مفتی خالد محمود
ارشادِ ربانی ہے:’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے شاید تم متقی بن جائو۔ (یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں۔‘‘یہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۸۳ کا ترجمہ ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے روزے کی فرضیت کا تذکرہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا حکم دیتے ہوئے اسے لازمی اور فرض قرار دیتے ہیں تو دنیاوی قوانین کی طرح خشک انداز میں حکم نہیں دیتے ،بلکہ ایسا انداز اختیار کرتے ہیں جس میں ترغیب کے متعدد پہلو ہوتے ہیں اور اس انداز تخاطب میں عقیدہ، عقل اور قلب و جذبات سب کو بیک وقت اپیل کا سامان موجود ہوتا ہے۔ اسی آیت کو دیکھ لیجیے، اس میں سب سے پہلے کہا: اے ایمان والو! یعنی آگے جو حکم ہورہا ہے، وہ اہل ایمان کے لیے ہے اور ایمان کا تقاضا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔
پھر یہ کہا گیا کہ یہ حکم صرف تمہارے ساتھ خاص نہیں، بلکہ تم سے پہلے لوگوں کو بھی یہ حکم دیا گیا تھا۔ جب انسان کو یہ معلوم ہو کہ اس حکم پر عمل کرنے والا میں اکیلا نہیں ،بلکہ دوسرے بھی اس میں شریک ہیں تو اس پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے، پھر یہ فرمایا گیا کہ یہ حکم بے مقصد و بے فائدہ نہیں ،بلکہ عظیم مقصد تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کے بعد مزید تسلی کے لیے کہا کہ یہ حکم صرف چند متعین دنوں کے لیے ہے ہمیشہ کے لیے نہیں۔
صرف یہی نہیں ،بلکہ اس کے بعد پورے رکوع میں مزید آسانیوں کا تذکرہ ہے کہ مریض اور مسافر کو اجازت ہے وہ روزہ نہ رکھیں ،بعد میں اس کی قضا کرلیں اور جو روزہ نہیں رکھ سکتے ،وہ فدیہ دے دیں۔ پھر مزید فرمایا کہ جس ماہ میں روزہ کا حکم دیا گیا وہ اتنا مبارک ہے کہ اس میں قرآن کریم نازل کیا گیا۔
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہورہا ہے۔اس ماہِ مبارک کو قیمتی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ روزہ کے مقصد کو ہر وقت سامنے رکھا جائے اور اس مقصد کے حصول کی کوشش کی جائے۔اس ماہِ مبارک کی عظمت کو سامنے رکھا جائے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا : ’’تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے جو عظمت والا بھی ہے اور برکت والا بھی‘‘۔ جب اس ماہ مبارک کی عظمت اور روزہ کے مقصد کو سامنے رکھا جائے گا تو یقیناً اس ماہ مبارک کی ہمیں قدرہوگی اور ہم اس ماہِ مبارک کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق گزاریں گے۔
غرض یہ کہ ماہِ مبارک اپنے جلو میں ہزار ہا رحمتیں اور برکتیں لے کر ہمیشہ آتا رہا ہے، آئندہ بھی اِ ن شاء اللہ آئے گا، مگر کون جانتا ہے کہ اگلا رمضان المبارک ہم میں سے کس کو نصیب ہو۔ اس لیے ہم میں سے ہر شخص کو اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کی پذیرائی اس طرح کرنی چاہیے کہ گویا یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہے۔
اس ماہِ مبارک میں خصوصی اعمال (روزہ، تراویح، تلاوت قرآن کریم، ذکر الٰہی ، دعا و استغفار) کا خصوصی اہتمام کیا جائے، اس سراپا نور مہینے میں جس قدر نورانی اعمال کیے جائیں گے، اسی قدر روح میں لطافت، بالیدگی اور قلب میں نورانیت پیدا ہوگی۔ خصوصاً قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام، کیوں کہ اس ماہ کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے۔
اس مہینے میں جھوٹ ،بہتان، غیبت اور دیگر تمام آلودگیوں سے پرہیز کا پورا اہتمام کیا جائے، حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے اور غلط کام کرنے سے پرہیز نہ کرے ، اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ بہت سے روزے دار ایسے ہیں، جنہیں بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ نعوذ باللہ۔ روزے کی حالت میں کان کی ، آنکھوں کی ، پیٹ کی ، شرم گاہ کی اور دیگر اعضاء کی حفاظت لازم ہے۔غرض اس مہینے میں گناہوں کا ترک کرنا لازم ہے، اور اگر ذرا سی ہمت سے کام لیا جائے تو ان چند دنوں میں گناہوں کا چھوڑنا بہت آسان ہوجائے گا۔جہاں گناہوں سے پرہیز لازم ہے ، وہاں بے فائدہ اور لا یعنی مشاغل سے بھی احتراز کرنا چاہئے، کیونکہ یہ بے مقصد کے مشغلے انسان کو مقصد سے ہٹا دیتے ہیں۔
اس ماہِ مبارک میں قلوب کا تصفیہ بھی بہت ضروری ہے، جس دل میں کینہ، حسد، بغض، عداوت کا کھوٹ او ر میل جمع ہو، اس پر اس ماہ مبارک کے انوار کی تجلی کماحقہ نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض احادیث کے مطابق رمضان المبارک کی راتوں میں سب لوگوں کی بخشش ہو جاتی ہے، مگر ایسے دو شخص جو ایک دوسرے سے کینہ وعداوت رکھتے ہوں، ان کی بخشش نہیں ہوتی۔ اس لئے تقاضائے بشریت کی بناء پر جو آپس میں رنجش ہو جاتی ہے ، ان سے دِل صاف کر لینا چاہئے اور اس ماہِ مبارک میں کسی دوسرے مسلمان سے کینہ وعداوت دل میں باقی نہیں رہنی چاہیے۔ ماہِ مبارک کا دِل وزبان اور عمل سے احترام کرنا بھی لازم ہے، اپنی معصیت اور نافرمانی کے مظاہرہ سے اسے آلودہ نہ کریں۔
آنحضرت ﷺ نے رمضان کریم کو ہمدردی وغم خواری کا مہینہ فرمایا ہے، اس لئے اس مہینے میں جو دوسخا اور عطاء وبخشش عام ہونی چاہئے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت عطا فرمائی ہے، وہ اس مہینے میں تنگ دستوں اور محتاجوں کی بطور خاص نگہداشت کریں۔ خصوصاً موجودہ حالات میں غرباء، مساکین اور محتاج لوگوں کو خصوصاً وہ سفید پوش لوگ جو ضرورت مند ہیں، لیکن کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے، ایسے لوگوں کو تلاش کرکے ان کی خدمت کرنی چاہیے۔
اس ماہِ مبارک کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے ، رمضان مبارک کو گزرنے نہ دیجئے، جب تک ملأاعلیٰ میں اپنی بخشش ومغفرت کا اعلان نہ کروالیا جائے، توبہ واستغفار ، بارگاہ خداوندی میں عجز ونیاز اور آہ وزاری میں کسر نہ چھوڑیئے ،بلکہ ساری عمر کی حسرتیں نکال لیجئے، ذکر وتسبیح ، صلوٰۃ وسلام، تکبیر وتہلیل خصوصاً تلاوت قرآن پاک سے اپنے اوقات کو معمور رکھئے۔ تہجد کے وقت اُٹھنا اور سحری کھانا تو معمولات میں داخل ہی ہے کوشش کیجئے کہ اس ماہِ مبارک میں آپ کی نماز ِتہجد فوت نہ ہو، خواہ دو ہی رکعتیں پڑھنے کا موقع ملے مگر’’ آہ سحر گاہی‘‘ کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام ضرور درج کرا لیجئے۔
تراویح تو رمضان المبارک کی خاص نماز ہے، لیکن آپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ کم ازکم رمضان مبارک میں آپ کی کسی نماز کی تکبیر تحریمہ فوت نہ ہو۔
ٹی وی، موبائل فون کا غلط استعمال اور دیگر تمام لغوتفریحات کو خیر باد کہہ دیجئے اور عزم کر لیجئے کہ اس ماہِ مقدس کو اپنے گناہوں کی نجاست اور گندگی سے آلودہ نہیں کریں گے۔
ماہِ مبارک قبولیت دعا کا خاص موسم ہے، مانگنے والوں کو ملتا ہے اور خوب ملتا ہے ۔ مانگنے والوں کی حیثیت کے مطابق نہیں ،بلکہ دینے والا اپنی شان کے مطابق دیتا ہے، مگر کوئی چاہئے مانگنے والا۔ اس ماہِ مبارک میں ’’ کائنات کے داتا‘‘ کے دروازے پر جتنا مانگا جا سکے مانگئے، خوب رو رو کر مانگئے ، مچل مچل کر مانگئے، اپنے لئے بھی اپنے اہل وعیال اور دوست واحباب کے لئے بھی، اُمت مرحومہ کے بلند پایہ اکابر کے لئے بھی اور اُ مت کے گناہ گاروں کے لئے بھی۔یہ مغفرت و رحمت کا مہینہ ہے، اللہ سے معافی مانگنے کا مہینہ ہے۔ خصوصاً اس وقت جو حالات پوری امت مسلمہ اور خصوصاً ملک پاکستان میں چل رہے ہیں، اس میں توبہ و استغفار اور اللہ کی طرف رجوع بہت زیادہ ضروری ہے۔
آج پوری قوم عذابِ الٰہی میں گرفتار ہے ، عریانی و فحاشی کا سیلاب ہے جو اس قوم کو بہائے لے جا رہا ہے، ہر طرف سے الحاد و بے دینی کی یلغار ہے کہ اپنے ایمان کو بچانا مشکل ہورہا ہے۔ کسی کی نہ عزت محفوظ ہے، نہ جان، نہ مال و آبرو۔ مہنگائی نے ہر شخص کی کمر توڑ رکھی ہے، امن و امان نام کی کوئی چیز پورے ملک میں نہیں ہے، آئے دن خود کش حملے، بم دھماکے ہوتے ہیں، جن میں بیسیوں بے گناہ افراد لقمۂ اجل بنتے اور سیکڑوں زخمی ہوجاتے ہیں۔ خواتین کےحقوق کے نام پر بے حیائی اور فحاشی کو رواج دیا جارہا ہے۔
غرض یہ کہ اس وقت پورا ملک ایک عجیب و غریب منظر نامہ پیش کررہا ہے، ایک خوف، انتشار ، تشویش کی کیفیت طاری ہے ، کوئی راہ سجائی نہیں دے رہی، الزامات و اتہامات کی بارش ہے، ہر شخص دوسرے کو مورد الزام ٹھہرارہا ہے۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، طبقاتی منافرت، صوبائی عصبیت ، لسانی منافرت نے ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے، افراتفری اور بے اعتمادی کی بدبودار فضا میں دم گھٹا جارہا ہے، ہر طرف سے اَنا وَلَا غَیْرِیْ (میں میں اور تو تو ) کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔
یہ عذابِ الٰہی نہیں تو کیا ہے؟ اور عذابِ الٰہی کیوں نہ آئے جس ملک کو اسلام کے نام پر بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا، اس ملک میں اسلام کا مذاق اُڑایا گیا، سود کو حلال قرار دے کر اللہ اور اس کے رسول ﷺسے اعلان جنگ کیا گیا، قرآن میں تحریف کی گئی، خود ساختہ دانشوروں نے قرآن کریم کو اپنی مرضی کے معانی کا لباس پہنانا شروع کیا، حدیث کا مذاق اڑایا گیا، ختم نبوت کا انکار کیا گیا، صحابہؓ اور اہل بیت ؓپر تبرا بازی کرکے ان کی رداء عظمت کو تار تار کیا گیا، حدود اللہ کا انکار کیا گیا، سنت کے ساتھ تمسخر کیا گیا، ہمیں فلاں کی شریعت نہیں چاہیے، ملائوں کی شریعت نہیں چاہیے وغیرہ وغیرہ اس طرح شریعت سے انحراف کیا گیا تو پھر اللہ کا عذاب کیوں نہ آئے۔
ہم اللہ و رسول ﷺ کی تعلیمات و ہدایات سے اتنے دور چلے گئے ہیں کہ کہیں سے اسلام اور شریعت کی آواز بلند ہو تو ،ہمیں ہول آنے لگتا ہے کہ ہمارا کیا ہوگا؟ دین اسلام کو چھوڑ کر دوسروں کی نقالی اور پیروی میں ہم اتنے آگے جاچکے ہیں کہ نقل اصل سے بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں ایک ہی راستہ ہے کہ ہم سب اجتماعی توبہ کریں ، اللہ کے حضور گڑگڑائیں اور استغفار کریں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو اور اللہ اس حالت میں بھی ان کو عذاب دینے والا نہیں جب وہ استغفار کرتے ہوں۔‘‘ (سورۃ الانفال ، آیت: ۳۳)
