آئین 73ء کی اصل شکل تو بگڑ ہی گئی، ہر دور میں اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھلواڑ ہوتا رہا، اب تک اس میں 26ترامیم ہوچکی ہیں، زیرِ نظر مضمون میں آئینی ترامیم کے حوالے سے مختصراً جائزہ ملاحظہ کریں۔
1973 کے آئین میں پہلی اور دوسری ترمیم 1974 میں منظور کی گئی۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی ترمیم کے ذریعے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا گیا جبکہ دوسری ترمیم کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قراردیا گیا، تاہم اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ دونوں ترامیم اتنی بے ضرر نہیں تھیں جتنی کہ بظاہر نظر آتی ہیں۔
بنگلہ دیش کو اس ترمیم سے پہلے ہی ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا جا چکا تھا، تا کہ شیخ مجیب الرحمن کی اس اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کو یقینی بنایا جا سکے جو فروری 1974 میں لاہور میں منعقد ہونے والی تھی۔ اپریل 1974 میں آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم کر کے مشرقی پاکستان کے کسی بھی ذکر کو حذف کر دیا گیا تھا۔ لیکن پہلی آئینی ترمیم کے کچھ اور بھی ایسے پہلو تھے ۔
آئین کے آرٹیکل 17 میں جو اہم تبدیلیاں کی گئی تھیں ان کے ذریعے اجتماع کی آزادی کو محدود کر دیا گیا۔ نئی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اسی آئینی ترمیم کی بنیاد پر پولٹیکل پارٹیز ایکٹ مجریہ 1962 پر بھی نظر ثانی کی گئی۔ وفاقی حکومت کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے بارے میں یہ اعلان کر سکتی ہے کہ وہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف کام کررہی ہے ملزم جماعت تحلیل ہو جائے گی اور وفاقی حکومت اس سیاسی جماعت کی تمام جائیداد اور فنڈ کو ضبط کرے گی۔ سپریم کورٹ کے پاس بہر حال حکومت کے اعلان نامے کو مسترد کرنے کا اختیار ضرور حاصل تھا۔ لیکن ایک تابع عدلیہ کے باعث ایسا کبھی ممکن نہیں ہو سکا۔
ان ترامیم کے بعد کسی بھی ہائی کورٹ کے پاس سیاسی ظلم و جبر کے شکار افراد کی دادرسی اور انہیں دوران حراست ضمانت دینے کا اختیار باقی نہیں رہا۔ چوتھی آئینی ترمیم کے پورے عمل کو بڑی چالاکی سے پورا کیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے دیگر دو عنصر کو زیادہ تباہ کن عناصر کی شدت کو کمتر دکھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے چھ خصوصی نشستیں مختص کی گئیں اور پنجاب اسمبلی میں اقلیتوں کی نشستیں تین سے بڑھا کر پانچ کر دی گئیں۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے وہ ارکان جو چوتھی آئینی ترمیم بالخصوص ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں کمی کے حوالے سے بحث کرنا چاہتے تھے انہیں اسمبلی سے نکال دیا گیا۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے والے سیاسی رہنماؤں میں مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور محمود علی قصوری شامل تھے۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ پی پی پی کو قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت حاصل تھی اور وہ ان ترامیم کو با آسانی منظور کراسکتی تھی لیکن اس نوعیت کے المیوں کو بہر حال، ہماری تاریخ کا حصہ بننا تھا۔
آئین میں پانچویں ترمیم ستمبر 1976 میں منظور کرائی گئی جس کے تحت آئین کے 16 آرٹیکل اور آئین کے فرسٹ شیڈول میں ترامیم کی گئیں۔ اس ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں (ہائی کورٹس) کے اختیار مزید آرٹیکل 199 کے تحت محدود کر دیے گئے ۔ اس ترمیم کے ذریعے جج حضرات پہلی مرتبہ خود متعدد طریقوں سے متاثر ہوئے تھے ۔ اب سپریم اور ہائی کورٹس کے ججوں کی معیاد کا تعین صرف ایک مخصوص عمر تک باقی نہیں رہا بلکہ متبادل طور پر ایک مخصوص مدت کا تعین بھی کر دیا گیا۔
یہ امر بھی عیاں ہو گیا تھا کہ بھٹو بعض تعیناتیوں میں تبدیلیاں لانا چاہیے تھے ۔اس ترمیم کا ایک ضابطہ یہ بھی تھا کہ اب حکومت کو کسی بھی حج کو اس کی رضامندی کے بغیر کوئی وجہ بیان نہ کرتے ہوئے اس ضمن میں چیف جسٹس سے مشاورت کیے بغیر ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا تھا۔
پانچویں ترمیم کی کڑوی گولی کو ایک مرتبہ پھر شکر میں لپیٹ کر کھلانے کی کوشش کی گئی۔ اس مقصد کے لیے سندھ اور بلوچستان میں علیحدہ ہائی کورٹس قائم کی گئیں۔ اس عمل کو اس پابندی کے مقابلے میں زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا گیا جس کے تحت ہائی کورٹس کے عبوری ضمانت کی منظوری کے اختیار پر پابندی لگا دی گئی تھی،کیونکہ دوسری صورت میں حکومت انہیں جبری طور پر ریٹائر کرسکتی تھی۔ 1976 میں صرف پانچویں آئینی ترمیم ہی منظور کی گئی تھی لیکن اس ترمیم نے اعلی عدلیہ کو مکمل طور پر اطاعت گزار اور تابع بنا دیا۔ لاہور اور پشاور کے چیف جسٹسس سردار اقبال اور غلام صفدر شاہ کو اپنی چار سالہ معیاد مکمل کر کے ریٹائر ہونا پڑا تھا حالانکہ وہ پینشن کی عمر تک ابھی نہیں پہنچے تھے۔
چھٹی ترمیم عام انتخابات سے قبل اسمبلی کے آخری اجلاس میں منظور کرائی گئی۔ ساتویں ترمیم انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی نئی متنازعہ اسمبلی میں مئی کے مہینے میں منظور کی گئی جو حکومت کو بچانے کی ایک آخری کوشش تھی۔ چھٹی ترمیم جسٹس یعقوب علی کو پینشن کی عمر تک پہنچنے کے بعد بھی فرائض جاری رکھنے کے لیے خصوصی طور پر عمل میں لائی گئی تھی۔ پرانی بات نہیں تھی کہ بھٹو نے خود ججوں کو چیف جسٹس کی چار سالہ معیاد پوری کرنے کے بعد ملازمت جاری رکھنے سے محروم کر دیا تھا۔
خواہ ان کی عمر محض 55 سال ہی کیوں نہ رہی ہو۔ اب بھٹو جسٹس یعقوب علی کو 65 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد بھی اس بنیاد پر کام جاری رکھنے کی اجازت دینا چاہتے تھے کیونکہ بطور چیف جسٹس انہوں نے اپنی چار سالہ معیاد ابھی مکمل نہیں کی تھی۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد جسٹس یعقوب علی بطور چیف جسٹس کام کرتے رہے۔ ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اس ترمیم کا خاتمہ کر کے،جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کر دیا تھا تا کہ وہ ان سے اپنے من پسند فیصلے کرواسکیں۔
ساتویں ترمیم ریفرنڈم کرانے کی گنجائش نکالنے کی غرض سے کی گئی تھی کیونکہ حزب اختلاف مارچ 1977 کے عام انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر رہی تھی اور بھٹو ازسرنو دوبارہ انتخابات کروانے کے حق میں نہیں تھے۔
بھٹو نہ ریفرنڈم اور نہ ہی دوبارہ عام انتخابات کراسکے کیونکہ جنرل ضیا الحق نے 5 جولائی کو فوجی انقلاب کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔اس کے بعد جنرل ضیا الحق نے بھی آئین کو مسخ کرنا شروع کر دیا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھٹو نے خود اپنے بنائے ہوئے آئین کو جس حد تک ممکن تھا مسخ کیا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے ایک مستحکم جمہوریت کے سفر میں اپنے امکانی ساتھیوں کو بھی ناراض اور متنفر کر دیا۔ یہ ایک دردناک سچائی ہے کہ آئین میں جن ابتدائی ترامیم کا ذکر کیا جا چکا ہے ان میں سے کوئی ایک ترمیم بھی ایسی نہیں تھی جس کے ذریعے عوام کے جمہوری حقوق کو یقینی بنایا گیا ہو یا انہیں مزید حقوق دیے گئے ہوں۔ ان ترامیم کا مقصد عدالتی اختیارات کو کم یا محدود کرنا اور وفاقی حکومت کے خلاف کسی بھی امکانی مخالفت کو تباہ کرنا تھا۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں آئین کا تیا پانچہ
