چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے نواز شریف کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جنرل باجوہ کو توسیع نہ دے کر نواز نے اچھا کام کیا، ہر انسان غلطیاں کرتا ہے مجھ سے بھی غلطیاں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ساری گیم اپنی توسیع کیلئے ہوئی تھی، شہباز شریف سے انڈر اسٹینڈنگ ہوئی تھی کہ اس کو توسیع مل جائے گی۔
عمران خان نے کہا کہ بدنیتی پر انہوں نے بڑے بڑے مجرموں کو لاکر اوپر بٹھایا، ان سے مس کیلکولیشن ہوئی کہ عوام ہمارے ساتھ نہیں۔
عمران خان نے کہا کہ باجوہ شہباز شریف کو سمجھتے تھے کہ بہت بڑا جینئس ہے لیکن ایسا نہیں تھا، دیکھ لو ان کا کیا لیول ہوگا، باجوہ کے خیالات ان لوگوں سے زیادہ ملتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ شروع میں جنرل باجوہ اور ہم خارجہ پالیسی سمیت دیگر ایشوز پر ایک صفحے پر تھے، آخری 6 ماہ میں چینج آیا۔
خارجہ پالیسی میں بھی ایک دم تبدیلی ہوگئی، ہم چاہتے تھے کہ یوکرین جنگ میں ہم نیوٹرل رہیں، ایک دم ان کو یہ ہوا کہ ہمیں روس کی مذمت کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں عوام نے پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کو شکست دی، واضح ہوگیا کہ 2018 کے الیکشن میں ہمیں عوام نے جتوایا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں نے باجوہ کو کہا کہ ملک نیچے جارہا ہے سوائے الیکشن کے کوئی راستہ نہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے 90 روز میں الیکشن نہ کرائے تو پھر یہ کچھ بھی نہیں کریں گے، اکتوبر آئے گا تو کہیں گے کہ پیسے نہیں یا سیکیورٹی کے مسائل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن تب کرائیں گے جب سمجھیں گے کہ تحریک انصاف کریش ہوگئی یا میں جیل چلا گیا۔
عمران خان نے بتایا کہ وزارت اعلیٰ پنجاب کیلئے ہماری جماعت میں اُس وقت چار دھڑے تھے۔
انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار کو اس لیے لے کر آئے تھے کہ وہ کسی دھڑے کا حصہ نہیں تھا۔
عمران نے عثمان بزدار کی کمزوری بتاتے ہوئے کہا کہ وہ میڈیا فیس نہیں تھا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے بتایا کہ مجھے جب گولیاں لگیں تو میں نے زمان پارک کے دو کمروں میں چار ماہ گزارے۔
انہوں نے کہا کہ مجھ پر حملے کے بعد کا وقت میرے لیے مشکل تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساڑھے تین سال میں ان پر چار یا پانچ فیصد نئے کیس بنے، 95 فیصد کیسز انہوں نے ایک دوسرے پر بنائے ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میرے اوپر 143 کیسز ہیں اوسط نکالیں تو ہفتے میں تین کیسز بنتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ اتنے کیسز تو کرمنل پر بھی نہیں ہوتے جو انہوں نے مجھ پر کیے۔
عمران خان نے کہا کہ معیشت ٹھیک کرنے کے لیے پہلے رول آف لاء کو رائج کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جدھر پہنچ گیا ہے بہت بڑی ریفارمز کی ضرورت ہے، سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام آئے گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جب ایک پارٹی کو مینڈیٹ ملے گا تو وہ بڑے فیصلے کرے گی۔
ملک کو سیاسی، معاشی، جوڈیشل اور گورننس ریفارمز کی ضرورت ہے، اگر گورننس ٹھیک نہیں ہوگی تو سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔
عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم ہوتی کون ہے کہ وہ آئین کو نہ مانے، آئین کہتا ہے 90 دن میں الیکشن ہوں۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سوموٹو ایکشن لیا گیا، 12 بجے عدالتیں کھلیں ہمارے الیکشن کے اعلان کو رد کر دیا گیا۔
اب جب وہ سوموٹو الیکشن کیلئے کر رہے ہیں تو یہ پی ڈی ایم والے سارے کھڑے ہوگئے ہیں۔
سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں، ہمارے سوشل میڈیا کے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ورکرز پر ظلم اس لیے کیا جا رہا ہے کہ کسی طرح ان چوروں کو قبول کرلیں۔
عمران خان نے کہا کہ ہمارے دور میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لوگ آٹے کیلئے مر رہے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مارشل لاء نہیں لگ سکتا، پبلک ہی آپ کے ساتھ نہیں تو مارشل لاء کیسے لگائیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت آئی تو شوکت ترین ہی ہمارے وزیر خزانہ ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے ابھی چیف منسٹر کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