• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین 1973کی (50سالہ) گولڈن جوبلی بھی پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی (75) سال کی طرح افراتفری ۔ طوائف الملوکی کی نذر ہورہی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اسی منانے پر مصر ہے کہ اس کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دَور حکومت میں یہ آئین منظور ہوا۔ ان دنوں بھی سیاسی محاذ آرائی اسی طرح زوروں پر تھی۔ حکمران اور اپوزیشن لیڈر۔ اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونتے کھڑے تھے۔ گرفتاریاں ۔ سزائیں اسی طرح ہورہی تھیں تاریخ یقینا اس وفاقی آئین کی منظوری کا سہرا شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہی باندھے گی۔ بہت مشکل تھا سارے سیاسی سربراہوں میں اتفاق رائے ہونا۔ لیکن آفریں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پر عوامی نیشنل پارٹی پر۔ 

جمعیت علمائے اسلام پر جمعیت علمائے پاکستان پر کہ انہوں نے ایک سر زمین بے آئین کے لیے ایک آئین کی تشکیل کو بنیادی ضرورت سمجھا۔ اور اس کی تشکیل کی رپورٹ 8ماہ میں جاری ہوگئی۔ اگر چہ اس دوڑ میں ملک دو لخت ہوگیا۔ ہمارا اکثریتی بازو ہمارے مشرقی پاکستانی بھائی ہم سے الگ ہوگئے۔ اگر قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمارے قائدین۔ بانیان پاکستان نے سب کو منظور سب کے لیے قابل قبول آئین بنالیا ہوتا ۔ اور اس آئین پر مملکت کے سب ادارے عمل کررہے ہوتے تو مشرقی پاکستان کو بھی کوئی گلہ نہ ہوتا۔ 75 سال بعد بھی ڈھاکا۔ اپنی امیدوں امنگوں کے ساتھ چٹا گانگ کی بندرگاہ اپنی کیٹیوں۔ برتھوں سمیت سلہٹ اپنے چائے کے باغات دامن میں لیے۔ پاکستان کا حصّہ ہی ہوتے۔ مسلم بنگالی کا سنہرا ریشہ۔ بنگال کا جادو۔ راجشاہی۔ نرائن گنج۔ نواکھالی کھلنا۔ جیسور کی زلفیں پاکستان میں ہی ہوتیں۔

خبر نہیں کہ اس خسارے کا احساس پاکستان کے 22 کروڑ میں سے کتنوں کو ہے نئی نسلیں سمجھتی ہیں کہ پاکستان واہگہ سے گوادر تک ہی آزاد ہوا تھا۔ لیکن عملی طور پر تو یہ بھی آزاد نہیں ہے۔ مافیائوں۔ سرداروں۔ مقتدروں۔ جاگیرداروں۔ ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے۔ مشرقی پاکستان نے شروع میں ہی زمینداریاں ختم کرلی تھیں۔ وہاں ایک فرد ایک ووٹ حقیقی طور پر میسر تھا۔ مشرقی پاکستانی بھائی ۔سیاستدان۔ طالب علم۔ اساتذہ۔ وکلا۔ علماء انسانیت کی سربلندی کے قائل تھے۔ الیکشن سے گھبراتے نہیں تھے۔ اپنے حقوق کے حصول کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کو تیار رہتے تھے۔ ایوب خان کے دَور کی قومی اسمبلی اسلام آباد اس سے پہلے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کراچی میں ان کی تقریریں۔ روشن صبح آزادی کی دلیلیں ہوتی تھیں۔

1973کا آئین نئے اور چھوٹے پاکستان کے عوام اور ریاست کے درمیان عمرانی معاہدہ ہے۔ اس کے لیے بھی جتنی قربانیاں دی گئیں۔ جتنا خون بہا ۔ اور بنانے والوں کی نیت جتنی نیک اور صاف تھی۔ اس لیے یہ 50سال سے اپنے وجود کو بھی زخمی صورت میں۔ کبھی سرد خانے میں ۔ کبھی رخصت پر۔ بچائے ہوئے ہے ۔ آج کل بھی یہ طالع آزمائوں کے وار سہہ رہا ہے۔ سپریم کورٹ اپنی سر توڑ کوششیں کررہی ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو۔ آئین کی پاسداری ہو۔ وہی حکمراں جو اس کی حفاظت کا حلف اٹھاتے ہیں۔ عہد کرتے ہیں۔ وہی اس کو اپنے مفادات کے لیے توڑ مروڑ کررہے ہیں۔ 