آئین کو معطل کرنے کے بعد جنرل ضیاء نے پے درپے مارشل لاء احکام کے ذریعے اُن تمام لوگوں کو ہدف بنایا جو بحالی جمہوریت کے مطالبے کر رہے تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے آئین پر سب سے بڑا ڈاکا 1981 میں ڈالا جب پہلا عبوری آئینی حکم یا پروویژنل ( PCO ) جاری کیا۔ اس آئینی حکم کے تحت جسے آئینی کہنا بھی آئین کی توہین تھا جنرل ضیاء الحق نے سپریم کورٹ کے ججوں کے لیے لازمی قرار دے دیا کہ وہ نیا حلف اُٹھائیں ۔ جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے نیا حلف اُٹھانے سے انکار کردیا اور مستعفی ہوگئے۔
چیف جسٹس انوار الحق کو بھی مجبور کردیا گیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں جن کے بعد جسٹس محمد حلیم نے حلف اُٹھا کر چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور اگلے آٹھ سال ملک کے اعلی ترین جج رہے۔
آئین پر اگلا شب خون جنرل ضیاء نے،دسمبر 1981 میں مارا جب ایک صدارتی حکم کے تحت مجلس شوریٰ تشکیل دی گئی ۔1984 میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک ریفرنڈم کرواکر لولا لنگڑا قانونی جواز حاصل کرکے اگلے دس سال کے لیے صدر منتخب ہوجاؤں ۔ ابھی آئین معطل ہی تھا کہ دسمبر 1984 میں ریفرنڈم کرایا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کو اگلے پانچ برس کے لیے صدر منتخب کرلیا ہے، پھر فروری 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے ۔ ایم آر ڈی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اعتراف کیا کہ یہ بائیکاٹ ایک غلطی تھا ۔ مارچ 1985 میں جنرل ضیاء الحق نے ایک اور صدارتی حکم جاری کیا۔اس کو آئین کی بحالی یا ( Rco ) کہا گیا ،جس کے تحت آئین میں بڑے پیمانے پر ترامیم کی گئیں ۔ ان ہی ترامیم کی بنیاد پر آٹھویں ترمیم منظور کروائی گئی جو درجنوں ترامیم کا مجموعہ تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونيجو کو وزير اعظم مقرر کیا۔ مارچ 1985 کے آخری ہفتے میں اُنہوں نے اعتماد کا ووٹ لیا۔
اب جنرل ضیاء الحق نے دھمکی دی کہ اگر ان کی ترامیم کو آٹھویں ترمیم کے ذریعے قانونی تحفظ نہ دیا گیا تو وہ ایک بار پھر قومی اسمبلی تحلیل کرسکتے ہیں۔
نو منتخب اراکینِ اسمبلی نے مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دیے اور دسمبر 1985 میں پارلیمانی امور کے وزیر اقبال احمد خان نے ترميم کا مسودہ پیش کیا جس پر خاصی تنقید ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق بظاہر اس ترمیم کے ذریعے صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں توازن قائم کرنے کا دعوی کررہے تھے مگر دراصل آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے مسلط کرنے کے بڑے ہی سنگین نتائج برآمد ہوئے۔ نومبر 1985 تک یہ ترميم آئين کا حصہ بن چکی تھی۔
اب کابینہ اور دیگر ادارے جنرل ضیاء الحق کی صوابدید پر ہی کام کرسکتے تھے ، اُن کی مرضی کے بغیر پوری پارلیمان مفلوج ہو سکتی تھی۔آٹھویں ترمیم کے تحت جولائی 1977 کے بعد مارشل لاءحکومت کے کیے ہوئے تمام اقدامات کو آئینی تحفظ دے دیا گیا تھا ۔ فوجی آمریت کے تمام غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلوں کو محفوظ کردیا گیا تھا جن کے تحت آٹھ سال تک ملک میں آئین اور جمہوریت کا تیا پانچہ کیا گیا تھا۔ اس طرح فوجی عدالتوں کے تمام فیصلے بھی آئینی قرار دے دیے گئے۔ قرار دادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا اور ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
جب جنرل ضیاء الحق نے قومی اسمبلی سے 1985 میں آٹھویں ترمیم منظور کرالی تو انہوں نے مارشل لاء اُٹھانے کا اعلان کیا۔ اب ملک بظاہر تو سول حکمرانی میں تھا مگر آٹھویں ترمیم کی تلوار لٹک رہی تھی ۔جب 1986 میں بے نظیر بھٹو ملک واپس آئیں تو ایک بڑے جلوس نے اُن کا استقبال کیا جس سے جنرل ضیاء الحق کو ایک بار پھر خطرہ محسوس ہوا اور وہ عورتوں کے چادر اور چار دیواری کے مطالبے کرنے لگے۔
نویں ترمیم کا بل جولائی 1986 میں پیش کیا گیا اور سینیٹ نے اسے منظور کر کے قومی اسمبلی کو بھیج دیا۔اس حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ کوئی خاتون کسی اسلامی ملک کی سربراہ یا رہ نما نہیں ہوسکتی، اسی سلسلے میں نویں آئینی ترمیم لانے کی کوشش کی گئی تھی مگر منظور نہ کرائی جاسکی۔ دوسری طرف قومی اسمبلی نے آئین کی دسویں ترمیم پر کام شروع کر دیا، جو مارچ 1987 میں پیش کی گئی جس کے ذریعے قومی اسمبلی کے اجلاس اور سینیٹ کے اجلاس کے دوران وقفہ 160 سے گھٹا کر 130 دن کردیا گیا ۔یہی وہ وقت تھا جب سندھ خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد کو نسلی اور لسانی فسادات کی نزر کردیا گیا تھا۔ اور یہی وہ وقت کہ آئین کی آٹھویں ترمیم جنرل ضیاء الحق کے کام آئی جنہوں نے محمد خان جونیجو اور اُن کی حکومت کو مئی 1988 میں برطرف کردیا۔ یہ آٹھویں ترمیم کا پہلا شکار تھا۔
جنرل ضیاء نے اعلان کیا کہ اب ملک میں نئے انتخابات ہوں گے مگر اس سے قبل ہی اگست 1988 میں جنرل ضیاءطیارہ حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ غلام اسحاق خان جو سینیٹ کے سربراہ تھے انہوں نے بطور صدر اقتدار سنبھالا۔
جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد حاجی سیف اللہ نے جونیجو حکومت کی برخاستگی اور اسمبلی کی تحلیل کے خلاف عدالت میں درخواست دی، مگر سپریم کورٹ نے اسمبلی کی تحلیل کو غیر آئینی قرار دینے کے باوجود انہیں بحال نہیں کیا اور فیصلہ دیا کہ انتخابات کروائے جائیں ۔بعد میں جنرل اسلم بیگ نے دعویٰ کیا کہ فوج کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں سپریم کورٹ کو مشورہ دیا تھا کہ اکتوبر 1988 میں اسمبلیاں بحال نہ کی جائیں۔
1988 کے آخر تک بے نظیر بھٹو ملک کی تاریخ کی کم عمر وزیراعظم بن چکی تھیں اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔
اب سینیٹ میں حزب مخالف کے ارکان نے 1989 میں آئین کی گیارہویں ترميم کا مسودہ پیش کیا جس کے تحت اسمبلی میں خواتین کی 20 مخصوص نسشتیں بحال ہونا تھیں ،مگر پیپلزپارٹی ہی کی حکومت نے اسے منظور نہیں کیا ۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے یہ یقین دلایا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت خود یہ مسودہ پیش کرکے منظور کرائے گی اس یقین دہانی پر مسودہ بھی واپس لے لیا گیا اور نویں ترمیم کی طرح گیارہویں ترمیم بھی آئین کا حصہ نہ بن سکی۔
نوے کے عشرے میں آئینی ترامیم
1993 میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے حکومت بنائی تو انہوں نے اپنے آزمودہ ساتھی فاروق لغاری کو صدرِ پاکستان بنایا ۔ اب انہیں توقع تھی کہ وہ اپنی پانچ سالہ مدتِ حکومت ضرور پوری کرلیں گی مگر ایسا نہ ہوسکا ۔ بالآخر 1996 میں فاروق لغاری نے بے نظیر کی دوسری حکومت برطرف کردی اور بدعنوانیوں اور خراب امن وامان کی صورت حال کا الزام لگایا۔
1997 میں نواز شریف انتخابات جیت کر دوبارہ وزیراعظم بنے تو اُن کے پاس دوتہائی اکثریت تھی جس کی مدد سے وہ آئین کی آٹھویں ترمیم کے کچھ حصے ختم کرنے کے قابل ہوگئے۔
اس طرح اپريل 1997 میں تیرہویں ترميم کو چند منٹوں میں ہی منظور کرلیا گیا جس کے لیے قوائد و ضوابط میں نرمی بھی کی گئی۔
