• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمان نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کے سابق سفیر زلمے خلیل زاد نے خفیہ دورہ کر کے عمران خان سے ملاقات کی ہے۔بھئی کیا کہنے کہ امریکہ سے اڑا ہے۔اٹھارہ گھنٹے دو تین سو مسافروں کے ساتھ مسلسل جہازمیں گزارے۔ لاہور یا اسلام آباد ائیر پورٹ پر اترا۔وہاں سے زمان پارک پہنچا ۔وہ کارکنوں کی انسانی شیلڈ میں سے ہوا بن کر گزرا اورعمران خان تک پہنچ گیا۔ یقیناً عمران خان نے مہمان کی آئو بھگت کی ہو گی۔ کھانے کا اہتمام کیا ہوگا۔ اسی دوران اس کی آنکھوں کو آنسو گیس کی ٹھنڈک بھی میسر آئی ہوگی۔ حیران ہوں کیسا جادوگر آدمی ہے۔ سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عمران خان سے مل کر واپس بھی چلا گیا۔ کسی کو کانوں کان خبرتک نہ ہو سکی۔ پنجاب اور اسلام آباد پولیس منہ دیکھتی رہ گئی۔ مجھے تو یہ خلیل زادہ زلمے نہیں، کوئی ظلمی بالمالگ رہا ہے۔ بارک حسین ابامہ کے بعد یہ دوسرا امریکی ہے جو مسلم پس منظر رکھتا ہے۔ ایک اور امریکی ڈیموکریٹ کانگریس مین ایرک سوال ویل نے بھی کہہ دیا ہے کہ عمران خان اور ان کے حامیوں پر تشدد ناقابلِ قبول ہے۔ ممکن ہے کہ کل مولانا فضل الرحمٰن اس کے خفیہ دورے کی بھی اطلاع ہمیں پہنچائیں۔ سنا ہے کہ ان کے پاس بہت ہی خاص قسم کے ’’جنات‘‘ ہیں جو انہیں پورے ملک میں ہونے والی خفیہ ملاقاتوں کی خبریں دیتے ہیں۔

مریم نواز شریف نےفرمایا کہ ’’حکومت عمران خان سے دہشت گردوں کی طرح نمٹے‘‘۔ کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ اس سے بڑا دہشت گرد کون ہو سکتا ہے جس نے برسوں سے شریف فیملی کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ 94ایف آئی آرز درج کرنے کے باوجود جی نہیں بھر رہا۔ فواد چوہدری نے مشورہ تو دیا ہے کہ چھ اور کاٹ دیں تاکہ سینچری مکمل ہو جائے۔ عطا تارڑ نے کہا ہے کہ ’’جو رعایت عمران خان کیلئے ہے کسی اور ملزم کو میسر نہیں‘‘۔ بالکل درست بات ہے۔ آپ نے اس پر 94 مقدمات بنائے ہیں کہ بس عدالتوں میں ہی آتا جاتا رہے، باقی زندگی جیلوں میں گزار دے۔ اب اگر پاکستانی قوم اس بات پر تیار نہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ عمران خان کو یہ سہولت عدالتوں نے نہیں پاکستانی عوام نے دی ہے۔ اب اگر وہ اس کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہے تو کیا ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد سے صرف ستر لوگ گرفتار کئے گئےہیں۔ بائیس کروڑ میں صرف ستر۔ کوئی بڑی جیل بنانے کی ضرورت ہے، جس میں پوری قوم قید ہو سکے بلکہ اپنے محل بچا کر پورے ملک کو جیل بنا دیا جائے تو مسئلہ آسانی سے حل ہو جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے عمران خان کو سیاست دان تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے بھی ٹھیک کہا ہے۔ بے شک عمران خان سیاست دان نہیں ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی کے ساتھ چکر بازی یعنی سیاست نہیں کی۔ بے شک ماضی قریب تک لفظ ’’سیاست‘‘ کا مطلب کسی ملک کا نظام حکومت، ملکی تدبیر و انتظام، طریقہ ِ حکمرانی وغیرہ تھا مگر اب لغت میں اس کے ساتھ اس کے مفہوم میں ’’چالاکی اور ریشہ دوانی‘‘ کے لفظ بھی درج کر دئیے گئے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے نو مقدمات میں ضمانت لے لی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اب نون لیگ کے سیاسی جلسوں میں کچھ اور ججوں کے نام لئے جائیں گے۔ پہلے سپریم کورٹ کے کئی ججوں کے نام کے نعرے لگ رہے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے تو کہاہے کہ ’’عدلیہ میں اس وقت عمران خان کے سہولت کار بیٹھے ہوئے ہیں‘‘۔ احسن اقبال بولے ’’عمران خان نے کوئی سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے عدالتیں ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیتیں‘‘۔ مگر مجھے اصل انتظار مریم نواز شریف کا ہےکہ اب وہ عدلیہ سے متعلق کیا فرماتی ہیں۔وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے ’’عمران خان کو گرفتار کرنا ہماری ترجیح نہیں‘‘۔ یعنی پچھلے دو تین دن ہم یونہی پولیس پولیس اور رینجر رینجر کھیلتے رہے ہیں ۔کیا ہوا ہے جو تین چار گاڑیاں تباہ ہو گئی ہیں۔ لاکھوں روپے کے آنسو گیس کے شیل ضائع ہو گئے ہیں۔ بیچارہ ظلِ شاہ شہید ہو گیا ہے۔ کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔پتہ نہیں کیا کیا ہو گیا۔ کھیل ہی کھیل میں۔

اب آتے ہیں انتخابات کی طرف۔ ہر طرف سے ایک آواز سنائی دے رہی ہے کہ ہم الیکشن نہیں کرا سکتے۔ ہم الیکشن میں سیکورٹی نہیں فراہم کر سکتے۔ ہم الیکشن کیلئے فنڈ نہیں مہیا کر سکتے۔ زیادہ تر سیاسی بزرجمہر وں کا تجزیہ بھی یہی ہے کہ الیکشن نہیں ہو رہے۔ مگر آج ایک خبر ایسی بھی نظر سے گزری جس پر مجھے یقین ہو گیا کہ الیکشن ہو رہے ہیں۔ خبر کیا تھی نون لیگ کے مشہور ٹائیگر ناصر بٹ کی طرف سے اعلان تھاکہ ’’میں برطانوی شہریت چھوڑ کر پاکستان الیکشن لڑنے جارہا ہوں۔ پی پی 16پر میں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے ہیں۔ خوشی ہے کہ پارٹی قائد نے مجھ ورکر پر اعتماد کا اظہار کیا ہے‘‘۔ میں ناصر بٹ کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ نواز شریف کے بہت قریب ہے۔ اگر الیکشن نہ ہو رہے ہوتے تو وہ کبھی برطانوی شہریت نہ چھوڑتا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ نون لیگ کی پوری کوشش ہے کسی طرح انتخابات ملتوی ہو جائیں۔ مرزا صاحباں کا قصہ یاد آگیا ہے

حُجرے شاہ مقیم دے اِک جَٹی عرض کرے

میں بکرا دیواں پیر دا جے سِر دا سائیں مرے

ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نِت بلے

کتی مرے فقیر دی، جیڑی چاؤں چاؤں نت کرے

پنج ست مرن گوانڈھناں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے

گلیاں ہو جان سنجیاں تے وِچ مرزا یار پِھرے

تازہ ترین