خبر مثبت ہے مگر اس سے زیادہ امیدیں وابستہ کر لینا قطعی طور پر درست نہیں ہوگا ۔سعودی عرب اور ایران سفارتی تعلقات کی بحالی کے لئے رضا مند ہوگئے ہیں اور چین کی ثالثی میں دونوں ممالک میں ایسے کسی معاہدے کادرجہ قبولیت تک پہنچ جانا یقینی طور پر صرف خطے یا عالم اسلام میں ہی چین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ عالمی منظرنامے پر بھی اس کے کردار کےبڑھنے کی جانب اشارہ کرتاہے۔ سعودی عرب نے چین کی حیثیت امریکہ سے اپنے تعلقات کے ہوتے ہوئے کیوں قبول کی ہے ؟ وہ کسی توازن کی جانب گامزن ہونا چاہتا ہے یا چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو امریکہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے اپنے لئے مزید گنجائش پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے؟ اس پر حقیقی صورتِ حال کے واضح ہونے کے بعد ہی گفتگو کی جاسکتی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے باہمی تعلقات میں اگرمزید پیش رفت ہوئی تو ایسی صورت میں جہاں اس کے مثبت اثرات سے دونوں ممالک کے عوام مستفید ہوں گے وہیں وطن عزیز میں بھی امن و امان کی صورتحال جو بوجوہ خراب ہو جاتی ہے یا کر دی جاتی ہے، کو بہتر کرنے کا موقع میسر آ سکےگا۔ مگر اس خوش کن منظر میں رنگ بھرنے کے لئے ابھی ان دونوں ممالک کے مابین بہت کچھ ہونا باقی ہےاور اس بہت کچھ کو حاصل کرنے کی غرض سے صرف سفارتی تعلقات کی از سر نو بحالی کافی نہیں کیونکہ ان دونوں ممالک کے درمیان جب سفارتی تعلقات ماضی میں بحال بھی تھے تواس وقت بھی باہمی تلخیاں اور غلط فہمیاں ہر اقدام میں کارفرما نظر آتی تھیں۔ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ یہ تصور کہ ان دونوں ملکوںکے اختلافات کا پس منظر فرقہ وارانہ ہے اور اس لئے ان میں بہتری نہیں آسکتی، سراسر غلط ہے۔ ماضی میں اپنے عرصۂ صدارت کے دوران ایرانی صدر خاتمی دونوں ممالک کے درمیان خوش گوار تعلقات کے لئےبہت متحرک تھے کیونکہ وہ یہ اچھی طرح جان گئے تھے کہ دشمنوں کی تعداد کو گھٹانا کامیاب خارجہ پالیسی کا اصل میدان ہوتا ہے۔انہوںنے سعودی قیادت سے1999میں ملاقاتیں کیں اور دو برسوں کی طویل گفت و شنید کے بعد اپریل2001 میں دونوں برادر مسلمان ممالک ایک سیکورٹی معاہدہ تک پہنچ بھی گئے جو دونوں ممالک کی قیادتوں کی عاقبت اندیشی کو ظاہر کرتا تھا۔اس معاہدے کو اس وقت ایران سعودی عرب تعلقات کی تاریخ میں سب سے بڑے بریک تھرو کے طور پر سمجھا جا رہا تھا اور اس معاہدے پر اگردونوں ممالک کاربند رہتے تو آج تعلقات کی بحالی کی خبر کی بجائے تعلقات کے مثالی ہونے کی خبر ہوتی ۔مگر پھر خطے میں افغان جنگ اور عراق پر امریکی جارحیت نے دونوں ممالک کےکچھ انتہا پسند ذہنوں کو حاوی ہونے کا موقع فراہم کر دیا کہ اس بدلتی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حریف کو بے بس کردیا جائے حالاں کہ وہ موقع حلیف بنانے کا تھا۔ میں انہی صفحات پر اس سے قبل بھی یہ تحریر کر چکا ہوں کہ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان اور ایران کے رہبر خامنائی کی براہ راست ملاقات ہونی چاہئے اور یہ دونوںشخصیات معاملات کو باہمی طور پر طے کریں ابھی ان دونوں بزرگوں کی موجودگی ایک غنیمت ہے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی رخصت ہو گیا تو اس قد کاٹھ کی شخصیت کی دوبارہ موجودگی شاید ممکن نہ ہو ، جن کا احترام اپنے ملک میں ، اپنے فیصلہ سازوں میں اس قدر ہو کہ جتنا ان بزرگوں کا ہے۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات اگر صرف معمول پر بھی آگئے تو اس کے مثبت اثرات وطن عزیز پر بھی فوری طور پرظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ ہماری ایران سے باہمی تجارت کو بھی فائدہ ہوگا اور ایران آج کل پاکستان اور بالخصوص پنجاب سے تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے جس کے لئے لاہور میں ایرانی قونصل جنرل مہرہ مواحد غیرمعمولی طور پرمتحرک بھی ہیں۔پاکستان کو بھی اپنی موجودہ معاشی صورتحال سے نکلنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تجارتی امکانات کو بڑھانے کی ضرورت ہے کیوں کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے پا بھی جاتے ہیں تو یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے ۔ ویسے بھی گزشتہ کالم میں اشارتاً عرض کیا تھا کہ آئی ایم ایف عمران خان حکومت کی طرز کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے کہ جس میں اس کو پاکستان کے قومی رازوں سے مکمل طور پر آگاہی حاصل ہو مگر موجودہ حکومت اس کو کسی صورت بھی تسلیم نہیں کر رہی اور اب تو اس کا برملا اظہار اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے بھی کردیا ہے کہ کسی کو یہ اختیار نہیں دے سکتے کہ وہ یہ تعین کرے کہ پاکستان کو کتنے اور کیسے ہتھیار رکھنے چاہئیں ؟ آئی ایم ایف نے دوست ممالک کی شرط بھی اس لئے عائد کی ہے ۔جب کہ دوست ممالک سے پاکستان کے دفاعی معاملات، کشمیر پر بھارت سے نرمی اور اسرائیل کو تسلیم کر لینے جیسے اقدامات کے حوالے سے بھی پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے وعدہ کیا تھا اس پر عمل کا۔ مگر موجودہ حکومت اس حوالے سے طے کر چکی ہے کہ نہ تو اب کسی کو سی پیک کے معاملات تک رسائی دی جائے گی اور نہ ہی دفاعی نظام کے حوالے سے کسی کو آگاہ کیا جائے گا ۔