آئین میں تیرہویں ترمیم نے صدر کے اختیارات بہت کم کردیے اور اب دفعہ 582B کے تحت صدر اپنی مرضی سے وزیراعظم کو برطرف نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن آٹھویں ترمیم کی مذہب سے متعلق دفعات کو برقرار رکھا گیا ۔ یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ تیرہویں ترمیم نے آٹھویں ترمیم کا خاتمہ کردیا، کیوں کہ اس نے صرف صدرِ پاکستان کے اختیارات چھین کر وزیر اعظم کو منتقل کردیے تھے۔
اب صدر اسمبلیاں تحليل نہیں کرسکتے تھے تاوقت کہ وزیراعظم اس کا مشورہ نہ دیں ۔ اب وزیراعظم ہی افواجِ پاکستان کے سربراہ کا تقرر کرسکتے تھے جن کے مشورے پر ہی صدرِ کو تعیناتی کا اعلان کرنا تھا۔ اس طرح چیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف اور گورنروں کے تقرر میں بھی وزیر اعظم کو ہی فیصلے کا اختیار دیا گیا۔
تیرہویں ترمیم کے ذریعے خواتین کی مخصوص نشستیں بحال کردی گئیں جو بے نظیر حکومت نے 1989 میں کرنے سے انکار کیا تھا جب نویں ترمیم کا مسودہ پیش کیا گیا تھا ۔ اس وقت پیپلزپارٹی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ خود ایک نیا مسودہ پیش کرے گی جو اس نے دونوں حکومتوں میں نہیں کیا۔
اب جمہوریت پسند لوگ تیرہویں ترمیم سے یہ امید لگا بیٹھے کہ پارلیمانی بالا دستی کا دور شروع ہوچکا ہے اور 1988 سے 1996 تک چار وزراء اعظم کی برطرفی کے بعد 1973 کا آئین اپنی اصل حالت میں بحال ہوچکا ہے۔
مگر پھر وزیراعظم نواز شریف اپنی دوتہائی اکثریت کے نشے میں سرشار ہوگئے اور آمرانہ طرز اپنا لیا ۔ چند ماہ بعد ہی آئین میں چودھویں ترمیم کا ڈول ڈالا گیا جس کے ذریعے ارکانِ پارلیمان کو سخت ضابطے کا پابند کرکے پارٹی سربراہوں کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے کہ اگر کوئی رکن اسمبلی سربراہ کے خلاف ووٹ دے تو اسے اسمبلی رکنیت سے محروم ہونا پڑے گا۔
1998 میں نواز شریف نے پندرھویں ترمیم پیش کی جو اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے منظور نہ ہوسکی ۔ مجوزہ پندرھویں آئینی ترمیم کے تحت ملک میں شریعت کا نفاذ ہونا تھا اور وفاقی حکومت کو پابند کیا جانا تھا کہ وہ شریعت کے نفاذ کے لیے اقدام اُٹھائے اور اگر کوئی سرکاری اہل کار شریعت کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف تادیبی کاروائی لازمی ہونا تھی۔ پندرھویں ترمیم تو سینیٹ میں اٹک گئی مگر اگست 1999 میں سولہویں ترمیم کے ذریعے کوٹا سسٹم کی مدّت بیس سال سے بڑھا کر چالیس سال کردی گئی ۔ لیکن کوئی بھی ترمیم وزیراعظم نواز شریف کو نہ بچا سکی اور دوسرے فوجی سربراہ کو برطرف کرنے کے چکر میں جنرل مشرف کے ساتھیوں نے بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔
اس طرح اگر 1973 سے 1999 تک آئین کے پہلے برسوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کُل تیرہ ترامیم منظور ہوئیں اور تین ترامیم کے مسودے دونوں ایوانوں سے منظوری حاصل نہ کرسکے۔ تیرہ منظور شدہ ترامیم میں سے سات ترامیم 1972 سے 1977 تک ذوالفقار علی بھٹو کے پانچ سالہ دور میں منظور کی گئی۔
آٹھویں ترمیم سب سے خطرناک ثابت ہوئی جسے جنرل ضیاء الحق نے آئین پر مسلط کیا تھا اور جس نے جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ۔ بے نظیر بھٹو اپنی دونوں حکومتوں میں کوئی آئینی ترمیم منظور نہیں کی، جب کہ نوازشریف نے بارھویں ترمیم پہلے دور حکومت میں اور تیرھویں ، چودھویں اور سولہویں ترمیم 1997 سے 1999 کے دوران دوسرے دورِ حکومت میں منظور کرائیں۔
آئینی پامالی
اکتوبر 1999 میں غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے اقتدار پر قبضے کے بعد نئی فوجی آمریت نے ایک بار پھر آئین کا تیا پانچہ کرنا شروع کر دیا ۔ جنرل پرویز مشرف کی واحد خواہش یہ تھی کہ اپنے اقتدار کو طول دیا جائے
