکرین کی صورت ایشیا میں ایک اور جنگ شروع کر دی ہے۔ یوکرین یورپ کا افغانستان بننے والا ہے۔ قوم پرستی اور آزادی کے نعرے کے تحت یوکرین کی حکومت کو روس کے خلاف فرنٹ لائن ریاست کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ،امریکی ایجنڈے کی یہ بھڑکتی آگ جلد ہی چین اور دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ نیٹو امریکہ کا وہ بازو ہے جو اتحادی ممالک کی حمایت سے پوری دنیا میں امریکی بالادستی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جو دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں ابھری تھی۔ اب یوکرین کے باشندے، امن اور سلامتی کے عزم کی بجائے (جو نیٹو کی موجودگی کے جواز کو ختم کر سکتا ہے)جنگ جاری رکھنےکیلئے امریکی اسلحہ اور گولہ بارودپر انحصار کر رہے ہیں۔ یہ روس کے وجود کیلئے شدید خطرہ ہے جس کے نتیجے میں ایک اورطویل جنگ شروع ہو سکتی ہے۔

چین کے معاملے میں، نینسی پیلوسی کا تائیوان کا دورہ، دو بڑے اور طاقتور ممالک کے درمیان امن اور ہم آہنگی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف اور سفارتی اخلاقیات کی سراسر خلاف ورزی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ چین کے ساتھ تنازعہ اور دنیا میں طاقت کی شراکت کو قبول نہ کرنا نیا ایجنڈا ہے۔ اس امریکی ذہنیت سے مستقبل میں امن کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ۔ چین اور اس کی حکومت واضح طور پر جانتی ہے کہ وہ کس قسم کے دشمن کا سامنا کر رہے ہیں وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بے ضرر ترقی کے سفر میں شامل کرنے پر تیار ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا باقی انسانیت متوقع تصادم سے بچنے کی پوزیشن میں ہے؟ چونکہ چین کی بڑھتی ہوئی معیشت کے ساتھ ساتھ چین کی فوجی طاقت بھی بڑھ رہی ہے، تصاد م صاف نظر آ رہا ہے اور واحد محفوظ راستہ امریکی سفارت کاری میں تبدیلی ہے جو جمہوریت اور امن کو سیاسی نظریے کے طور پر دیکھتا ہے لیکن پوری دنیا میں جنگ اور خونریزی کو فروغ دیتا ہے۔ آج تک جنگ اس کا آخری حربہ رہا ہے لیکن شاید اب یہ حربہ وقعت کھو چکا ہے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین