• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا بد قسمتی ہے ہماری جو ملک ’’ووٹ‘‘ اور جمہوری طاقت سے حاصل کیا گیا اُسی نظا م کو کبھی عزت نہیں دی گئی۔ لکین ووٹ کو کب عزت ملتی؟ جن طاقتوں نے بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کے بیانیہ کو سیکورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کردیا وہ کیسے چاہتے کہ اس ملک میں کوئی مضبوط اور پائیدار جمہوری پودا لگایا جاتا ،لحاظہ آئین بنا تو تڑوا دیا گیا۔ 

ووٹ پڑا تو نا 1954ء میں نتائج تسلیم کئے گئے اور نا ہی 1970ء کے نتائج کے مطابق اقتدار اکثریت کے حوالے کیاگیا۔ پھر جب تاریخ نے موقعہ دیا اور پہلی بار 1973ء میں متفقہ آئین بنا تو قومی اسمبلی اور سینیٹ یعنی ایوان زیریں اور ایوانِ بالا بھی وجود میں آئے یوں ایک بار پھر جمہوریت کو چلانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ 

اُمید تو یہی تھی کہ عاصمہ جیلانی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کبھی مارشل لاء نہیں لگے گا، نظریہ ضرورت، زندہ نہیں ہوگا ،مگر آج جب ہم ا ٓئین اور ایوانوں کی ’’گولڈن جوبلی‘‘ منا رہے ہیں تو اس میں 25 سال فوجی حکومتوں کے اور باقی سال لنگڑی لولی جمہوریت کے جسے کرپشن کی بیماری نے جکڑ لیا ہے۔ ضیاء دور کے جانے کا نام ہی نہیں لے رہی، یوں نظریاتی سیاست ماند پڑتی چلی گئی، سیاست کاروبار، قومی اسمبلی اور سینیٹ، منڈیاں بن گئیں جن لوگوں نے ملک میں جمہوریت نہیں آنے دی انہوں نے ہی اس کو چلنے نہیں دیا۔

اگر آپ سینیٹ کے پہلے سیشن کا احوال پڑھیں جو 4؍اگست 1973ء کو ہوا تھا تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کس طرح خوش اسلوبی سے حبیب اللہ خان 32 ووٹ لے کر، خواجہ محمد صفدر جو حزب اختلاف کے امیدوار تھے کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔ خواجہ صفدر کو 1313ووٹ پڑے۔ اسی طرح طاہر خان پہلے ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے اس موقعہ پر ہارنے والے امیدوار خواجہ صفدر نے جیتنے والے چیئرمین کو ناصرف شاندارالفاظ میں خراج تحسین پیش کیا بلکہ یہ بھی کہا ’’جناب چیئرمین آپ ناصرف عدالت عالیہ کے رکن رہے ہیں بلکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے بھی رکن رہے ہیں، اس لحاظ سے آپ کو غالباً پارلیمانی تجربہ بھی حاصل ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ اس اہم منصب کے لئے بہتر ہو اگر حزب ِ اقتدار اور حزب ِ اختلاف باہمی مشاورت سے چیئرمین لے کر آئیں۔

سینیٹ کا اجلاس 2؍ اپریل 1974ء کو پہلی بار نئے سینیٹ ہال میں ہوا،جس میں 72 سیٹوں کا انتظام تھا،اس سے پہلے اجلاس قومی اسمبلی کے ہال میں ہی ہوتا تھا۔ اس باراسمبلی کیفے ٹیریا کو سینیٹ ہال میں تبدیل کیا گیا، اس موقع پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ناصرف سینیٹ کی اہمیت پر زور دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ یہ محض عمارتیں نہیں بلکہ ایک مستقل نظام کی طرف پیش رفت ہے ’’1947سے ہر ہر چیز عارضی طور پر کرتے آئے ہیں۔ ایک عارضی نظام سے دوسرے عارضی انتظام کی طرف اور جب لوگ اس بنیاد پر آگے بڑھتے ہیں تو ہم کبھی بھی مستقل نظام یا استحکام حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اب ہمارے پاس ایک آئین بھی ہے جو مجھے پورا یقین ہے مستقبل یا طویل عرصے تک رہے گا۔ جمہوریت بھی ہے اس کو ناکام نہ ہونے دیں۔

بھٹو کیونکہ بڑے ویژن کے سیاستدان تھے تو انہوں نے اسی تقریر میں پورے وفاقی اور صوبوں کے درمیان تعلقات پر بھی روشنی ڈالی ۔مثلاایوان بالا کی اہمیت کیا ہے، وفاقی دارالحکومت میں تمام وزارتوں کا مستقل ہیڈ کوارٹر کیوں ضروری ہے، جس میں خاص طور پر وزارت دفاع پر بھی بات کی اور انکشاف کیا کہ تینوں سروس چیفس کے ایک جگہ نہ ہونے کا نقصان یہ ہوا کہ 1971ء کی جنگ کے وقت نیول چیف کو پتا نہیں تھا کہ جنگ شروع ہوگئی ہے اور انہوں نے یہ خبر ریڈیو پر سنی۔اس وقت آرمی ہیڈ کوارٹر راولپنڈی، ایئر فورس ہیڈ کوارٹر پشاور اور نیول ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہوتا تھا اب تینوں کو ایک شہر میں لایا جا رہا ہے۔