شروع میں عدالتوں کے جج کسی نئے حلف لینے پر مجبور نہیں کیے گئے مگر جب سپریم کورٹ میں فوجی حکومت کے خلاف درخواست دائر کی گئی تو جنوری 2000 میں ایک عبوری آئینی حکم کے تحت ججوں کو مجبور کیا گیا کہ فوجی حکومت سے وفاداری کا نیا حلف اٹھائیں۔ ججوں کے آئینی اختیارات محدود کیے جارہے تھے اور عدلیہ کی آزادی اور غیر جانب داری داؤ پر لگی ہوئی تھی اور حلف کا اختیار بھی فوجی حکومت نے اپنے پاس رکھا تھا وہ جس جج سے چاہے تو حلف لے اور جس جج سے چاہے تو نہ لے ۔ اعلان کیا گیا کہ اگر نئی فوجی حکومت کسی جج کو حلف کے لیے نہ بلائے یا کوئی جج خود اس پر راضی نہ ہو تو خود بخود وہ جج سبک دوش ہوجائے گا۔
دسمبر 2003 میں پارلیمان نے سترہویں ترمیم منظور کی ،جودراصل جنرل ضیاء الحق کے دور کی آٹھویں ترمیم کا ایکشن ری پلے تھا،مگر 2005 میں نئے چیف جسٹس افتخار چودھری کے آنے کے بعد صورت حال بدل گئی۔ جنرل پرویز مشرف اور افتخار چودھری ایک دوسرے سے ناراض رہنے لگے ۔ 2007 کے آتے آتے باہمی عدم اعتماد اتنا بڑھا کہ جنرل مشرف نے جسٹس چودھری کو برطرف کرنے کی ٹھانی اور ایک ريفرنس ان کے خلاف دائر کرکے انہیں کام کرنے سے روک دیا۔
نومبر 2007 میں جنرل مشرف نے ایک بار پھر ہنگامی حالات کا نفاذ کرکے آئین معطل اور عبوری آئینی کا حکم جاری کردیا، جس کے تحت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو ایک اور نئے حلف کا پابند کیا گیا ۔ اب سو سے زیادہ ججوں نے نیا حلف لینے سے انکار کردیا جس میں جسٹس افتخار چودھری سمیت کوئی درجن بھر سپریم کورٹ کےجج بھی شامل تھے ۔جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے سابق جسٹس ارشاد حسن خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حلف اُٹھایا اور چیف جسٹس بن گئے ۔ انکار کرنے والے جج نظر بند کردیے گئے اور جسٹس چودھری نے نیا حکم جاری کیا جسے جنرل مشرف اور جسٹس ڈوگر نے مسترد کردیا ۔اس ترمیم کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے پہلے ہونے والی کم از کم تین ترامیم کو ذہن میں رکھنا ہوگا جو آٹھویں، تیرھویں اور سترهویں ترامیم تھیں ۔ان کے علاوہ 2006 میں ہونے والے میثاق جمہوریت کو بھی یاد رکھنا ہوگا ،جس نے اٹھارہویں ترمیم کے مسودے کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔
جنرل مشرف نے 1999 سے 2008 تک اپنی نو سالہ حکومت کے دوران میں آئین کے ساتھ خوب کھلواڑ کیا تھا جس طرح اُن سے قبل میجر جنرل اسکندر مرزا،جنرل ایوب خان اور یحییٰ خان سے لے کر جنرل ضیاء الحق تک سب نے کوشش کی کہ صدارتی ویٹو کا استعمال اپنے پاس رکھیں اور وزیراعظم کے ساتھ پارلیمان کو بھی جب چاہیں فارغ کردیں،چاہے وہ 1956 کے آئین کو ختم کرنا ہو یا 1962 کے صدارتی آئین میں تمام اختیارات جنرل ایوب خان کو دینا، جنرل یحییٰ خان کا قانونی ڈھانچے کا حکم نامہ (LFO) یا جنرل ضیاء الحق کی آٹھویں اور جنرل مشرف کی سترهویں ترمیم کا مسلط کیا جانا،سب کا ایک ہی مطمع نظر تھا۔
نواز شريف کی دوسری حکومت نے تیرھویں ترمیم کے ذریعے آٹھویں ترمیم کی بہت سی دفعات بدل دی تھیں اور صدر کے اختیارات بڑی حد تک وزیراعظم کو منتقل کردیے تھے لیکن صرف دو سال کے بعد ہی جنرل مشرف نے تیرھویں ترمیم کے ساتھ خود آئین کو بھی لپیٹ دیا ۔ 2003 میں جنرل مشرف نے لولی لنگڑی پارلیمان کو بھی مجبور کردیا کہ وہ سترهویں ترمیم کے ذریعے تیرھویں ترمیم کو ختم کردے اور پھر 2006 میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے جو جلا وطنی میں بھی مقبول ترین رہ نما تھے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور اسی پر کاربند رہنے کا وعدہ کیا۔
