• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرٹس کونسل کراچی میں ماہرہ خان اور انور مقصود کی خصوصی نشست

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ’ایک شام ماہرہ خان کے نام‘ تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس کی میزبانی معروف ادیب و دانشور انور مقصود نے کی۔

آڈیٹوریم ہال میں موجود تمام لوگوں نے کھڑے ہوکر تالیاں بجاکر معروف مزاح نگار انور مقصود اور اداکارہ ماہرہ خان کا استقبال کیا۔

صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ ماہرہ خان اور انور مقصود کو سب جانتے ہیں، ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج ماہرہ ہمارے درمیان موجود ہیں، میں فضا اور نبیل کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔

انور مقصود نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جب بھی کسی سے بات کی ہے تو وہ سیاست دان یا پھر فوجی تھا، آج پہلی بار ایک اداکارہ سے اس طرح بات کررہا ہوں، پاکستان ٹیلی ویژن کی اداکاراؤں کے لیے میں نے بہت لکھا ہے جن میں عظمیٰ گیلانی، خالدہ ریاست، ثمینہ احمد، ثانیہ سعید، روبینہ اشرف، بشریٰ انصاری اور بدر خلیل شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب تک میں نے کوئی کھیل ماہرہ کے لیے نہیں لکھا کیونکہ جب سے میں نے لکھنا بند کیا ہے، ماہرہ خان مشہور ہوگئی تھیں۔

معروف اداکارہ ماہرہ خان نے کہا کہ میری بچپن سے خواہش تھی کہ اداکارہ بنوں، میری نانی کو اس بات پر اعتراض تھا، مجھے وی جے بننے کی آفر ہوئی تو کہا کہ مجھے فلموں میں کام کرنا ہے، وی جے بننے کے لیے گھر والوں سے اجازت لی، شعیب منصور کی کال آئی تو یقین نہیں آیا کہ وہ فلم ”بول“ میں کام کی آفر کررہے ہیں۔ میں نے شعیب سے کہا کہ میرا ابھی بے بی ہوا ہے، جواب ملا کہ کوئی بات نہیں ہمارے زمانے میں بچے سیٹ پر ہوا کرتے تھے، پھر میں امی، ابو اور میرا بیٹا اذلان لاہور گئے۔

اسکرپٹ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ماہرہ خان نے کہا کہ آج کل اسکرپٹ بہت لمبے ہوتے ہیں جس پر انور مقصود نے کہا کہ میں نے جب ستارہ اور مہرالنسا لکھا، اس میں زبردستی کا کوئی مکالمہ نہیں تھا، میں نے دس سال بعد ٹی وی کے لیے ایک پلے لکھا ہے، اس پلے کا نام ”پابندی“ ہے۔

ماہرہ خان نے کہا کہ اگر لڑکیاں فنانشل طور پر آزاد نہ ہوں تو بہت کچھ نہیں کر پاتیں، ہندوستان میں کام کرکے بہت اچھا لگا، شاہ رخ خان کے ساتھ کام کرنا میرا خواب تھا۔

انور مقصود نے پھر پوچھا کہ آپ اور شاہ رخ خان کی سوائے ناک کے کیا چیز ایک جیسی تھی، جس پر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا، ماہرہ خان نے ہنستے ہوئے کہا کہ مجھے بہت لوگوں نے بولا ناک کی سرجری کرالو، میں نے کہا کبھی نہیں، اگر ناک کٹوا دی تو کیا فائدہ۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے زندگی میں جو چیز سیکھی وہ وقت پر آنا اور اپنا پورا ٹائم دینا ہے، میں نے ٹیلی فلم ”ایک ہے نگار“ کو پروڈیوس بھی کیا، پیسے کے لیے مجھ سے پروڈکشن نہیں ہوتی، بہت سی کہانیاں ہم صرف مردوں کی دیکھتے ہیں، جنرل نگار کی کہانی ایک با ہمت خاتون کی کہانی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پرانے گانے سننا میرا شوق ہے، پاکستانی صوفی کلام، رفیع اور گیتا دت کے گانے بہت پسند ہیں، میں جب کالج گئی تو دو ڈی وی ڈیز میرے پاس تھیں، گرودت کی پیاسا اور آنگن ٹیڑھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ مولا جٹ میں اچھی پنجابی بولوں۔

انور مقصود نے کہا کہ میں نے آپ کی فلم ”مولا جٹ“ تین بار دیکھی اس میں مولا جٹ بہت شراب پیتا ہے اور رومانس کرتے ہوئے فواد خان بن جاتا تھا۔ سوشل میڈیا پر کچھ باتیں میری کہی ہوئی ہیں، باقی سب جھوٹ ہوتا ہے۔

ماہرہ خان نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاست دان کوئی بھی آئے مگر ایماندار ہونا چاہیے، جس پر انور مقصود نے کہا کہ ایک ایماندار سب کو بے ایمان کرسکتا ہے، 23 کروڑ کی آبادی ہے اگر ریاست مدینہ بن گئی تو 19 کروڑ لوگوں کے ہاتھ کٹے ہوں گے۔

آخر میں صدر آرٹس کونسل محمد احمدشاہ آرٹس کونسل کراچی کی جانب سے ماہرہ خان کو کلچرل ایمبسیڈر آف پاکستان کا ایوارڈ دیا گیا۔

اس موقع پر معروف مصور شاہد رسام اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر دانیال عمر بھی ان کے ہمراہ تھے۔

انٹرٹینمنٹ سے مزید