قائد حزب اختلاف (سینیٹ میں) جناب محمد ہاشمی غلزئی نے اپنی تقریر میں کہا ’’آج پہلی بار ہم اس نئے چیمبر میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں پہلی بار وفاقی طرزِ حکومت کی ابتدا دو ایوانی متفقہ کی حیثیت میں موجود حزب اقتدار کے وقت میں معرضِ وجود میں آئی ہے اور میں اس بات کو کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا کہ دوایوانی مقننہ کو آئینی جگہ دینے کا سہرا موجودہ حزب اقتدار کو جاتا ہے، مگر مجھے یہ بھی امید ہے کہ اس وقار کو قائم رکھا جائے گا۔ دونوں کا دائرہ اختیار برابر ہوگا۔‘‘

غرض یہ کہ یہ محض چند جھلکیاں تھیں ،سینیٹ کے پہلے اجلاس کی جو اس نئی عمارت میں ہوا تھا مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ ان سیاست دانوں کی جن کا تعلق مختلف الخیال جماعتوں سے ہے اور نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں صرف دو سال سے بھی کم مدت میں ایک متفقہ آئین بنانے میں کامیاب ہوئے۔ پہلے عبوری آئین پھر مستقل آئین، اس دوران اگر ’’لین دین‘‘ ہوا تو وہ اس بات پر کہ، آئین کیسا ہونا چاہئے۔ بائیں بازو کے لوگ ایک سیکولر آئین چاہتے تھے اور دائیں بازو کے اسلامی آئین۔ آمریت کے دونوں خلاف تھے۔ 

اس لیئے آرٹیکل 6۔ آیا اور شاید اسی وجہ سے نا جنرل ضیاء کی ہمت ہو سکی کہ اسے مکمل طور پر ختم کر سکے اور ناہی جنرل پرویز مشرف کی، البتہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کا کردار معذرت کے ساتھ بہت سیاہ رہا ہے، ورنہ نا جنرل ضیاء اقتدار میں رہ سکتے تھے ناجنرل مشرف۔ آمروں کو یہ کردار دے کر دراصل عدلیہ پرآرٹیکل 6 میں معاونت ثابت ہوتی ہے۔ جنہیں آئین کو تحفظ دینا تھا انہوں نے آئین توڑنے والے کو ناصرف تحفظ دیا بلکہ ان کوترامیم کرکے اس کا حلیہ بگاڑنے کا اختیار بھی دی۔ اس ملک میں صرف ایک ’’جسٹس منیر‘‘ نہیں گزرے بلکہ جب جب نظریہ ضرورت آئے گا۔ اس وقت کی عدلیہ میں غیر آئینی اقدام کو تحفظ دینے والے ’’جسٹس منیر‘‘ ہی کہلائے گئے۔

یہ ہی طرز ِ عمل اس ملک میں کرپشن کی بنیاد بنا،کیونکہ اگر ’’انصاف‘‘ ہی نظریہ ضرورت پر ملے تو وہ انصاف نہیں ناانصافی ہے۔ کاش ہمارے یہاں کچھ اور جسٹس کیانی،جسٹس کارنولیسں،جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، جسٹس صبیح الدین احمد، جسٹس وجیہہ الدین جیسے پیدا ہوتے تو معاشرہ میں ناانصافی نہیں انصاف کا بول بالاہوتا۔ ہم توتاریخی عدلیہ بحال تحریک کے بعد بھی نظام انصاف قائم نا کرسکے۔ اسی لیےآج امیر کے لئے نظام اور، عام آدمی کے لئے اور، کچھ ادارے بشمول عدلیہ احتساب سے بالاتر۔

خیر بات ہو رہی تھی ایوان ِ بالا کی، کسی طرح یہ ادارہ بھی کرپشن کے کینسر کو روکنے میں ناکام رہا .1972ء سے 1977ء تک ہمیں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان کئی معاملات پر کشیدگی بھی نظرآئی اور بعض معاملات پر تصادم جیسی صورتحال بھی ،مگر کبھی ’’منڈی‘‘ نہیں لگی۔ وفاداریاں پیسے کی بنیاد پر نہیں تبدیل کروائی گئیں۔ اراکین کی خرید و فروخت کا بازار نہیں سجا۔ قومی مفاد کی بات سامنے آئی تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے وزیراعظم بھٹو کو اعتماد کے ساتھ بھارت بھیجا اور شملہ معاہدہ ہوا تو پارلیمنٹ کے سامنے رکھا گیا۔ 

اس طرح کی نظیر ہمیں وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں بھی ملتی ہے ،جب انہو ں نے جنیوا جانے سے پہلے تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا اور یہی ان کا جرم بن گیا ، انہیں مئی 1988ء میں جنرل نے برطرف کر دیا،جب سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان تھے۔

