• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کانگریس برطانوی حکومت سے پُرزور مطالبہ کر رہی تھی کہ برطانیہ کے جمہوری نظام اور مرکز میں اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لئے مقابلے کے امتحانات کا فریم ورک نافذ کر دیا جائے۔ یہ دونوں صورتیں ہندو رَاج قائم کرنے میں کلیدی کردار اَدا کر سکتی تھیں۔ مسلم قیادت کو برطانوی راج کے آغاز ہی میں یہ احساس ہو گیا تھا کہ مغربی جمہوریت ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے جہاں ہندوؤں کی بھاری اکثریت ہے۔ کونسلوں کے انتخابات نے اُس کے خدشات درست ثابت کر دیے تھے۔ یوپی، جس کی مسلم آبادی 14 فی صد تھی، اُس کی کونسلوں میں ایک بھی مسلمان ممبر منتخب نہیں ہو سکا تھا۔ یہی حال دوسرے صوبوں، شہروں اور اَضلاع کا بھی تھا۔ سب سے پہلے سرسیّد احمد خان نے اِس تشویش ناک صورتِ حال کے خلاف ہر محاذ پر آواز اٹھائی۔ وہ اِیسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت سے ترقی کرتے ہوئے عدلیہ کے اعلیٰ منصب تک جا پہنچے تھے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے اُن پر ’حیاتِ جاوید‘ کے نام سے ایک معرکۃ الآرا کتاب لکھی جس میں قوم پر اُن کے عظیم احسانات کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا۔ سرسیّد نے غیرمعمولی ریاضت سے انگریزی زبان پر عبور حاصل کر لیا تھا اور وُہ شیکسپیئر کے لہجے میں گفتگو کر سکتے تھے۔ اُن کی نگاہ دُوررس نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمانوں اور اَنگریزوں کے درمیان بےاعتمادی اور دُشمنی کا سلسلہ دیر تک قائم رہنے سے مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کا تر نوالہ بن سکتے ہیں، چنانچہ وہ ایک طرف انگریزوں کے ساتھ مفاہمت کی راہ اَپنائے رہے اور دُوسری طرف ہندوؤں کی سفاک آمریت سے محفوظ رہنے کا منصوبہ ترتیب دیتے رہے۔ اِن عملی تدابیر سے مسلمانوں کو ایک نئی زندگی ملی اور اُنہیں ایسے وسائل میسّر آنے لگے جن کی بدولت وہ فرنگی شکنجے اور ہندوؤں کی بالادستی سے نجات پانے میں بھی کامیاب رہے اور آگے چل کر آزادی کی نعمت سے بھی سرفراز ہوئے۔ سرسیّد احمد خان گورنرجنرل لیجسلیٹو کونسل کے رکن کی حیثیت سے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ میں سرگرداں رہے۔ ہندوؤں کی اکثریت سے محفوظ رہنے کا سب سے مؤثر ذریعہ جداگانہ انتخابات تھے، چنانچہ اُنہوں نے انگریزوں کو اِس امر پر قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ ہندوستان میں سیاسی امن قائم رکھنے کی خاطر حکومت کے لئے ہر سطح پر جداگانہ انتخاب کا اصول اپنانا ازبس لازمی ہے۔ علاوہ اَزیں وہ اَپنے ہم وطنوں پر بار بار وَاضح کرتے رہے کہ اُن کی سلامتی اور فلاح مغربی علوم حاصل کرنے اور کانگریس سے الگ تھلگ رہنے میں ہے۔ اُن کا بہت عظیم کارنامہ دلائل سے یہ ثابت کرنا تھا کہ نمائندہ حکومت ہندوستان کے لئےیکسر غیرموزوں ہے، کیونکہ یہاں دو مختلف قومیں ہندو اَور مسلمان آباد ہیں۔ اِسی طرح مقابلے کے امتحانات بھی یکسر غیرمنصفانہ ہیں، کیونکہ مسلمان انگریزی زبان اور مغربی علوم میں ضروری مہارت حاصل نہیں کر سکے، لہٰذا اَعلیٰ ملازمتوں میں اُن کا الگ کوٹا ہونا چاہئے۔ سرسیّد احمد خان نے کمال عرق ریزی سے ’اسبابِ بغاوت‘ کے عنوان سے کتاب لکھ کر ثابت کیا کہ فوجی بغاوت کی اصل ذمےداری ایسٹ انڈیا کمپنی پر عائد ہوتی ہے جو اُن بدگمانیوں کو دور کرنے میں بری طرح ناکام رہی جو بعض عناصر فوج کے اندر پھیلا رہے تھے۔ ہندوستانی فوج کو جو نئے کارتوس فراہم کئے گئے تھے، اُنہیں لوڈ کرنے سے پہلے دانتوں سے کھولنا پڑتا تھا۔ ہندو سپاہیوں میں یہ بے پَر کی اڑائی گئی کہ کارتوس گائے کی چربی سے بنے ہیں جبکہ مسلمانوں میں یہ تاثر پھیلایا گیا کہ یہ چربی خنزیر کی ہے۔ اعلیٰ فوجی افسروں نے اِس پروپیگنڈے کی روک تھام پر کوئی توجہ نہیں دی اور فوج میں بغاوت سر اٹھاتی چلی گئی۔ سرسیّد احمد خان کی اِس کتاب کا برطانوی حکمرانوں پر اچھا اثر ہوا جس کا انگریزی میں ترجمہ برطانوی پارلیمنٹ کے ہر اہم رکن، سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ عہدےداروں اور میڈیا کے ذمےداروں تک پہنچا دیا گیا تھا۔ اِسی نوع کی پیہم مصالحانہ کوششوں سے انگریز مسلمانوں کے بارے میں کسی قدر مطمئن ہو گئے تھے کہ وہ اُن کی حکومت کے وفادار رَہیں گے۔ سخت کشیدہ حالات میں یہ بہت بڑی سیاسی پیش رفت تھی جس نے آگے چل کر مسلمانوں کو اپنی جداگانہ حیثیت قائم رکھنے اور اَپنا سیاسی وزن بڑھانے میں ایک گونہ مدد فراہم کی۔ سرسیّد احمد خان نے مسلم سوسائٹی میں تازہ رُوح پھونکنے کے لئے ’تہذیب الاخلاق‘ کے نام سے ایک مجلّہ جاری کیا جس نے ایک نئے دبستان کی بنیاد رَکھی۔ یہ دبستان سادہ اَور سیدھے انداز میں اظہارِ خیال کا موجد تھا۔ یہی اسلوب مولانا حالیؔ نے اپنایا۔ اِس طرزِ تحریر سے ذہنوں کے بند دریچے وا ہوتے گئے۔ ’تہذب الاخلاق‘ میں تواتر سے بتایا جاتا رہا کہ مغربی اقوام نے کس طرح ترقی کی ہے اور مسلمانوں کو اَپنی انفرادی اور اِجتماعی زندگی میں کون کون سی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ اُن کے خیالات سے اختلاف کرنے والے خاصی بڑی تعداد میں موجود تھے کہ اُنہوں نے انگریزوں کو خوش کرنے کے لئےمعجزات کی عجیب و غریب تاویلات کی تھیں، تاہم اُن کی مخلص کوششوں کے نتیجے میں نوجوانوں کے اندر مغربی تعلیم کے حصول کا شوق اور اَپنا مستقبل سنوارنے کا شعور پختہ ہوتا گیا۔ سرسیّد احمد خان نے ذہنی اور فکری تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیا۔ وہ مغربی علوم و فنون کی تحصیل پر غیرمعمولی زور دَے رہے تھے اور علی گڑھ میں نہایت اعلیٰ درجے کا کالج قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جس نے آگے چل کر مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کا مرتبہ حاصل کیا۔ سرسیّد انگلستان گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں کئی ہفتے ٹھہرے۔ وہاں سے علی گڑھ کالج کا نصاب لے آئے اور عالمی شہرت کے اساتذہ بھی۔ اُن کی شہرت سُن کر پورے ہندوستان سے مسلم طلبہ علی گڑھ کالج تعلیم حاصل کرنے آتے اوراور معاشرے میں مسلم قومیت کو فروغ دینے میں اہم کردار اَدا کرتے رہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین