(گزشتہ سےپیوستہ)
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ ہماری بہت خواہش تھی کہ ہم اس حویلی کے شاہی حمام یا حمام خانہ اور تہہ خانہ دیکھیں۔ چنانچہ کافی کوشش کے بعد ہم پچھلے اتوار کو کوئی پانچویں مرتبہ اس حویلی میں جا پہنچے اور حمام خانہ، تہہ خانہ اور پھر اس حویلی کی چھت پربھی گئے۔ یقین کریںآج بھی چار سو برس گزرنے کے باوجود اس حویلی میں دم خم ہے۔ اس کو اگرمحفوظ نہ کیا گیا تو اگلے دس برس میں یقیناً اس حویلی کی کئی دیواریں اور عمارت میں دراڑیں پڑ جائیں گی اور یہ زمین بوس ہو جائے گی۔ پرانے لاہور کی فضا میں دھواں، مٹی اور گردو غبار نہیں تھا آج اندرون لاہور کی کوئی گلی ایسی نہیں ہے جہاں منی ٹرک، لوڈر رکشا اور بڑے ٹرک سامان لے کر نہ آ رہے ہوں۔ پتہ نہیں کس قانون کے تحت کئی منزلہ پلازے بن رہے ہیں۔ اگرکبھی خدا نہ کرے یہاں آگ لگ گئی تو کوئی نہیں بچ پائے گا۔ آج پیسہ کمانے کے چکر میں اور رشوت دے کر دھڑا دھڑقدیم مکانات اورحویلیاں گرائی جا رہی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب کوئی قدیم مکان نہ گرایا جا رہا ہو۔ اب لاہور کے تیرہ دروازوں کے اندر جو قدیم خوبصورت مکانات اور حویلیاں رہ گئی ہیں آپ ان کو انگلیوں پر گن سکتےہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ بھاٹی گیٹ کے اندر کئی مکانوں کے دروازے اور روشن دان رنگ برنگ کے چھوٹے چھوٹے شیشوں کے تھے۔ جن سے جب بلب کی روشنی باہر آتی تھی تو کیا خوبصورت سماں ہوتا تھا۔ اب صرف بلاقی شاہ کی حویلی میں ایسے دروازےہیں جن کے اوپر روشن دان رہ گئے ہیں اور ہر مکان کی پہلی، دوسری حتیٰ کہ تیسری منزل پر لکڑی کی بالکونیاں ہوا کرتی تھیںبلکہ بعض مکانوں کے اوپر کی منزل پر سڑک کی طرف لکڑی کی راہ داریاں یا بالکونیاں ہوا کرتی تھیں جو آج بھی کئی مکانوں میں موجود ہیں۔
میں اپنے کالموں میں اکثر بھاٹی گیٹ کا ذکر اس لئے کرتا ہوں کہ ایک تو ہم خودبھاٹی گیٹ میں پیدا ہوئے، دوسرے میرےکئی قریبی رشتے دار چومالا سے بازار حکیماںمیں رہتے رہے ہیں۔ اس لاہور نے ہمیں دو اور محبتوں بھی دیں۔ لاہور تو ہماری پہلی محبت ہے اور رہے گی۔ باقی دو محبتیں بھی زندگی کے ساتھ رہیں گی۔ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ راجہ دھیان سنگھ کی حویلی یا آصف جاہ کی حویلی یا پھر جمعدار خوشحال سنگھ کےمحل (جمعدار سکھوں کی ایک مسل ہے) میں سی آئی اے (کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی ) کاٹارچر سیل تھا۔ ہم نے اس ٹارچر سیل میں نیم کا بہت بڑا درخت اپنے زمانۂ طالب علمی میں دیکھا تھا یہ درخت حویلی کی بارہ دری کے سامنے باغ میں عین وسط میں تھا۔ ہم اس درخت کو کیسے بھول سکتے ہیں۔اس درخت کو بارہا ہم نے دیکھا ہے چنانچہ اس کی تلاش اور جستجو میں ہم نے اس عمارت کے ایک پرانے انچارج مسٹر ریاض کو تلاش کیا۔ انہوں نے ہماری بات کی تصدیق کی اور بتایا کہ جب یہاں لڑکیوں کا کالج قائم کیا گیا تو یہ درخت کاٹ دیا گیا تھا تاکہ باغ خوبصورت نظر آئے۔یہ تاریخی درخت بارہ دری کے کمرہ نمبر 8کے سامنے تھا۔ اس تاریخی درخت کے ساتھ کئی سیاسی قیدیوں اور دوسرے قیدیوں کو بھی باندھا گیاتھا یہ ٹارچر سیل آج بھی اس حویلی کے تہہ خانے میں ہے۔ ہم اس اتوار کو وہاں چلے گئے۔ اس ٹارچر سیل کے اندر تین سرنگیں ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ شاہی قلعہ کی جانب جاتی ہیں تو کسی نے انہیں دہلی تک پہنچا دیا ہے۔ بہرحال آج ان سرنگوں کے آگے پتھر کی سیلیں رکھ دی گئی ہیں۔ جب ہم یہاں پڑھایا کرتے تھے تب ٹارچر سیل میں کمپیوٹر سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ آج کل کلاسیں اور امتحانات ہوتےہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حویلی کی دیکھ بھال اس طرح نہیں کی جارہی اور کوئی پتہ نہیں کب اس کی چھتیں وغیرہ گر جائیں۔ کسی ظالم نے اس کی اصل چھتیں توڑ کر جو کہ لکڑی کی تھیں، لینٹر ڈال دیا ہے اور دھوکہ دینے کے لئےنیچے لکڑی لگا دی ہے۔البتہ آج بھی بعض کمروں میں لکڑی کی چھتیں اور بالے لگے ہوئے ہیں۔
عزیز قارئین، یہ تہہ خانہ بہت وسیع اور بہت ٹھنڈا ہے مگر بند رہنے کی وجہ سے اس میں خاص قسم کی بُو پیدا ہوگئی ہے یہ تہہ خانہ 70فٹ سے زائد لمبا اور 25فٹ چوڑا ہے اس کی دیواریں دو سے تین فٹ چوڑی ہیں۔ ہم کچھ دیر اس تہہ خانے میں رہے مگر آکسیجن کی کمی کا احساس ہوا تو باہر آگئے۔ یہ ٹارچر سیل حویلی کی خوبصورت بارہ دری کے بالکل نیچے ہے۔ آج بھی اس کے قدیم اینٹوں کے فرش اور سیڑھیاں جن کے بارڈر پر لکڑی لگی ہوئی ہے بہت بھلی لگتی ہیں۔خواہش ہے کہ حکومت اس خوبصورت حویلی کو بچا سکے۔ والڈ سٹی اتھارٹی نے اندرون شہر کے حوالے سےکوئی خاص کام نہیں کیابلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ اس حوالے سے آڈٹ کرایا جائے، آخر اس ادارے نے اندرون شہر کی خوبصورتی کے لئے جو فنڈز خرچ کئے کیا اس سے شہر کی گلیاں، بازار اور مکان اس حد تک خوبصورت اور اپنی اصل حالت میں آئے۔ خیر اس تہہ خانے کے بعد ہم شاہی حمام خانہ میں چلے گئے۔ وہاں جا کر افسوس ہوا۔ جس زمانے میں ہم نے حمام خانہ دیکھا تھا اس وقت اس کی حالت بہت اچھی تھی بلکہ اس وقت ایک چھوٹا سا تالاب بھی تھا جو اب نظر نہیں آ رہا تھا ۔ حمام خانے کے اندر اور باہر دفتر کا ریکارڈ اور ٹوٹا پھوٹا فرنیچر پھینکا گیا تھا۔ پتہ نہیں آخر ہمارے لوگوں کو تاریخی عمارتوں کی بربادی میںکیا دلچسپی ہے۔ حمام خانے کے نقش و نگار، فریسکو ورک اور پینٹنگز کسی حد تک اپنی اصل حالت میں ہیں۔ اس طرح کئی کلاس رومز کی دیواروں پر بنی ہوئی پینٹنگز اور فریسکو آج اپنے رنگوں کے ساتھ اصل حالت میں موجود ہیں۔ (جاری ہے)