پاکستان نے جب پہلی بارایٹمی پروگرام شروع کب تب بھی ایوان کی تائید حاصل تھی اور جب اسلامی سربراہ کانفرنس ہوئی تب بھی حزب ا قتدار اور حزب اختلاف ایک پیج پر تھے۔ دراصل یہیں وہ ’’پیج‘‘ ہے جو اگر قائم رہتا تو آج اس ملک میں متفقہ طور پر آمریت کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا،بعد میں یہ اصطلاح غلط معنوں میں استعمال ہونے لگی کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر، حالانکہ طاقت کا سرچشمہ وزیراعظم اور عوام کے منتخب نمائندے ہیں باقی ادارے اُن کے ماتحت ہیں۔ 

مثلاً اسی وجہ سے جب حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ایوانوں، ایوان زیریں اور ایوان بالا میں تلخ و شیریں کے ساتھ آگے بڑھے تو حکومت نے بھی اپنی میعاد پوری کی اور خود بھٹو صاحب اتنے پر اعتماد تھے کہ انہوں نے 1977ء میں ہی ایک سال پہلے الیکشن کا اعلان کردیا جو کہ کئی سیاسی مبصرین کے مطابق بڑی سیاسی غلطی تھی۔ ضرورت سے زیادہ اعتماد بھی انسان کو غلط فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

1977ء کے الیکشن میں کیا ہوا ؟حزب اختلاف بقول مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم (جو بات انہوں نے راقم کو خود بتائی تھی) ’’الیکشن سے ایک رات پہلے پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے) اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام تر بھرپور مہم کے بھٹو الیکشن جیت رہا ہے اور ہم ایک مضبوط حزب اختلاف بن کر ابھریں گے‘‘۔ پہلے قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے اور پی این اے کے درمیان دھاندلی کا الزام لگا کر صوبائی اسمبلی کا بائیکاٹ کردیا جو کامیاب رہا اور یوں انہیں تحریک چلانے کا جواز مل گیا۔ اگر بھٹو صاحب فوری طور پر مذاکرات شروع کردیتے یا خود ہی دوبارہ الیکشن کا اعلان کر دیتے تو صورتحال مختلف ہوتی، بہرحال اس میں تین ماہ کی تاخیر ہوئی۔ 

خون خرابہ ہوا، کرفیو بھی لگا اورتین شہروں میں مارشل لاء بھی، پھر جب مذاکرات ہوئے تو وہ نتیجہ خیز رہے، مگر اس سے پہلے کہ عملی اقدامات اٹھائے جاتے ،جنرل ضیاء الحق جن کو سیاست دان کامیاب ہوتے نظرآ رہے تھے، ملک میں مارشل لاء لگا دیا 5؍جولائی 1977ء کو، مگر اس سے پہلے انہوں نے خفیہ انداز میں اعلیٰ اور صوبائی سطح پر چیف جسٹس کے ممکنہ ردِعمل کے لئے اپنے لوگ بھیجے۔ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم مرحوم نے ایک بار بتایا ’’جنرل ضیاء یہ جاننا چاہتے تھے کہ اگر صوبائی چیف جسٹس صاحبان کو قائم مقام گورنر لگایا جائے تو انہیں اعتراض تو نہیں ہوگا۔

ایوان ِ زیریں اور ایوان بالا کے اراکین جمہوریت کا تسلسل چاہتے تھے۔ قومی اسمبلی تو ٹوٹ چکی تھی ،سینیٹ برقرار تھی۔ مارشل لاء لگا تو جنرل ضیاء الحق نے 90 روز میں الیکشن کا وعدہ کیا مگر نہ صرف آئین کو معطل کردیا بلکہ ایوان بالا بھی توڑ دیا۔ آئین توڑنے کی ہمت ان میں بھی نہیں تھی۔ اب جس آئین میں یہ واضع طور پر لکھا ہو کہ اسے توڑنے یا معطل کرنے والا آرٹیکل 4 مرتکب ہوگا، اس کے اس اقدام کو عدلیہ جائز قرار دے تو اس سے بڑی غداری کیا ہوگی۔ جو گناہ کریں وہی معتبر یہ عجیب طرز ِ نصاب ہے۔ پھر اس سیاست کی ابتداء ہوئی جو آج کا موضوع ہے یعنی کرپشن اور اُس کے اثرات ان دو انتہائی اہم ایوانوں میں ابتداء میں جنرل ضیاء کا ہدف صرف اور صرف سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی تھی۔

90 روز میں الیکشن تو کیا ہونے تھے، سابقہ حکومت کے خلاف ایک وائٹ پیپر تیار ہوا اس میں اس وقت کی اپوزیشن کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی ذکر تھا،مگر تمام تر تحقیقات اورکوششوں کے باوجود کرپشن کا صرف یہ الزام لگا کر اپنے گھر 70کلفٹن کی دیواریں بلند کروائیں اور وہ بھی غلط ثابت ہوئی۔ خود اس وقت کی حزب اختلاف جن کے ساتھ حقیقت میں حکومت نے زیادتیاں کی تھیں انہوں نے بجا الزامات نہیں لگائے، ماسوائے سیاسی انتقام کے۔ اس میں ناکامی کے بعد جنرل ضیاء نے خان عبدل ولی خان کے ذریعہ ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگوایا۔ پارلیمنٹ کو مجلس شوریٰ کا نام دے دیا گیا اور ترقیاتی فنڈزکے نام پر ’’پیسہ‘‘ہی سیاست بن گئی۔