اپنے ہی بیانات کے بر عکس بیانیے تراش رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی عظیم مملکت عطا کی ہے۔ دو لخت ہونے کے بعد بھی اس میں اتنی سکت ہے کہ 22کروڑ زندگیوں کی ضروریات پوری کررہی ہے۔ یہ آئین 1973ہی ہے ۔جو سب سے بڑے رقبے والے صوبے بلوچستان کے حقوق کی ضمانت دے رہا ہے۔ جو کے پی کے(سرحد) کے زخم مندمل کرنے کی یقین دہانی ہے۔ جو سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں کے مکینوں کے حق رائے دہی کا محافظ ہے۔ جو پنجاب کے وسائل کے تحفظ کی گارنٹی دیتا ہے۔

ہم پاکستان کے عوام بجا طور پر اس آئین کی گولڈن جوبلی منانے کا حق رکھتے ہیں۔ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کو ہی نہیں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ان تقریبات میں شریک ہونا چاہئے۔ کہ یہ آئین سب کے لیے ایک سپر ہے۔ یہ دستور سب کی جان و مال کی حفاظت کی راہ ہموارکرتا ہے۔ مملکت پاکستان کی حدود میں رہنے والے۔ پیدا ہونے والے ہر فرد کے روزگار کی ضمانت دیتا ہے۔

یہ آئین ہمیں آئینہ بھی دکھاتا ہے کہ ہم نے اس آئین بنانے والے کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ایک ریاست کو متفقہ اور منظور شدہ آئین دینے والا کیا تختۂ دار پر لٹکائے جانے کا حقدار تھا۔ اس آئین کے تحت بڑے بڑے عہدوں پر متمکن رہنے والوں کا کیا فرض نہیں بنتا کہ وہ گڑھی خدا بخش بھٹو میں اس شہید کی قبر پر حاضری دیں۔ عدالتی قتل تو یہ تھا ہی لیکن اس وقت جس جس کی حکومت تھی۔ اور جو جو کابینہ کا رکن تھا۔ وہ بھی اس عدالتی قتل میں اعانت کے جرم کا ارتکاب کررہا تھا۔ اپنی سفاکی پر اور اس عظیم شخصیت کے ساتھ اس بے رحمی پر ندامت کے آنسو تو بہانے چاہئیں۔ شاید اسی سے ہمارے ملک پر منڈلاتے آسیب کے سائے رخصت ہوسکیں۔

1970 کیقومی اسمبلی کے انتخابات میں بے مثال فتح کے بعد اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے کچھ پہلے ہم لاڑکانہ سے روانہ ہورہے ہیں۔ گاڑی بیرسٹر کمال اظفر کی ہے۔ امان اللہ چلارہے ہیں۔ بھٹو صاحب اگلی سیٹ پر بیٹھے ہیں۔ پیچھے میں۔ کمال اظفر اور سردار پیر بخش بھٹو ہیں۔ مجھے 1970 کے انتخابات کے فوراً بعد بھٹو صاحب کا پہلا انٹرویو کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ کسی صحافی کے لیے یہ بڑا اعزاز ہوتا ہے۔ مجھے یہ راستے۔ نہر کنارے۔ درخت یوں یاد آرہے ہیں کہ آئین 1973 جس کی ہم 50ویں سالگرہ منارہے ہیں۔ اس کا خاکہ لاڑکانہ رائس کنال سے سکھر جاتے ہوئے ہی نقش ہورہا ہے۔