علامہ شبیر احمد عثمانی ؒاس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’نزول عذاب سے دو چیزیں مانع ہیں۔ ایک ان کے درمیان پیغمبر کا موجود رہنا، دوسرے استغفار۔ یعنی مکہ میں آنحضرتﷺ کے قدم سے عذاب اٹک رہا تھا، اب ان پر عذاب آیا، اسی طرح جب تک گنہگار نادم رہے اور توبہ کرتا رہے تو پکڑا نہیں جاتا اگر چہ بڑے سے بڑا گناہ ہو۔‘‘ حضرت محمدﷺ نے فرمایا: ’’گنہگاروں کی پناہ دو چیزیں ہیں: ایک میرا وجود ،دوسرا استغفار۔‘‘
بات در اصل یہ ہے کہ سزا تو باغی قوم کو ملتی ہے، مسلمانوں نے اسلام کو زبانی قبول تو کیا ہے لیکن عملاً اسے چھوڑ دیا جس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔ یا تو وہ عملاً باغی ہیں یا عملاً منافق، بغاوت کا جرم بھی انتہائی سخت ہے اور نفاق کا جرم بھی انتہائی شدید، آج مسلمان قوم یا تو عملی بغاوت میں مبتلا ہے یا پھر شدید نفاق کا شکار ہے۔ ہم نے بحیثیت ایک مسلمان اور ایک امتی حق تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ کی شدید تحقیر کی ہے جو ناقابل برداشت جرم ہے۔ حق تعالیٰ کے دین کا استخفاف ، یہ توہین اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ حلیم نہ ہوتا تو ایک لمحہ کے لیے بھی ہمیں روئے زمین پر رہنے نہیں دیا جاتا اور اس صفحۂ ہستی سے اس قوم کا نام و نشان مٹادیا جاتا۔ اس لیے اجتماعی توبہ اور استغفار بہت ضروری ہے۔
کوئی شک نہیں کہ اس قوم پر قہر الٰہی اور غضب خداوندی ٹوٹ پڑا ہے، یہ ہزار چیخے چلائے، سر پیٹے، واویلا کرے، لاکھ جتن کرے ،مگر جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عذاب کو اٹھالینے کا فیصلہ نہیں ہوگا یہ قوم کبھی گردابِ بلا سے نہیں نکل سکتی، ہم اس بھول میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کیے بغیر محض ہماری تقریروں سے ، ہمارے نعروں سے ، ہمارے اخباروں سے، ہمارے رسالوں سے ، ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروپیگنڈے سے، ہماری جمہوریت سے، ہماری اصلاحات سے، ہماری حکومتوں سے ، ہماری قیادت سے، ہمارے عوامی شعور سے ، ہمارے قومی تدبر سے فضا بدل جائے گی، ہوا کا رُخ پلٹ جائے گا، طوفان کا دھارا مُڑ جائے گا، نفرت کا دھواں چھٹ جائے گا، انتشار و افتراق کا آتش فشاں سرد ہوجائے گا اور ہم صرف اپنی ناکارہ تدبیروں سے حالات پر قابو پالینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اگر ہماری خوش فہمیوں سے حالات بدل جاتے تو اب تک کبھی کے بدل گئے ہوتے ، مگر حق تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ راہ نہیں سمجھاتا بدکار قوم کو‘‘۔ جب تک معاشرے پر فسق و بدکاری کا عفریت مسلط ہے، ہمیں کبھی فلاح و بہبود کا راستہ نہیں مل سکتا ،بلکہ جو تدبیر ہوگی الٹی ہوگی۔ اس قہر الٰہی سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ ہم توبہ و انابت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اللہ تعالیٰ سے ہم نے جو معاملہ بگاڑ لیا ہے، اس کی اصلاح کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہماری توبہ کو قبول فرمائے اورہمیں اللہ کو راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)