2008 کے آتے آتے بے نظیر بھٹو کو شہید کر کے راستے سے ہٹا دیا گیا تھا اور نئے انتخابات کے بعد جنرل مشرف کو بھی استعفا دینا پڑا تھا ۔ آصف علی زرداری نے صدر بننے کے بعد اعلان کیا کہ وہ سترهویں ترمیم کے خاتمے کے لئے پارلیمانی طریقہ کار اپنائیں گے ۔ 2010 میں پارلیمان نے اٹھارہویں ترمیم منظور کرکے صدر کے یک طرفہ اختیارات ختم کردیے اور اب پارلیمان کو صدرِ پاکستان یا کوئی اور اپنی صوابدید سے برخواست نہیں کرسکتا تھا ۔
نیم صدارتی نظام سے ملک ایک بار پھر پارلیمانی جمہوریت کے راستے پر چل پڑا ۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ہی شمال مغربی سرحدی صوبے کو خیبر پختون خواہ کا نام دیا گیا اور تمام صوبے پہلے سے زیادہ مالیاتی اور قانونی اختیارات کے حامل ہوگئے۔ وہ اختیارات جو پہلے جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل مشرف نے اپنے ہاتھوں میں لیے تھے وہ صدر آصف علی زرداری نے بخوشی وزیراعظم کو منتقل کردیے۔ اس ترمیم نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کم کرنے کی کوشش کی اور اسی کی بدولت جمہوری طور پر منتخب پارلیمان اپنی پانچ پانچ سالہ مدّت مکمل کرسکیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوریت پندرہ سال سے قائم ہے جو جمہوری حکومتوں کا طویل ترین عرصہ ہے۔ یاد رہے کہ ملک میں جمہوریت کا پہلا دور 1947 سے 1958 تک گیارہ سال پر محیط تھا جسے میجر جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے ختم کیا تھا پھر دوسرا جمہوری دور ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پانچ سال چلا جسے جنرل ضیاء الحق نے معطل کیا اور پھر 1988 سے 1999 تک گیارہ سال جمہوریت رہی۔
اٹھارویں ترمیم نے کسی کے دو مرتبہ سے زیادہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ بننے پر پابندی بھی ختم کردی ۔ جنرل مشرف نے یہ پابندی اس لیے لگائی تھی کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا راستہ روکا جا سکے کیوں کہ وہ 1988 سے 1999 تک دو دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکے تھے گو کہ انہیں اپنی مدتِ وزارت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا ۔اب اس تبدیلی کا زیادہ فائدہ نواز شریف کا ہونا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے یہ ممکن بنایا کہ نوازشریف کے راستے میں یہ رکاوٹ نہ ہو اور اسی کی بدولت وہ 2013 میں ایک بار پھر وزیراعظم بن سکے اور یہی جمہوریت کی خوب صورتی ہے کہ ایک سیاسی جماعت دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے رکاوٹیں ہٹائے۔
اٹھارویں ترمیم کے ساتھ آئین کو معطل یا ختم کرنا غداری قرار دیا گیا اور صوبوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے مشترکہ مفادات کونسل (CCI) بنائی گئی جس کا سربراہ وزیراعظم کو مقرر کر کے اس مجلس کا اجلاس نوے دن میں کم از کم ایک بار لازمی قرار دیا گیا۔
اس ترميم نے قومی مالیاتی کمیشن کی بھی تشکیل نو کردی ساتھ ہی ایک آزاد جوڈیشل کمیشن اب اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کا مشورہ دے گا جس پر حتمی فیصلہ ایک پارلیمانی کمیشن کو کرنا تھا ۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کے سربراہ کا انتخاب اب صدر کے بجائے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف مشاورت سے کریں گے۔
اٹھارویں ترمیم کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ بھی تشکیل دیا گیا۔ تربت اور مینگورہ میں ہائی کورٹ کی بینچیں بنائی گئیں ۔ پہلی مرتبہ آئین میں بچوں کی تعلیم پر حق کو تسلیم کیا گیا اور دفعہ 25A کے تحت ریاست کو ذمہ دار قرار دیا گیا کہ وہ سولہ سال کی عمر تک کے تمام بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم دے۔
اٹھارویں ترمیم نے ایک درجن سے زیادہ وزارتوں کو صوبوں کے حوالے کردیا، جن میں تعلیم، صحت، ثقافت، لیبر، افرادی قوت، مقامی حکومتیں، دیہی ترقی، اقلیتی امور، آبادی اور سماجی بہبود، کھیل، سیاحت، ترقی نسواں، حقوقِ نوجوانان اور زکوۃ و عشر وغيره کی وزارتیں شامل تھیں ۔اسی ترمیم کے ذریعے سیاسی نظام میں شفافیت لانے کی کوشش کی گئی اور ذاتی صوابدید کو محدود کردیا گیا جس سے پارلیمان اور صوبوں کو تقویت ملی ۔ اٹھارہویں ترمیم نے آئین کے تقریباً ایک تہائی حصّے کو تبدیل کیا جس کے دوررس قانونی اور علامتی اثرات ہوئے ۔ اس کے ذریعے صدر یا وزیر اعظم کے ہاتھوں میں بے پناہ اختیارات دینے سے گریز کیا گیا جو اس سے قبل ہوتا رہا تھا۔
اب پارلیمان کو کمزور کرنا یا عدلیہ کو جھکانا مشکل تھا جس کی کوشش عمران خان کرتے رہے مگر ناکام ہوئے ۔ اسی طرح شہری حقوق اور سیاسی آزادیوں کو کم کرنا بھی مشکل ہوگیا ۔ سیاسی مخالفین کو ھدف بنانا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنا بھی مشکل ضرور ہوا۔
اس ترمیم کی تیاری میں ایک ستائیس رکنی مجلس نے رضا ربانی کی قیادت میں شان دار کام کیا۔ اس مجلس کے ارکان نے آزادانہ طور پر کام کیا اور اپنی آئینی اور سیاسی مہارتوں کو کار آمد بنایا ۔ مجلس نے کل 77 اجلاس کیے اور آئین کی تمام دفعات کا جائزہ لے کر 102 دفعات میں رد وبدل کیا ۔ یہ ترميم آئين کی پچاس سالہ تاریخ میں سب سے مثبت ترمیم ہے جسے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔اس ترمیم نے عوام کے بنیادی حقوق میں اضافے کیے، جیسے دفعہ 10A کے تحت شفاف مقدمے کا حق، دفعہ 19A کے تحت معلومات تک رسائی کا حق، دفعہ 25A کے تحت تعلیم کا حق آئینی طور پر دیا گیا ۔
مرکز اور صوبوں کے تعلقات بھی بہتر بنائے گئے اور ریاست کے ساتھ وفاقی اکائیوں کے اختیارات میں توازن پیدا کیا گیا ۔ اس ترمیم کے تحت کنکریٹ یا متوازی فہرست ختم کی گئی اور صوبوں کے انتظامی یا قانونی اختیارات بڑھائے گئے اور چالیس سے زیادہ شعبوں میں صوبے خود مختار ہوگئے ۔ نئی ذمہ داریوں کے لیے صوبوں کے مالیاتی وسائل میں اضافہ کیا گیا۔
لیکن یہ ضرور کہنا پڑے گا کہ صوبوں نے ضلعوں کی سطح پر اختیارات کی منتقلی پر عمل نہیں کیا ۔ دفعہ 140A کے تحت مقامی حکومتوں کے قیام کی کوشش نہیں کی بل کہ اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں۔
انیس تا چھبیس ترمیم
آئین کی انیسویں ترمیم دسمبر 2010 میں منظور کی گئی جس کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی گئی اور فاٹا یعنی وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں اضافہ کیا گیا۔
اس ترمیم کے تحت انتخابات کے لیے نگران حکومت کے قیام کا طریقہ واضح کیا گیا یہ ترمیم 2012 میں منظور ہوئی۔
٭اکیسویں ترمیم کے تحت سرسری سماعت کی فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ ان کی مدت 2015 سے 2017 تک ہونا تھی۔
٭بائیسویں ترمیم 2016 میں منظور کی گئی جس کے تحت الیکشن کمیشن میں ججوں کے علاوہ افسر شاہی کے سبک دوش ارکان کو بھی رکن بنایا جاسکتا تھا ۔
٭تئیسویں ترمیم کے تحت 2017 میں فوجی عدالتوں کے خاتمے کے بجائے ان کی مدت میں مزید دو سال کا اضافہ کردیا گیا ۔
٭چوبیسویں ترمیم دسمبر 2017 میں منظور ہوئی جس کے تحت 2017 کی مردم شماری کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں میں ردوبدل کیا گیا ۔
٭پچیسویں ترمیم 2018 میں لائی گئی جس میں فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
٭چھبیسویں ترمیم 2019 میں آئی جس کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ قبائلی علاقوں کی نشستیں قومی اسمبلی میں بارہ ہوں گی جب کہ صوبائی اسمبلی میں 16 سے بڑھا کر 24 کردی جائیں گی۔