1970کے انتخابات کے نتیجے میں جنم لینے والی قومی اسمبلی بنیادی طور پر دستور ساز اسمبلی ہی تھی کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر مملکت جنرل محمد یحییٰ خان نے فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کا 1962کا آئین منسوخ کردیا تھا۔ ملک اب ایک Legal Frame Work Order ( قانونی ڈھانچے) کے تحت چل رہا تھا۔ اسی ایل ایف او کے تحت قومی اسمبلی کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ 120 دنوں میں ایک متفقہ آئین بناکر پیش کرے۔ ایسا نہ کرسکنے کی صورت میں یہ اسمبلی توڑ دی جائے گی۔ پھر الیکشن ہوں گے۔

گاڑی بہت تیز چل رہی ہے۔ میرے لکھے لفظ ٹیڑھے میڑھے ہورہے ہیں۔ رائس کینال کی پٹڑی کے دونوں طرف مظلوم ہاری ہاتھ ہلارہے ہیں۔ جن کے چہروں پر صدیوں کی ظلم کی کہانیاں نقش ہیں۔

’جئے بھٹؤ۔ سدا جئے‘ کی آوازیں آرہی ہیں۔ 1973 کے آئین بننے سے 3سال پہلے میں اسی آئین کے بانی سے سوال کررہا ہوں ’’ کیا آئین بنانے میں شیخ مجیب الرحمن کو آپ کا تعاون درکار ہوگا۔ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مجیب صاحب اتنی اکثریت کے ساتھ آئے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کا آئین مسلط کرسکتے ہیں۔‘‘

بھٹو صاحب جواب میں کہہ رہے ہیں کہ ’’میں عوام سے یہی درخواست کروں گا کہ انہیں غیر ضروری طور پر گھبرانے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تو بالکل بے سرو سامانی کی کیفیت میں عوام کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ اب تو ہمارے پاس عوام کے اعتماد کا ووٹ ہے۔ میں یہ واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے نمائندے کسی ایسے آئین کو ملک پر مسلط نہیں ہونے دیں گے جو تمام علاقوں اور تمام عوام کے حقوق کا محافظ نہیں ہوگا۔ ہم انتخابات سے پہلے بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی منظوری کے بغیر کوئی آئین نافذ نہیں کیا جاسکے گا۔ اب ہم زیادہ اعتماد کے ساتھ یہی بات دہراسکتے ہیں کیونکہ اب ہمارے پاس عوامی اعتماد کا قانونی سر ٹیفکیٹ بھی موجود ہے۔‘‘

آئین کی منظوری کے سیاسی قائدین
آئین کی منظوری کے سیاسی قائدین 

میں پوچھ رہا ہوں کہ ’’کیا پیپلز پارٹی نے پہلے سے کوئی ایسا آئینی خاکہ بنارکھا ہے جسے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔‘‘

بھٹو صاحب جواب دے رہے ہیں کہ ’’ نہیں ایسا تو نہیں ہے۔ البتہ ہماری پارٹی کے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم صاحب نے ایک خاکہ تیار کیا تھا اسے ہم اگر چہ پارٹی ڈاکومنٹ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن وہ ہمارے سیکرٹری جنرل کے خیالات ہیں۔ اس لیے بہت اہم ہیں۔ اسے میں سوچنے کے لیے مواد کہہ سکتا ہوں۔ اس کی بنیاد ہماری پارٹی کے بنیادی نظریات پر ہے۔ اور میں پھر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے آج سے تین سال پیشتر جو پارٹی منشور دیا تھا۔ وہ ہمارے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارا ہر قدم اس کی روشنی میں اٹھے گا۔ لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے عوام سے جتنے وعدے بھی کیے ہیں۔ ہم انہیں پورا کرکے دکھائیں گے۔ اور جب ہم نے پارٹی کے منشور کو عملی جامہ پہنادیا۔ وہی ہماری مکمل فتح ہوگی۔‘‘

پھر ہم نے آئین کے ڈھانچے کے حوالے سے ایک خدشے کا اظہار کیا۔ کہ’’ مجیب صاحب جس بھاری اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی میں آرہے ہیں۔ اس سے مغربی پاکستان کے صوبوں کے حقوق پر زد تو نہیں پڑے گی آپ دو ایوانی مقننہ کو ترجیح دیں گے یا ایک ایوانی کو۔‘‘

ان کا جواب تھا کہ ‘‘اگر ہم وفاقی دستور چاہتے ہیں تو دو ایوانی مقننہ کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ کوئی وفاقی دستور بھی اس کے بغیر نہیں چل سکا ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں بعض علاقوں کے حقوق پر زد پڑے گی۔ ہم اس بات کا تہیہ کرچکے ہیں کہ کسی بھی علاقے کے عوام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میں اس بات کی ذمہ داری قبول کرچکا ہوں اور اب بھی اس بات کو پوری ذمہ داری سے نبھائوں گا کہ وفاقی دستور کے لیے دو ایوانی مقننہ قائم ہو۔‘‘

اس لمحے بیرسٹر کمال اظفر یہ تجویز کرتے ہیں کہ تمام علاقوں کی نمائندگی اور خود مختاری کے لیے بھی دو ایوان ہونا ضروری ہیں تاکہ آبادی کی بنیاد پر بھی نیابت ہوسکے اور یونٹوں کی بنیاد پر بھی۔‘‘

بھٹو صاحب نے کمال اظفر کے اس اصول کی تائید کی۔

انٹرویو میں اس وقت دوسرے امور پر بھی سوالات تھے۔ لیکن ہم یہاں اپنی گفتگو صرف آئین کی تشکیل تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔

آج 50 سال بعد جس آئین کے تحت سارے ادارے قائم ہیں۔ اور جس آئین کے تحت وفاقی صوبائی حکومتیں۔ ریاست کے سارے ستون۔ عدلیہ۔ فوج۔ حلف اٹھاتے ہیں۔ اور جس آئین کی ہم گولڈن جوبلی منارہے ہیں۔ جو آئین جنرل ضیاء الحق کے قاتلانہ حملے برداشت کرچکا۔ انتہائی سفاک مارشل لاء کے قواعد و ضوابط ۔ حکمناموں کے کوڑے سہہ سکا اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کی کارروائیاں دیکھ چکا۔ آج کل وہ جن چارہ جوئیوں۔ موشگافیوں اور طالع آزمائیوں کا سامنا کررہا ہے آج کی نئی نسل کو علم ہونا چاہئے کہ اس آئین کی تشکیل کن کن سخت مراحل سے گزر کر ہوئی ہے۔

بھٹو صاحب اس آئین پر گفتگو کے لیے جب جنوری 1971 میں شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات کے لے ڈھاکہ جاتے ہیں۔ مجھے بھی ایک صحافی کی حیثیت سے شرکت کا موقع ملتا ہے۔ دونوں کے سروں پر 120دن کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس لیے بھٹو صاحب کی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ آئین کے بنیادی نکات پر قومی اسمبلی کے باہر کوئی سمجھوتہ ہوجائے تاکہ اسمبلی کے اجلاس میں آئین سازی میں مشکلات نہ ہوں اور اسمبلی ٹوڑے جانے کی نوبت نہ آئے۔

دونوں طرف سے مخلصانہ کوششیں ہوتی ہیں۔ پی پی پی قیادت نے مشرقی پاکستان کے عوامی مسائل اور مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے چھ نکات کا جائزہ لے کر 1۔ پاکستان کی سلامتی۔2۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے عوام کے مفادات۔3۔ دونوں اکثریتی پارٹیوں کے بنیادی اصولوں کی روشنی میںچند ایسے نکات تیار کیے تھے جن میں سے بعض پر آسانی سے مفاہمت ہوسکتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے ماہرین کی ٹیم۔ شیخ محمد رشید۔ حنیف رامے۔ حفیظ پیرزادہ۔ اور رفیع رضا پر مشتمل تھی ۔ عوامی لیگ کی طرف سے سید نذر الاسلام۔ خوندکر مشتاق۔ کیپٹن منصور علی۔ قمر الزماں تاج الدین اور ڈاکٹر کمال حسین مذکرات میں شریک ہوتے رہے۔ سوشلزم۔ نیشنلائزیشن۔ صوبائی خود مختاری پر باتیں ہوتی رہیں۔ بھٹو۔ مجیب ملاقاتیں انٹر کانٹی نینٹل کے کمرہ 1134میں ہوئیں۔ اور دھان منڈی میں شیخ صاحب کی رہائش گاہ پر۔ عوامی لیگ اپنے چھ نکات کو مشرقی پاکستان کے عوام کا مینڈیٹ قرار دے رہی ہے کہ یہ ان کی امانت ہیں۔ ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے مستقبل پر ہر حوالے سے کھل کر باتیں ہوئی ہیں۔ کسی ملاقات کے بعد ہنستے مسکراتے چہرے۔ اور کسی کے بعد مایوسی۔

دھان منڈی کے باہر اور ہوٹل کے باہر جمع ہونے والے مشرقی پاکستانی بھائی ایک پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ دل سے آرزو ہے کہ دونوں لیڈروں میں اتفاق ہوجائے۔ مجھے وہ کشتی بھی یاد آرہی ہے جس پر مغربی پاکستان کے نمائندے اور مشرقی پاکستان کے نمائندے آئین کے نکات پر بات کرتے ہیں۔ تفریح کی تفریح مذاکرات کے مذاکرات۔ لیکن افسوس کہ مقتدر طبقوں۔ مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بار بار مداخلت کے نتیجے میں دونوں پارٹیوں میں سمجھوتہ نہ ہوسکا۔ بلکہ شدید مخالفت ہونے لگی پھر قومی اسمبلی کے اجلاس کے التوا نے تو ساری بازی ہی پلٹ دی۔

سیاسی کوششیں بے سود رہیں۔ 25مارچ 1971 سے جاری فوجی ایکشن نے تو رہی سہی امیدیں بھی ختم کردیں۔ بھارت تو برسوں سے اس موقع کی تاڑ میں تھا۔ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے ایک عظیم المیے کا حصّہ ہے۔

جس روز ڈھاکہ میں مقامی کمانڈروں کے درمیان سمجھوتے کے تحت بھارتی فوج ڈھاکا میں اتر گئی تھی۔ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس رو زپریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کراچی کے ایک آفیسر ایڈیٹروں سے کہہ رہے تھے کہ آج صدر یحییٰ خان نئے آئین کا اعلان کریں گے۔ اس کے لیے تیار رہئے گا۔

آئین1973 سے پہلے ایک اور آئینی مسودے کی بات بھی ہوتی ہے۔ لیکن صدر یحییٰ کی ہدایت پر بعض ماہرین کی طرف سے تشکیل کیا گیاآئین تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔

سر زمین بے آئین پر قانونی صورت حال یہ ہوئی کہ ملک چونکہ ایل ایف او کے تحت چل رہاتھا۔ اس لیے باقی ماندہ پاکستان کے دو صوبوں سے اکثریتی پارٹی کے سربراہ کو ایک چارٹرڈ جہاز بھیج کر اسلام آباد لایا جاتا ہے اور ملک اس کے ایسے حوالے کیاجاتا ہے کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی ایک سویلین کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ پارٹی کے ماہرین قانون۔ فوج کے ماہرین قانون کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ کیونکہ ملک کسی آئین کے تحت نہیں چل رہا تھا۔

20 دسمبر 1971 سے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا دَور شروع ہوتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ ملک میں نئے انتخابات کا انعقاد ہوتا۔ اس کے تحت دستور سازی ہوتی۔ لیکن ملک میں جس قسم کی مایوسی تھی اس کے پیش نظر اس نا مکمل قومی اسمبلی کو دستور ساز اسمبلی کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔

حکمران پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان آئین سازی کے لیے مذاکرات چلتے رہتے ہیں۔ ملک کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔ 90ہزار فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کی خلش۔ بنگلہ دیش کو اکثر ممالک تسلیم کررہے ہیں۔ پاکستان ان سے سفارتی تعلقات توڑ رہا ہے۔ چین اسلامی ممالک کے دورے۔