1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات نے معاشرہ کو ناصرف تقسیم کیا بلکہ ایوان میں منڈی کی بنیاد رکھ دیں۔ غلام اسحاق خان چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے اور 1991ء تک وہ رہے۔

پاکستان میں سیاسی کرپشن اُس وقت شروع ہوئی جب بڑے میاں شریف مرحوم جونا خود سیاست میں آنا چاہتے تھے نابچوں کو لانا چاہئے تھے،ان کو یہ لالچ دی گئی کہ اگر آپ سیاست میں آتے ہیں تو آپ کی اتفاق فیکٹریاں جو بھٹو دور میں قومیائی گئی تھیں وہ واپس کردی جائیں گی اور پھر کہتے ہیں جنرل اقبال کے ذریعہ جنرل غلام جیلانی نے جنرل ضیاء کی منظوری سے اس پر عمل کیا۔ بڑے میاں شریف تو نا آئے مگر اپنے بڑے بیٹے نواز شریف کو اجازت دیدی۔ خود نواز صاحب کو نہیں پتا تھا سیاست کا،وہ تو کرکٹ کھیل رہے تھے،جب ایک دن اس وقت کے چیف سیکرٹری ان کو کرکٹ کی کٹ میں ہی سےگورنر ہائوس لے گئے اور جنرل جیلانی نے انہیں یہ نوید سنائی۔

اب اس کھیل کو آپ کیا نام دیں گے۔ اسی طرح ایک غیر معروف سیاستدان جناب محمد خان جونیجو مرحوم کو صرف اس لئے وزیراعظم بنایاگیا کہ ان کا تعلق سندھ سے تھا۔ ان دونوں فیصلوں کا مقصد صرف اور صرف بھٹو کے سیاسی اثر کو پنجاب اور سندھ میں کم کرنا تھا۔ جونیجو کے اقدامات نے ضیاء صاحب کو پریشان کردیا ،کیونکہ انہوں نے اپنی پہلی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہہ دیا ’’جمہوریت اور مارشل لاء ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘ 

یہ واضح پیغام تھا اور جب اس جملے کوسیکرٹری انفارمیشن جنرل مجیب مرحوم کے کہنے پر سرکاری پی ٹی وی نے سنسر کیا،تو جونیجو نے انہیں فارغ کردیا۔اور پھرطاقتور لوگوں نےجونیجو کو فارغ کردیا اور مسلم لیگ میں بھی بغاوت کروا دی گئی۔ 28؍مئی 1988ء کو جونیجو حکومت کا خاتمہ ہوا ،جب ایک صحافی نے اس پر ان کا ردعمل معلوم کیا تو وہ بولے’’شاید صدر صاحب کو مجھ سے بہتر آدمی مل گیا ہوگا۔‘‘

یہ سب باتیں لکھنا اس لئے ضروری ہیں کہ اس ملک میں سیاست کو کس کس طرح سے کرپٹ کیاگیا آسانی سے سمجھ میں آجانا چاہئے۔ بات ایوان زیریں کی ہو یا ایوان بالا کی عام طور پر سینیٹ کی بولی زیادہ لگتی ہے ٹکٹ دینے سے ووٹ دینے تک ،مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی سینٹر نامزد تو ایک پارٹی کرتی ہے، ووٹ بھی دیتی ہے اس کو ،مگر پھر بھی کہتے ہیں یہ ہمارے سینٹر نہیں ہیں ایسا ہی کچھ ہمارے دوست فروغ نسیم کے ساتھ ایم کیو ایم کے دوستوں نے کیا، البتہ بعد میں ایک ہوگئے۔

21اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق سمیت کئی اعلیٰ فوجی افسران اور امریکی سفیر کی ایک پراسرار طیارہ حادثہ میں ہلاکت نے سیاست کا نقشہ ہی تبدیل کردیا مگر اندازِ سیاست نہیں بدلا۔ جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد سینیٹ کے چیئرمین جناب غلام اسحاق خان نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا اور90 روز میں الیکشن کروانے کا اعلان کردیا۔

ISIکے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل مرحوم اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے انہوں نے ان کے مخالفین کو جمع کرکے اسلامی جمہوری اتحاد (ISI)کی بنیاد رکھی۔ صرف یہ ہی نہیں ہوا پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کوجتوایا بھی گیا اور بے نظیر کی واضح اکثریت کو روکا بھی گیا۔ بات اگر یہیں پر ختم ہو جاتی تب بھی غنیمت تھا لکین پھر محترمہ کو ایک لسٹ دی گئی جس میں وزارت خزانہ، وزارت خارجہ اورآئندہ صدارت کے لئے جناب غلام اسحاق خان کا نام بھی تجویز کیا گیا۔ 

