”مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پانامہ کا کیس عدالت میں گیا تو ایک محترم اور دیانتدار جج نے اپنے گھر بلایا۔ جج ہوکر بھی انہوں نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے کہ سلیم ،خدا کیلئے عدلیہ کو تباہی سے بچانے میں ہماری مدد کرو۔
عرض کیا کہ مائی لارڈ مجھ جیسا معمولی اخبار نویس اور تقسیم شدہ میڈیا عدلیہ کی کیا مدد کرسکتا ہے؟ کہنے لگے کہ میڈیا ،عدلیہ کی یہ مدد کرسکتا ہے کہ وہ سیاستدانوں پر دباؤ ڈالے کہ وہ سیاسی کیسز وہاں نہ لے جائیں ۔ جج صاحب نے امریکی سپریم کورٹ کے جج اسٹیفن برئیر (Stephen Breyer) کی کتاب ’’میکنگ آور ڈیموکریسی ورک‘‘ (Making Our democracy work) پڑھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ کس طرح سیاسی کیسز کی سماعت سے عدلیہ متنازعہ بن جاتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں اسٹیفن برئیر نے سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لانے سے گریز کی نصیحت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کس طرح امریکہ جیسے ملک میں سیاسی مقدمات کی سماعت سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوتا ہے ۔
انکا کہنا تھا کہ پاکستانی عدلیہ ابھی امریکی عدلیہ کے مقابلے میں بہت کمزور ہے اور یہاں کی سیاست ابھی وہاں کی سیاست کے مقابلے میں بہت ناپختہ ہے۔ عدلیہ خالص تکنیکی بنیادوں پر قانون کے مطابق چلے تو پاکستان کا کوئی سیاستدان نہیں بچ سکتا اور مقبول سیاستدانوں کو نااہل کرے تو عدلیہ حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ یوں یہ کھیل عدلیہ کی کمزوری پر منتج ہوگا۔
جج صاحب کے اس تجزیے سے متاثر ہوکر میں نے سیاسی معاملات کو عدالتوں میں نمٹانے کی مذمت مزید شدت سے شروع کردی۔ میں نے خود بھی پانامہ کے کیس پر میڈیا میں زیادہ تبصروں سے گریز کیا اور یہ التجائیں کرتا رہا کہ کیس کے فیصلے تک میڈیا میں اس پر مباحثہ بند کردیا جائے لیکن جہاں عمران خان اور نواز شریف جیسوں نے میدان گرم کئے رکھا، وہاں ہم میڈیا نے کسی کی کیا سننی ہے ۔ چنانچہ سیاسی کھیل عدالتوں میں کھیلا جاتا رہا اور عدالتوں کے ساتھ ساتھ ہر روز شام کو ٹاک شوز میں بھی عدالتی کارروائی پر تبصروں کی صورت میں عدالتیں لگتی رہیں۔
مسلم لیگ(ن) نے سراج الحق اور شیخ رشید احمد کو توخاص توجہ نہیں دی بلکہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف سپریم کورٹ سے انصاف طلب کیا۔ ماہرین قانون بتاتے ہیں کہ نہ تو پانامہ کے کیس کا سپریم کورٹ کی سطح پر سماعت کا کوئی جواز تھا اور نہ ہی عمران خان اور جہانگیر ترین کے کیس کا ۔ یہ ٹرائل کورٹس، نیب یا پھر الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آنے والے معاملات تھے لیکن چونکہ نوازشریف کے پانامہ کیس کی سماعت ہورہی تھی، اس لئے توازن کی خاطر عمران خان اور جہانگیر ترین کے کیسز کو بھی سنا گیا۔
نواز شریف کے کیس میں خلاف توقع آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور ترسٹھ کا اطلاق کیا گیا ، حالانکہ سپریم کورٹ کے جسٹس صاحب اس سے پہلے کہہ چکے تھے کہ اگر اس کا اطلاق کیا گیا تو پھر پارلیمنٹ کا کوئی بھی رکن نہیں بچے گااور دوسرا اقامہ کی بنیاد پر سزا دی گئی جس کا کسی بھی پٹیشن میں ذکر نہیں تھا۔ اب اگر نوازشریف والا کلیہ استعمال ہوتا تو عمران خان کا بچنا ناممکن تھا، لیکن عمران خان کے فیصلے میں بوجوہ اس اصول کا اسی شدت کے ساتھ اطلاق نظر نہیں آتا۔ لیکن ان کے دست راست جہانگیر خان ترین کے کیس میں وہی طریقہ اپنایا گیا جو نوازشریف کے کیس میں اپنایا گیا تھا۔
