سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے آج تک برآمد کی گئی رقم کی تفصیلات مانگ لیں۔
عدالت نے سرکاری اداروں، بینکوں اور عوام کو واپس کی گئی رقم سمیت تمام تفصیلات جمع کرانے کا حکم بھی دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ بتایا جائے اب تک نیب نے کتنی ریکوری کی اور پیسہ کہاں خرچ کیا گیا؟
سپریم کورٹ نے نیب سے کس صوبے اور وفاقی حکومت کو کتنا پیسہ جمع کرانے کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔
عدالت میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جس حکومت یا ادارے کی خردبرد کردہ رقم ریکور ہو اسے ہی دی جاتی ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نیب تمام تفصیلات آئندہ سماعت تک جمع کرائے پھر جائزہ لیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ نیب نے گزشتہ برسوں میں رکارڈ ریکوریاں کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم سے اب بے نامی اور آمدن سے زائد اثاثے ثابت کرنا نیب کی ذمے داری ہے، نیب ترامیم کے مطابق بے نامی کی مالی ادائیگی کا ثبوت بھی نیب نے دینا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بے نامی جائیدادوں کی مالی ادائیگی کا رکارڈ ثابت کرنے کے لیے ہی کیس بنایا جاتا ہے، نیب قانون کے مطابق بے نامی دار میں خاوند یا اہلیہ، رشتہ دار یا ملازم ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم نے قانون کا دائرہ بڑھانے کے بجائے محدود کردیا ہے، پراسیکیوشن بے نامی پراپرٹیز کو ثابت نہیں کرسکتی جب تک متاثرہ فریق ثبوت نہ دے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت 4 اپریل تک ملتوی کردی۔