بی بی نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پارٹی کی سینئر قیادت کا اجلاس بلایا اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ ہمیں اس طرح کی کمزور حکومت نہیں لینی چائے مگر اکثریت کی رائے یہ تھی کہ حکومت کے ذریعہ ہم پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو ریلیف دلوا سکتے ہیں اور پھر ’’مشروط‘‘ حکومت لے لی ،جس کے دُوررس نتائج آئے۔ اگر صدارتی انتخابات میں پی پی پی نواب زادہ نصراللہ خان جو ایم آرڈی کے امیدوار تھے کی حمایت کرتی غلام اسحاق کے مقابلے میں تو اس ملک میں اس بات کا قوی امکان تھا کہ جمہوریت مضبوط ہوتی۔

اسحاق خان صدر بنے تو ایوانِ صدر سازشوں کاگڑھ بن گیا۔ اس سے پہلے 1989ء کو یعنی پی پی پی کی حکومت قائم کرنے کے چند ماہ بعد ہی ISI عدم اعتماد کی تحریک لے آئی۔ یہ سیاست میں ’’بریف کیس‘‘ کے ذریعہ وزیراعظم کو بٹھانے کا پہلا بڑا ٹیسٹ کیس تھا۔ تصور کریں کہ خود کسی اور نے نہیں بریگیڈیئر امتیاز مرحوم نے راقم کے ساتھ انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ وہ خود پچاس لاکھ روپیہ لے کر بریف کیس ایم کیو ایم کےپاس گئے تھے ،مگر انہوں نے قبول نہیں کیا۔

یہ الگ بات ہے کہ حکومتی اتحادی ہوتے ہوئے ان سے بڑی سیاسی غلطی ISI اور نواز شریف سے خفیہ معاہدہ تھی جس سے پی پی پی، ایم کیو ایم معاہدہ ٹوٹ گیا۔ اس سب کے پیچھے جنرل اسلم بیگ کا مبینہ طور پر کردار رہا۔ دوسری طرف پہلی بار اس تحریک کو ناکام بنانے میں آصف علی زرداری جن کی بی بی سے شادی کو سال کے قریب ہوا تھا اہم کردار ادا کیا اور یوں عملی سیاست میں ان کا نام آنے لگا۔

1990ء میں 6؍اگست کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی۔ غلام اسحاق خان نے ’’کرپشن‘‘ کو بنیاد بناکر 58-2(b)کے تحت یہ اقدام اٹھایا اور چارج شیٹ میں ان کے شوہر آصف علی زرداری پر ایک شخص کو اغوا کرا کر پائوں میں بم باندھ کر رقم وصول کرنے کا سنگین الزام عائد کیا۔ دوسری طرف بی بی نے اپنی حکومت کو برطرف کرنے کی ذمہ دار ملٹری انٹیلی جنس پر ڈالی۔ اتفاق سے میں اُس پریس کانفرنس میں موجود تھا۔ انہوں نے وہیں موجود ایک رپورٹر کا نام لے کر کہاکہ ان کو وہ لوگ خبریں دیتے تھے تاکہ یہ جوازبنایا جائے۔

90ر وز کے لئے ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پی پی پی کے سابق رہنما جناب غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیراعظم اور سندھ میں جام صادق علی کو وزیراعلیٰ بنایاگیا وہ بھی بھٹو صاحب کے زمانے میں وزیر بلدیات رہے تھے۔ اس عبوری دور میں جو ہوا اس نے بے نظیر کے دعویٰ کو درست ثابت کر دیا اور پہلی بار ہماری سیاست میں ’’ادارتی کرپشن‘‘ کی بنیاد رکھی گئی ،جس کی سب سے بڑی مثال ’’اصغر خان کیس‘‘ ہے۔

90 کروڑ روپیہ آج کے زمانے کے اربوں کے برابر سیاست دانوں میں جو بے نظیر مخالف تھے ان میں تقسیم کئے گئے، یہی نہیں کچھ مدیران کے نام بھی ISIکے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی کے حلف نامہ میں درج ہیں اور وہ آج تک اپنے بیان پر قائم ہیں کہ یہ رقم انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف کے کہنے پر تقسیم کی ISI کے رہنمائوں میں اسی عبوری دور میں یہ بھی کمال ہوا کہ ایک انگریزی اخبار جو لاہور سے نکلتا تھا۔ 

ہیڈ لائن اسٹوری دی کہ وزیراعظم نے 90پلاٹ جو زیادہ ترانتہائی مہنگے علاقوں میں ہیں، من پسند افراد میں تقسیم کئے۔ زیادہ دلچسپ خود جتوئی صاحب کا ردِعمل تھا کہ یہ وزیراعظم کا ’’صوابدیدی اختیار‘‘ ہے۔ راقم نے چند سالوں بعد جب جتوئی صاحب کا انٹرویو کیا تو انہوں نے اس کی تردید نہیں کی مگر اہم انکشاف انہوں نے 1990ء کے الیکشن کے حوالے سے کیا جس میں جنرل بیگ، نواز شریف کے رول کا بھی ذکر ہے۔ ساتھ میں یہ بھی کہاکہ مجھ سمیت میرے ساتھیوں کوہروا دیا گیا۔

