سپریم کورٹ آف پاکستان نے خیبر پختون خوا اور پنجاب کے انتخابات کے التواء کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، فیصلہ سنانے کے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ ہم نے کہا تھا کہ فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی تھی، ضمنی انتخابات کا موازنہ عام انتخابات سے مت کریں، حکومت معاشی بہتری کے لیے اچھے اقدامات کر رہی ہے۔
سماعت شروع ہوئی تو پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آ گئے تاہم عدالت نے حکومتی اتحاد کے وکلاء کو سننے سے انکار کر دیا۔
فاروق ایچ نائیک نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا آپ کیس کا حصہ بن رہے ہیں؟ کیا آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تھے؟
فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ مشاورت کر کے ہمیں بتائیں، ہمیں تحریری طور پر بتائیں، اگر بائیکاٹ نہیں کیا تو بھی بتائیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بینچ پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارات میں لگا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی بائیکاٹ کیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ ہمیں صرف بینچ پر اعتراض ہے، ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ بائیکاٹ کر کے دلائل دینے آ گئے، اجلاس میں کہا گیا ہے کہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اس پر لارجر بینچ بننا چاہیے۔
ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ ہم نے وکالت نامے واپس نہیں لیے، ہمیں بینچ پر تحفظات ہیں، عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، سیاسی جماعتوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا تو تحریری طور پر بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم اس نکتے پر پہلے بات کر چکے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا اجلاس منعقد ہوا ہے، 48 گھنٹوں سے قومی پریس میں بائیکاٹ کا اعلان چل رہا ہے، اگر آپ کو ہم پر اعتماد نہیں تو ہمیں بتائیں، آپ کو ہم پر اعتماد ہی نہیں تو آپ دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔
جسٹس منیب نے کہا کہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیے کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟ اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بائیکاٹ ہی کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وکلالت نامہ دینے والوں نے ہی اس بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے۔
ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! آپ کو کیا ہدایات ملی ہیں؟ حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کر سکتی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ آگے بڑھا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے اسی بات کی توقع ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلہ سنا چکی تھی، فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کیسے تاریخ آگے بڑھا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کا حکم ایگزیکٹیو سمیت سب اداروں پر لاگو ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کا ہی تھا، 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس میں سے 4 ججز نے درخواستیں مسترد کیں، 4 ججز نے تفصیلی فیصلے جاری کر دیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کو مسترد کیا، جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواستوں کو مسترد نہیں کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے فیصلے سے اتفاق کیا تھا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ یہ آرٹیکل 218، 17، 294 اور 254 کا معاملہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 رکنی لارجر بینچ نے 2 دن کیس کی سماعت کی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ بہت جلدی کر رہے ہیں، آرام سے دلائل دیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر روسٹرم پر آ گئے۔
جس پر جسٹس منیب نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ عرفان قادر آپ کو ریسکیو کرنے آ گئے ہیں۔
وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میں ان کے بعد بات کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز نے 27 فروری کے آرڈر میں بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ مجھے بھجوایا، ہمیں کوئی فیصلہ بتائیں جس میں چیف جسٹس کو نیا بینچ بنانے سے روکا گیا ہو؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پشاور کا کیس ہے جس میں چیف جسٹس کو مرضی کے بینچ سے روکا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پشاور کیس کا حکم آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا آرڈر آف دی کورٹ اب تک جاری نہیں ہوا۔