دنیا بھر میں مسلمہ ماہر قانون میاں محمود علی قصوری وزیر قانون و پارلیمانی امور ہیں۔ ان کی سربراہی میں آئین سازی کے لیے ایک 25 رکنی کمیٹی قائم کی جاتی ہے۔ جن میں مجھے عبدالحفیظ پیرزادہ۔ بیگم اشرف عباسی کے نام یاد آرہے ہیں۔ اپوزیشن سے پروفیسر غفور احمد۔ مولانا شاہ احمد نورانی۔ سردار شیر باز مزاری۔ سید قائم علی شاہ۔ ان میں سے اب صرف سید قائم علی شاہ حیات ہیں۔

اپوزیشن اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی بھی جاری رہتی ہے۔ لیکن آئین سازی کے معاملات میں پیش رفت ہوتی رہتی ہے۔ پہلے تو آپس میں یہ طے ہوتا ہے کہ مارشل لاء اٹھایا جائے۔ ابھی ملک 1935کے ایکٹ کے تحت چل رہا ہے۔ اس کے لیے ایک عبوری آئین پر بڑی مشکل سے سمجھوتہ ہوتا ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد مارشل لاء اٹھالیا جائے۔ پھر مستقل آئین کی تشکیل اور منظوری کے بعد ملک کو پارلیمانی نظام کے تحت چلایا جائے گا۔

14اپریل 1972 وہ تاریخی دن ہے ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پہلی حقیقی معنوں میں منتخب نمائندہ قومی اسمبلی کا صدر منتخب کیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب اس اسمبلی کے اجلاس سے طویل خطاب کرتے ہیں۔ جس میں برصغیر کی آزادی تحریکوں کا بھی ذکر ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’شیخ مجیب الرحمن کی کامیابی کی کہانی۔ ہماری ناکامی کی کہانی ہے۔‘‘

ذوالفقار علی بھٹو محمود شام سے گفتگو کرتے ہوئے
ذوالفقار علی بھٹو محمود شام سے گفتگو کرتے ہوئے 

مجھے ریس کورس گرائونڈ کی تقریب بھی یاد آتی ہے۔ جب صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عہدے کا حلف عبوری آئین کے تحت عوامی میدان میں لیا۔

14اپریل 1972کی قومی اسمبلی میں صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی قریبا50صفحات کی تقریر آج کے پاکستانیوں کو بھی غور سے پڑھنی چاہئے کہ اس میں وہ اسباب تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں جن کی بدولت پاکستان وجود میں آیا۔ اور وہ وجوہات اور عوامل بھی جن کے تحت مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔ صدر ایوب اور صدر یحییٰ کے مارشل لائوں نے پاکستان کو کن خوفناک مسائل سے دوچار کیا۔

صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو قومی اسمبلی کے ایوان کو اس کی تاریخی قومی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہیں کہ ملک کی بقا اس ایوان کی کامیابی پر منحصر ہے۔ پہلے ہمیں ایک عبوری آئین دینا ہے پھر مستقل آئین کے لیے کوششیں کرنا ہیں۔ بہت واضح انداز میں کہا کہ ہمارا فوری فریضہ ایک عبوری آئین کی تخلیق ہے۔ پھر جب اس ایوان کا اجلاس 14اگست 1972کو منعقد ہوگا تو اس سے پہلے آئینی کمیٹی یکم اگست کو آئین کا مسودہ پیش کرچکی ہوگی۔ مجھے شکریہ ادا کرنا ہے ان 100ارکان اسمبلی کا جنہوں نے 14اگست 1972تک مارشل لاء جاری رکھنے کی منظوری دی تھی۔ 