بات ایوان بالا کی ہو رہی تھی اور اس کی ’’گوگڈن جوبلی‘‘ کی۔ سینیٹ میں کس طرح ٹکٹ دیئے جاتے ہیں پسند ناپسند اورکس طرح بعض صورتحال میں خریدوفروخت ہوتی ہے خاص طور پر، ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر، مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ دونوں ایوان صرف ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔ اگر ان پچاس سالوں پر ایک نظر ڈالیں تو شاید اکثریت اپنی اپنی پارٹیوں کے نظریات کے ساتھ کھڑی رہیں، البتہ پنجاب اسمبلی میں راتوں رات وفاداریاں تبدیل کرنے کی روایت رہی۔ بلوچستان میں منتخب نمائندوں کے معاملات مختلف رہے ہیں۔ سرداری نظام کی وجہ سے سندھ میں ایسے بھی وزیراعلیٰ رہے ہیں جن کے اپنے پاس چند سیٹیں ہوتیں مگر ادارے ادھر اُدھر سے کبھی لالچ تو کبھی زور زبردستی سے اراکین کو ان کے حوالے کرتے کیونکہ اکثر ’’ملکی مفاد‘‘ میں یہ کرنا ہوتا۔ 

اس میں سب سے دلچسپ صورتحال سابقہ فاٹا کے اراکین کی ہوئی جن کا صاف صاف’’حساب‘‘ ہوتا تھا۔ ایوان بالا یا سینیٹ کا معاملہ ہو یا ایوان زیریں، سینیٹ میں 8 سینیٹرز منتخب ہوتے تھے۔ اور ایک زمانے میں تو باقاعدہ ایک کنسورشیم، سودے بازی کے لئے بنا لیا گیا تھا یہ بچارے یعنی قومی اسمبلی میں غالباً 10یا 12اور سینیٹ میں ہر حکومت کا ساتھ دینے والوں میں شامل ہوتے تھے،جس کے بدلے وہ ترقیاتی فنڈز کے نام پر اچھی خاصی رقم وصول کرتے۔

اب فاٹا میں تو یہ فنڈ نا لگ سکا ،ورنہ تو وہ آج ترقی کی دوڑ میں ہوتے، اچھی سڑکیں، اچھے اسکول ہوتے، ویسے اگر دیکھا جائے تو برائی کی اصل جڑ یہ ’’ترقیاتی فنڈز‘‘ ہی ہیں جسے جنرل ضیاء کے دور سے سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مگر ہر جماعت میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے سیاسی الزامات پر جیلیں کاٹی ہیں، اپنی اپنی پارٹیوں سے جڑے رہے۔ مثلاً پی پی پی سے رضا ربانی جو چیئرمین سینیٹ بھی بنے۔ مسرور احسن جن کو یہ منفرد مقام حاصل کہ انہیں بڑی مشکل سے حلف کے لئے لایا گیا مگر وہ جیل میں ہونے کی وجہ سے کوئی سیشن میں شامل نہیں ہو سکے۔ 

مولا بخش چانڈیو جنہوں نے جنرل ضیاء کے دور میں جیلیں کاٹیں، فرحت اللہ بابر ، نیئر بخاری، وقار مہدی، سعید غنی، رخسانہ زبیری، کرشنا کماری، الماس پروین، تاج حیدر، راشد ربانی مرحوم اور کئی نام ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) سے پرویز رشید، مشاہد اللہ مرحوم، نہال ہاشمی وغیرہ، پاکستان تحریک انصاف سے فیصل جاید، سیف اللہ نیازی، شبلی فراز، فوزیہ وغیرہ یہ وہ نام ہیں کچھ رہ بھی گئے ہوں گے جنہوں نے کبھی وفاداریاں نہیں بدلیں’’چمک‘‘ کی خاطر صرف یہ تین جماعتیں ہی نہیں دیگر جماعتوں میں متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں جو اپنے مؤقف پرکھڑے رہے کچھ لوگ ضرورادھر اُدھر ہوئے۔

انہی سب میں ایک شخص تھا حاصل بزنجو جو ایک جان لیوا بیماری کا شکار ہو گیا اس کے ساتھ جو 2018ء کے الیکشن کے بعد سینیٹ کے الیکشن میں ہوا وہ اس ’’ایوان بالا‘‘ کے پچاس سال پر بدنما داغ ہے جو ’’گولڈن جوبلی‘‘ سے بھی نہیں مٹایا جا سکتا۔ ویسے تو ماشا اللہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جس طرح اکثریت ناہونے کے باوجود ’’سینیٹر‘‘ منتخب ہوئے اور پھر جس طرح جناب صادق سنجرانی دوسری بار چیئرمین منتخب ہوئے وہ سب اس اعلیٰ ترین ’’جمہوری ادارے‘‘ پر غیر جمہوری یلغار سے زیادہ کچھ نہیں۔ جن لوگوں نے 2018ء کے بعد کی صورتحال دیکھی ہے انہیں یاد ہوگا کہ ایک گیلانی اور سنجرانی کے الیکشن کے دوران ایک ’’خفیہ کیمرہ‘‘ پولنگ بوتھ پر پکڑا بھی گیا تھا۔ ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنی تھی،پھراس کے بعد’’ چراغوں میں روشنی نا رہی‘‘۔

یہ سارے کھیل کا آغاز 2018ء کے الیکشن سے چند ماہ پہلے بلوچستان سے شروع ہوا تھا جہاں مسلم لیگ (ن) اور نیشنل پارٹی کی مشترکہ حکومت تھی۔ اگر وہاں راتوں رات مسلم لیگ میں بغاوت کروا کر حکومت کا خاتمہ اور بلوچستان عوامی پارٹی نا بنائی جاتی تو سینیٹ میں 2018ء کے الیکشن کے بعد بآسانی مسلم لیگ (ن) کا اور تحریک انصاف کو حکومت کے مخالف امیدوار چیئرمین بنتا، مگر اس کھیل میں مبینہ طور پر سابق صدرآصف علی زرداری اور اسٹیبلشمنٹ کا نام آتا ہے۔

عمران خان وزیراعظم بنے تو ’’باجوہ ڈاکٹرائن ‘‘ کا عمل دخل شامل تھا۔ پی ٹی آئی کے پاس اکثریت ضرور تھی مگر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے لہٰذا بلوچستان عوامی پارٹی، جنوبی پنجاب محاذ بھی بنایاگیا پھر ایم کیو ایم کے ساتھ دوسرا مذاق ہوا ،پہلے نشستیں کم کروا کر چھ کی گئیں، پھردبائوتھا کہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کرو ،ورنہ 22؍اگست 2016ء کا مقدمہ تیز ہو جائے گا اور آخر میں مسلم لیگ (ق) حالانکہ چودھری برادران (اُس وقت ایک تھے) کو عمران کے ساتھ لایاگیا جو اس وقت خود خان کے لئے ناقابل ِ برداشت تھا ,2002ء میں انہی کی وجہ سے تووہ جنرل مشرف سے الگ ہوا تھا۔ ساڑھے تین سال کی حکومت میں ڈھائی سال ان کی بات چیت بندتھی، چوہدری مونس الٰہی کی شکل برداشت نا تھی، پر کیا کریں بابو اقتدار چیزہی ایسی ہوتی کہ پی پی پی چودھری چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم (بی بی ہم شرمندہ ہیں) اور عمران خان ’’پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو‘‘ کو پارٹی کا صدر بنا دیتی ہے۔

اب دیکھیں حاصل بزنجو کے ساتھ کیا ہوا۔ اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم کی جماعتوں اور پی پی پی کی سینیٹ میں اکثریت تھی اور انہوں نے چیئرمین کے لئے حاصل بزنجو کا نام تجویز کیا۔ جس مشترکہ میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا، اس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک انتہائی معنی خیز جملہ کہا جو بعد میں سچ ثابت ہوا انہوں نے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا ’’ فیصلہ درست ہے مگر سب جماعتیں اپنے اپنے سینیٹرز کو سنبھال کر رکھیں ’’مقابلہ ادارہ سے ہے۔‘‘ 

پھر کچھ یوں ہی ہوا اور وہ بھی ایک ہی نشست میں جس میں مشکل سے گھنٹہ لگاہوگا۔ یعنی جب اعلان ہوا تو کوئی 64 سینیٹر حاصل بزنجو کے حق میں کھڑے ہوئے اور حکومت کے اتحادیوں کے پاس تعداد 34کے قریب تھی مگر جب اعلان سیکریٹ بیلٹ کا ہوا تو ’’بیلٹ بکس‘‘ میں حاصل بزنجو کے حق میں کھڑے ہونے والوں میں سے 14کے قریب پلٹ چکے تھے۔ ’’بریف کیس‘‘ نے تمام نام نہاد جمہوریت پسندوں کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا۔ چمک جیت گئی جمہوریت، آئین ہارگیا ۔اُس نے اپنی جوابی تقریر میں جو کہا وہی اسی مضمون کا نچوڑ ہے شاید بزنجو کو اندازہ تھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے سینیٹ کیا وہ دنیا سے ہی رخصت ہونے والا ہے مجھے اس کا افسوس نہیں کہ میں چیئرمین بنا کے نہیں البتہ ہم سب نے اپنے منہ پر سیاہی مل لی ہے۔‘‘

اہم بات یہ ہے کہ حاصل بزنجو ہار کر بھی جیت گیا مگر آج تک پی ڈی ایم کی کسی جماعت میں یہ ہمت نہیں ہوئی، نا ہی پی پی پی میں کہ ان 14سینیٹرز کو نکال کر سینیٹ سے باہر کر دیتے۔ ان میں سے کچھ تو اب بھی ہوں گے۔ یہ ہمت تو ہمارے کپتان کی بھی نہیں ہو سکی کہ وہ یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے والے اپنی جماعت کے MNAs کو جماعت سے نکال سکتے، کیونکہ ان کی حکومت گر جاتی۔ ایوان بالا اورایوان زیریں کے یہ 10سے 15 فیصد لوگوں نے ان ایوان کو ’’منڈی ‘‘ بنا دیا ہے ایسے میں کیا ’’گولڈن جوبلی‘‘ منائیں۔

سینٹ یا ایوان بالا سب سے موثر قومی یکجہتی کی علامت تصور کی جاتی ہے اگر ہر چند سال بعد اس کو توڑ دیا جائے یا معطل کردیا جائے تو دراصل ہم اس اتفاق رائے کو ختم کررہے ہوتے ہیں جو چاروں صوبوں کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔

خدارا اس ایوان کو ’ہال اوف فیم‘ بنائیں اور رہنے دیں ہال اوف شیم نہ بنائیں۔

’’چمک‘‘ نے اس ایوان کو ’داغ‘ ہی لگادیا 

 بدقسمتی سے سینیٹ میں ’خرید و فروخت‘ بھی اب روایات بنتی جارہی ہے۔ سینیٹر بننا ہو یا چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن ہو، عدم اعتماد ہو ،چمک نے اس ایوان کو ’داغ‘ ہی لگادیا ہے جس کی ہماری حالیہ تاریخ میں دو مثالیں ہیں ایک جب 2018 میں چیئرمین سینٹ کے الیکشن ہوئے اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے امیدوار حاصل بزنجو اکثریت کے باوجود ہار گئے اور دوسرا سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا پہلے سینیٹر منتخب ہونا اور پھر چیئرمین سینٹ کا امیدوار ہونا نہ خود مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے اندر اختلافات کو شدید کردیا اور یوں ایک بار پھر جناب صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ منتخب ہوگئے۔سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے بارے میں بھی جس طرح قرارداد منٹوں میں منظور ہوئی اسے ’ہال اوف فیم‘ میں نہیں ’شیم‘ میں ہی گنا جائے گا۔

شرم کسی کو نہ آئی

یہ 1998 کی بات ہے، پی پی پی کے دو سینٹرز چوہدری اعتزاز احسن اور اقبال حیدر مرحوم نے ایوان بالا میں لاہور کے ایک واقعہ پر قرارداد پیش کی ،جس کا تعلق لاہور میں معروف وکیل محترمہ حنا جیلانی کے دفتر میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی ایک خاتون سے تھا۔ حنا نے اس خاتون کو پناہ دی ہوئی تھی کہ ایک دن اس کی ماں ایک شخص کے ساتھ اس سے ملنے آئی ابھی ملاقات جاری ہی تھی کہ اس شخص نے پستوں نکال کر اسے قتل کردیا۔ اس سے پہلے کے وہ حنا جیلانی پر حملہ کرتا سیکورٹی گارڈ نے فائرنگ کردی اور وہ شخص بھی مارا گیا۔

قرارداد کی حمایت میں ایم کیو ایم کے سینیٹر مشہور شاعر و ادیب جمیل الدین عالی مرحوم بھی سامنے آگئے مگر اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور ’ترقی پسند‘ رہنما جناب اجمل خٹک مرحوم نے اعتزاز، اقبال حیدر اور دیگر کئی سینیٹرز کو حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے اس قتل کا دفاع کیا اور قرارداد کی مخالفت اور اسے قبائلی روایات سے تعبیر کیا۔ایسا ہی ایک واقعہ 2010میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اسرار زیدی جن کا تعلق بی این پی (عوامی) سے تھا ایسی ہی ایک قرارداد کی مخالفت میں کھڑے ہوگئے جس کا تعلق وہاں دو خواتین کو غیرت کے نام پر زندہ دفنانے سے تھا۔ 

انہوں نے بھی خٹک صاحب کی طرح اس کو وہاں کی روایات سے جوڑ کر سینیٹرز کو مشورہ دیا کہ ان معاملات میں وہ نہ پڑیں۔ ان دونوں واقعات اور قراردادوں کے عینی شائد مسلم لیگ کے سینیٹر جناب مشاہد حسین سید صاحب ہیں جو 1997 سے اب تک چار بار سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں۔

ڈسپلن کی ایک اعلیٰ مثال

18ویں ترمیم تو خیر دونوں ایوانوں کا کارنامہ ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کسی ترمیم کو لانے میں اتنا وقت لگے اور ایک خبر بھی لیک نہ ہو، یہ کسی کارنامہ سے کم نہیں اور اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ بہرحال تمام جماعتوں پر مشتمل کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی کو جاتا ہے۔ شائد آئین پاکستان بنانے کے دوران بھی یہ عمل نہ ہوا ہو کہ اخبارات تک میں اشتہار دیئے گئے کہ لوگ یا سینٹ سے باہر جماعتیں کوئی ترمیم لانا چاہتی ہوں تو جمع کرایں۔ہم کمیٹی کے اجلاسوں کے دوران اکثر باہر کھڑے رہتے مگر مجال ہے کہ کسی ممبر نے زبان کھولی ہو کہ کیا ترامیم لائی جارہی ہیں۔ 

یہ ڈسپلن کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آج بہت سے حلقہ اس 18ویں ترمیم پر سوالات اٹھا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ 1973 کے بعد ایسا اتفاق رائے پھر دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ عملدرآمد کی حد تک اختیارات مرکز سے صوبوں کو تو منتقل ہوئے وہاں سے نچلی سطح تک رکاوٹیں صوبائی حکومتیں آج تک ڈال رہی ہیں۔ خود رضا نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ صوبوں نے اختیارات 18ویں ترمیم کے تحت منتقل نہیں کیے۔