چنانچہ جہانگیر ترین بھی اسی انجام سے دوچار ہوئے جس سے میاں نواز شریف ہوئے تھے۔ تحریک انصاف نے فیصلے کے فوراً بعد عدلیہ کے کردار سے متعلق سوال اٹھایا اور پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے الزام لگایا کہ جہانگیر ترین کو سزا بیلنس کرنے کے لئے دی گئی ہے۔
مسلم لیگی سوال کررہے ہیں اور بجا کررہے ہیں کہ عمران خان سے متعلق ان اصولوں کا اطلاق کیوں نہیں کیا گیا جو میاں نوازشریف کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
ادھر جہانگیر ترین کا کیمپ کہہ رہا ہے کہ ان سے متعلق اسی طرح جے آئی ٹی کیوں نہیں بنائی گئی جس طرح نوازشریف سے متعلق بنائی گئی تھی جب کہ ہم جیسے لوگوں کا خیال ہے کہ جہانگیر ترین سے متعلق اگر نوازشریف والا کلیہ استعمال کیا گیا تو عمران خان سے متعلق ارسلان افتخار والا رویہ کیوں اپنایاگیا ؟
جہانگیر ترین اگر انکار کے باوجود اپنے آف شور اکاؤنٹس کے بنیفشری ہیں تو عمران خان اقرار کے باوجود نیازی سروسز کے بنیفشر ی کیسے نہیں ہیں؟ نوازشریف اور جہانگیر ترین کے لئے اگر مدت کی قید نہیں رکھی گئی تو عمران خان کے پارٹی فنڈنگزکے معاملے میں پانچ سال کی قید کیوں رکھی گئی؟
میں ترین صاحب کا شدید ناقد رہا ہوں لیکن زیادتی، زیادتی ہوتی ہے۔ کسی شخص کی اتنی بڑی سیاسی محنت اور سرمایہ کاری کو محض بیلنس کرنے کے لئے ایک ہی دن میں اڑا دینا شاید انصاف ہو لیکن انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔
مجھے اب بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں قربانی کا بکرا بنا یا گیا ۔وہ عمران خان کے دست راست تھے اور پی ٹی آئی کو اس مقام تک پہنچانے میں ان کے پیسے اور کوششوں کا حصہ کسی بھی دوسرے سے زیادہ دخل تھا۔ لیکن ان کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا ، اس سے لگتا ہے کہ وہ جہانگیر ترین نہیں بلکہ جہانگیر شریف ہوں ۔جیسے وہ پی ٹی آئی کے نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری ہوں۔
جہانگیر ترین کو جہانگیر شریف بنانے میں دوسروں کے علاوہ شاید وہ شخص خود بھی شریک تھا جن کی خاطر انہوں نے گزشتہ چند برسوں میں اپنی دولت کو پانی کی طرح بہایا ۔ ایک ثبوت تو اس کا یہ ہے کہ اس فیصلے سے دو ہفتے قبل عمران خان کے لئے جہاز خریدنے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ لیکن اب یہ نوازشریف اور جہانگیر ترین کا نہیں بلکہ عدلیہ کے وقار کا سوال ہے اور پوری قیادت کو سرجوڑ کر عدلیہ کے وقار کو بچانے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔
اب جب کہ سب کچھ خلاف ضابطہ اور خلاف روایت ہورہا ہے تو بحران سے نکلنے کے لئے ایک خلاف ضابطہ اور غیرروایتی مگر ممکنہ حل یہ ہوسکتا ہے کہ نوازشریف، عمران خان اور جہانگیر ترین کی کے معاملات کا دوبارہ فل کورٹ جائزہ لیا جائے۔‘‘
جو کچھ آپ نے پڑھا یہ روزنامہ جنگ میں ساڑھے پانچ سال قبل 19دسمبر 2017کو ”عدالت عظمیٰ کا ٹرائل“ کے زیرعنوان شائع ہوا تھا۔۔ تب ہم جیسوں کی دہائیوں پر دھیان دیا جاتا تو نہ ملک پچھلے چھ سالہ بحران سے گزرتا اور نہ آج ہماری عدالتوں کا یہ حشر ہوتا۔ تب فل کورٹ بنالیا جاتا تو آج فل کورٹ کا مطالبہ سامنے آتا اور نہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان ایک دوسرے کے خلاف فیصلے دے رہے ہوتے۔
اب بھی وقت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پاور گیم سے نکل کر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں ورنہ ترازو کے پلڑوں میں توازن لانے کے لئے چھڑی حرکت میں آ جائے گی۔