جن میں دوسری پارٹیوں کے ارکان بھی شامل تھے۔ یہ میرا وعدہ تھا۔ اب میں عہد کرتا ہوں کہ اگر یہ ایوان۔ 17اپریل 1972کو عبوری آئین منظور کرلیتا ہے تو 14اگست 1972 کی بجائے 21اپریل 1972کو مارشل لاء اٹھالیا جائے گا۔صدر مملکت نے یہ وعدہ پورا بھی کیا۔ 17اکتوبر 1972کو ایک آئینی معاہدے کی خبر بھی آتی ہے۔ اس آئینی سمجھوتے پر دستخط ہونے کے بعد صدر بھٹو 20اکتوبر 1972 کو قوم کے نام پیغام میں کہتے ہیں۔

’’میں پاکستان کے عوام کو مبارکباد دیتا ہوں کہ 25سال کے بعد ہم عوام کے جمہوری آئین کے اصولوں پر تصفیے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہم اپنے عہد کی تکمیل کررہے ہیں۔ ہم اپنی پوری جدو جہد کے دوران ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے دعوے کرتے رہے ہیں۔ میں تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے رفقائے کار کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مذاکرات میں بھرپور شرکت کی۔ ان سب کی گرانقدر رائے سے ہی ہم اس تسلی بخش تصفیے تک پہنچے ہیں۔ ہر ایک کا کردار لائق تحسین ہے۔ میں ان سب کا ممنون ہوں۔‘‘

اس آئینی سمجھوتے نے ہی 1973کے آئین کی تشکیل اور نفاذ کو یقینی بنایا۔ اسی اثنا میں 9اکتوبر 1972کو بعض وجوہ کی بنا پر وزیر قانون میاں محمود علی قصوری نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کا استعفیٰ منظور کرتے ہوئے صدر بھٹو نے افسوس کا اظہار بھی کیا ۔ ان کی جگہ کمیٹی کی سربراہی عبدالحفیظ پیرزادہ نے سنبھالی۔ اور انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ قوم ایک متفقہ آئین کے سائبان تلے آگئی۔

یہ آئین قومی اسمبلی پاکستان نے 10اپریل 1973کو منظور کیا۔ اور قومی اسمبلی کے صدر نے 12اپریل 1973کو اسکی توثیق کی۔ میرے پاس اس آئین کی ایک تاریخی جلد محفوظ ہے جو اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان نے اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے دی تھی۔ اس کے صفحہ3پر مشرقی پاکستان کے بارے میں لکھا گیا ہے۔

(3) مشرقی پاکستان سے جب غیر ملکی جارحیت اور اس کے اثرات کا خاتمہ ہوگا تو مشرقی پاکستان کے عوام کی وفاق کے امور میں نمائندگی کے لیے آئین میں باضابطہ ترمیم کی جائے گی۔مگر وہ وقت کبھی نہ آسکا۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے اپنا الگ راستہ چُن لیا۔ وہ بنگلہ دیش بن گئے۔ انہوں نے نئے انتخابات کرائے اور نیا آئین منظور کیا۔ وہ ہم سے بہتر حالات میں ہیں۔

12اپریل 1973پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک روشن اور چمکتا ہوا دن کہلائے گا کہ پاکستان کے عوام نے پہلی بار ایک متفقہ آئین ایک منتخب قومی اسمبلی میں طویل بحث مباحثے کے بعد منظور کیا۔ جس میں حکمران اور اپوزیشن پارٹیوں دونوں نے بہت اہم اور مثبت کردار ادا کیا۔

14اگست 1973 سے پاکستان میں اس آئین کا باضابطہ نفاذ ہوا۔ صدارتی نظام کی جگہ پارلیمانی نظام نے لے لی۔ صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ اور قوم سے ٹیلی وژن اور ریڈیو سے خطاب کیا۔ ان کے ابتدائی جملے:

’’میرے ہم وطنو۔ بھائیو بہنو السلام علیکم

20ماہ تک آپ کی بطور صدر خدمات انجام دینے کے بعد میں آپ سے پہلے منتخب وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے خطاب کا شرف حاصل کررہا ہوں۔ میں صرف پاکستان کے عوام سے بالعموم نہیں بلکہ پاکستان کے تمام طبقات تمام پارٹیوں اور گروپوں کے ارکان سے مخاطب ہوں۔ میں بلوچوں۔ پنجابیوں۔ پٹھانوں۔ سندھیوں اور اپنے مہاجر بھائیوں سے ہم کلام ہوں۔ میں کسانوں۔ مزدوروں۔ طاب علموں۔ اساتذہ۔ صحافیوں۔ سرکاری ملازمین۔ آجروں اور کارکنوں بزرگوں اور جوانوں سے ہم سخن ہوں۔ آپ ہی یہ عظیم مملکت ہیں۔ آج سب کے لیے ایک تاریخی دن ہے۔ ہم آج بالآخر تمام محلاتی سازشوں۔ فوجی بغاوتوں کو الوداع کہہ رہے ہیں جنہوں نے دو دہائیوں سے ہمارے ملک کو برباد کر رکھا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہم اس انتقامی زہر۔ اور تشدد کو بھی الوداع کہیں گے جس نے ہماری سیاست کو آلودہ کر رکھا ہے۔

تمام پارٹیوں کی متفقہ رضا مندی سے ایک آئین کو نافذ کرکے ہم اپنے اپ کو ایک خاص سیاسی زندگی میں ڈھال رہے ہیں۔ اب فیصلے اتفاق رائے سے یا اکثریت کی مرضی سے کیے جائیں گے۔‘‘

خطاب کے آخر میں ان کے یہ االفاظ ہیں:

’’گزشتہ بیس ماہ سے جب سے پی پی پی نے حکومت تشکیل دی ہے۔ میرے ذہن میں بہت سے خیالات موجزن ہیں، جو ہم کرسکے اور جو ہم نہیں کرسکے۔ لیکن عوام نے جس طرح ہمیں تعاون بخشا ہے۔ یہ خیال سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ عوام کی حمایت میرا واحد ہتھیار ہے۔ میری آخری ڈھال ۔ میں دل کی گہرائی سے عوام کا ممنون ہوں۔ میری اللہ تعالیٰ سے یہی التجا ہے کہ ہمیں اس صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے جہاں وہ اپنی نعمتیں نازل کرتا ہے۔‘‘

14اگست 1973پاکستان کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔

لیکن پاکستان پر جن حکمران طبقوں اور مقتدر طاقتوں کی گرفت ہے۔ ان کے لیے آئین قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آئین ہونے کے باوجود اس ملک میں طاقت ور اپنا قانون چلاتے ہیں۔ یہ طبقے اپنے ذاتی فیصلوں۔ اپنے منہ سے نکلے الفاظ کو آئین اور ہر قانون سے برتر سمجھتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلے ۔ آئین کی شقیں ان کی طالع آزمائی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔

آئین کے اطلاق کے لیے پارلیمنٹ سب سے بالادست ادارہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں پارلیمنٹ میںجو لوگ پہنچ سکتے ہیں۔ انہیں انتخابی Electable کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک پارٹی ڈسپلن کی کوئی حیثیت ہے نہ پارلیمنٹ میں مدلل بحث کی۔ اچانک قوانین منظور کرلیے جاتے ہیں۔ کوئی بحث نہیں ہوتی۔ کوئی دلائل نہیں دیے جاتے۔ اس لیے پارلیمنٹ اپنی قدر پاکستانی کرنسی کی طرح کھوتی جارہی ہے۔

سیاستدان اپنے معاملات خود نہیں سنبھالتے۔ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔ وہاں سے فیصلے جس کے حق میں ہوں۔ وہ آئین کی فتح قرار دیتا ہے۔ جس کے خلاف ہوں وہ اسے مسترد کردیتا ہے۔

اب جب آئین 1973 ۔ پچاس سال کا ہورہا ہے۔ تو وہ یقینا اپنا سر گھٹنوں میں دے کر اپنے بانی کے آخری لمحوں پر آنسو بہاتے ہیں اور جن کی بالادستی کے لیے آئین بنایا گیا ۔ ان کی زبوں حالی۔ بے بسی اور نارسائی پر دل گرفتہ رہتا ہے۔