’’کون سا قانون عدالت کو آرڈر آف دی کورٹ جاری کرنے کا پابند کرتا ہے؟‘‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون سا قانون یا ضابطہ عدالت کو آرڈر آف دی کورٹ جاری کرنے کا پابند کرتا ہے؟ کیا آپ 4 ججز کے فیصلے کو ہی جوڈیشل آرڈر تسلیم کرتے ہیں؟ اگر 4 ججز کا فیصلہ ہی تسلیم کر لیں تب بھی بینچ تشکیل دینے کا اختیار کیا چیف جسٹس کے سوا کسی کو ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کو کوئی عدالتی حکم موجود نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 5 رکنی بینچ کبھی بنا ہی نہیں تھا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر، کے پی کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر کے پی نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988ء میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر آپ کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعا ختم ہو جائیں گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، 2 ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں، 2 ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایسا کیس مجھے نہیں ملا جس میں چیف جسٹس کو بینچ تبدیل کرنے سے روکا گیا ہو، پشاور کیس کا حکم جوڈیشل آرڈر نہیں اقلیتی حکم تھا، سپریم کورٹ کی کارروائی عوامی مفاد کے لیے ہوتی ہے، ججز کی رائے الگ ہوتی رہتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ 2023ء کا کوئی آرڈر نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ میں نے نیا بینچ نہیں بنایا، پچھلا بینچ چلا آ رہا ہے؟ سپریم کورٹ میں ہمارے مختلف خیالات ہوتے ہیں لیکن مشاورت بھی ہوتی ہے، ہماری بینچ سے الگ بھی آپس میں بات چیت ہوتی ہے، اس سے متعلق جواد ایس خواجہ نے اپنی یادداشتیں بھی لکھی ہیں۔
اس موقع پر عرفان قادر اپنی نشست سے کھڑے ہو کر بول پڑے کہ آپ اسے مت کوٹ کریں، وہ جھوٹ ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ اکثریتی ججز از خود نوٹس مسترد کر چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ 5 رکنی بینچ کا حکم نظر انداز کر رہے ہیں جنہوں نے چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار دیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر تحفظات سامنے ہیں، موجودہ از خود نوٹس عدالت کی اکثریت مسترد کر چکی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس بینچ میں 4 ججز نے خود کو الگ کیا، بینچ دوبارہ تشکیل دیا اس لیے انہیں شامل نہیں کیا، 2 ججز نے بھی الگ سے آرڈر جاری کیا، تمام ججز اتفاق کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چیف جسٹس نے جو اختیار استعمال کیا وہ انتظامی نہیں عدالتی ہے، مقدمے کی سماعت میرٹ پر کی گئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا تھا کہ چیف جسٹس چاہیں تو مجھے بینچ میں دوبارہ شامل کر سکتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب جج نے کہہ دیا کہ چیف جسٹس کی مرضی ہے بینچ میں رکھیں یا نہیں تو بات ختم ہو گئی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 9 رکنی بینچ نے کہا کہ چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دیں۔
جسٹس منیب نے کہا کہ کسی کیس میں ایسا ہوا کہ ایک دن جج درخواست مسترد کرے، اگلے دن اسی بینچ میں بیٹھ جائے؟
دورانِ سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل سے سرگوشی کی جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟
عرفان قادر نے کہا کہ 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آ گئے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔
’’عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججزکی مشاورت نہیں‘‘
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ 5 رکنی بینچ بنا نہیں تھا؟ ججز کی آپس میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کے لیے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے آپسی معاملات ہوتے ہیں، عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں۔
جسٹس منیب نے کہا ک چار تین کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہو گا یا 5 رکنی بینچ کا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تفصیلی اختلافی نوٹ میں بینچ کے ازسرِنو تشکیل کا نکتہ شامل نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی از سرِ نو تشکیل انتظامی اقدام تھا، نوٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نوٹ کے مطابق 4 ججز نے خود کو بینچ الگ کیا، 9 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے، 2 ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے بھی سماعت میں دونوں ججز کے رکن ہونے کا نکتہ نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ 4 آراء کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فٹ نوٹ میں بھی لکھا ہے کہ 2 ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکم نامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نکتے پر قائل نہیں کر سکے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والا حکم واضح نہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کا حکم سب پر لاگو ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ موجودہ کیس کی بات کریں اس کیس میں ایسی کوئی درخواست نہیں ہے، 2 ججز نے فیصلہ دیا، آپ اس کو جس طرح پڑھنا چاہیں پڑھیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ مفروضوں پر مبنی ہے، بہت اہم معاملات پر از خود نوٹس لیا جاتا ہے، بینچ کے تناسب والے معاملے پر آپ کا نکتہ سمجھ گئے، امید ہے آپ بھی ہمارا نکتہ سمجھ گئے ہوں گے، 2 سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی نے درخواستیں دائر کی تھیں، 2 صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آج فل کورٹ بنانے کی درخواست لے کر آیا ہوں، میڈیا نے رپورٹ کیا کہ آپ نے فل کورٹ کی درخواست مسترد کر دی، مگر آپ کے حکم نامے میں ایسی بات نہیں تھی۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ مقدمہ ملتوی کرنا چاہتے ہیں؟ ایک طرف آپ فل کورٹ کا کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف التواء کا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی دلیل قیاس آرائی پر قائم کررہے ہیں، یہ عدالت از خود نوٹس پر بہت احتیاط کرتی ہے، اب تک اس عدالت نے از خود نوٹس پر بہت احتیاط کی بھی ہے، از خود نوٹس میں کیا پتہ ہوتا ہے کہ دوسرا فریق آئے گا یا نہیں، اسپیکرز کی درخواست کے علاوہ 2 ججز نے از خود نوٹس لینے کی درخواست کی، آپ چیزوں کو خود سے پالش کر کے پیش کر رہے ہیں، رولز کی بات ٹھیک ہے مگر لوگوں کے اہم معاملات چھوڑ نہیں سکتے، سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا استعمال کرتی ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے استدعا کی کہ اس کیس کی سماعت مؤخر کر دی جائے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ آپ ایک طرف فل کورٹ کی بات کر رہے ہیں دوسری طرف کیس مؤخرکرنے کا کہہ رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری دانست اور میڈیا رپورٹس کے مطابق فل کورٹ کی استدعا مسترد ہو چکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ اپنا ذہن بنا لیں کہ عدالت سے چاہتے کیا ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلی سماعت اور پھر جمعے کو بھی فل کورٹ کی استدعا کی مگر مانی نہیں گئی، فل کورٹ کی استدعا مسترد کرنے کا معاملہ حکم نامے میں بھی نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی، سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا تھا، 31 مارچ کے سرکلر میں لکھا ہےکہ 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 184/3 کے تحت درخواستوں سے متعلق رولز موجود ہیں، از خود نوٹس پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ مناسب ہو گا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، عوام کا مفاد مقدمات پر فیصلے ہونے میں ہے ناکہ سماعت مؤخر کرنے میں، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں؟
اٹارنی جنرل منصورعثمان نے جواب دیا کہ موجودہ مقدمے میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کی تیسری کیٹیگری میں آ سکتا ہے، 184 تھری کے رولز بننے تک سماعت مؤخر کی جائے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کارروا ئی کیسے مؤخر کریں؟
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ عدالت نے رواں سال میں پہلا سوموٹو لیا تھا، آپ کی اب استدعا فل کورٹ کے بجائے لارجر بینچ کی ہونی چاہیے، 9 رکنی بینچ کے فیصلے میں دکھا دیں کہ کسی جج نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تھا؟ ججز نے کہا چیف جسٹس کی مرضی ہے بینچ میں شامل کریں یا نہیں، پچھلے 3 دنوں سے سپریم کورٹ کے سینئر ججز سے مشاورت کر رہا ہوں، کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے، تین دو اور چار تین کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ موجودہ حالات بہت مشکل ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سےکہا کہ آپ نے ان حالات میں اچھے دلائل دیے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ 2 سیکریٹریز کو ہم نے بلایا تھا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ میرے پاس ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سیکیورٹی کا مسئلہ بہت سنجیدہ ہے، سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری دفاع کو سن کر واپس بھیج دیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے انتخابات کے لیے سیکیورٹی معاملے پر اِن چیمبر سماعت کی استدعا کر دی اور کہا کہ سیکیورٹی معاملے پر اِن چیمبر سماعت کی درخواست ہے۔
چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ ہمیں سر بمہر رپورٹس دے دیں ہم پڑھ لیں گے، ہم صرف فوج کی بات نہیں کر رہے، مسلح افواج میں ایئر فورس اور نیوی بھی شامل ہیں، اگر ہماری فوج حساس جگہوں پر تعینات ہے تو ہمیں ان دو کے بارے میں بھی بتایا جائے، اگر پاک آرمی کی نفری مصروف ہے تو دیگر سروسز سے اہلکار لیے جا سکتے ہیں، نیوی سمیت دیگر فورسز سیکیورٹی کے لیے لی جا سکتی ہیں جو حالتِ جنگ میں نہ ہوں، ویسے بتا دیں کہ الیکشن کے لیے کتنی سیکیورٹی چاہیے؟ جو کچھ حساس چیزیں ہیں، ان کو ان چیمبر سن لیں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر پھر سے روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ 4 ججز کا فیصلہ جب آ گیا تو معاملہ ہی ختم ہو گیا۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر کو ہدایت کی کہ ابھی آپ بیٹھ جائیں، ہمیں اعداد و شمار نہ بتائیں، صرف کچھ سوال پوچھ لیتے ہیں۔
اس موقع پر سیکریٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ حمود الرحمٰن عدالت میں پیش ہو گئے۔
چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا پنجاب میں سیکیورٹی کی صورتِ حال سنگین ہے؟
سیکر یٹری دفاع نے جواب دیا کہ پنجاب میں سیکیورٹی سے متعلق اِن چیمبر بریفنگ دیں گے، ہم نے کورٹ میں کچھ بولا تو دشمن معلومات لیک کر سکتا ہے، کچھ حساس معلومات ہیں جو چیمبر میں بتائیں گے۔
تحریکِ انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں ابھی سیکیورٹی کا معاملہ چھوڑ دینا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ انتخابات کے لیے سیکیورٹی کون دے گا؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کے روز دیگر فورسز سے سیکیورٹی لی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت کو یہ اعتماد کیسے ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ چکا ہے کہ سیکیورٹی اورفنڈ ملیں تو الیکشن کے لیے تیار ہیں، ریٹائرڈ آرمی کے جوان بھی سیکیورٹی کے لیے لیے جا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس ریٹائرڈ جوان بلانے کا کوئی طریقہ کار ہے؟
سیکریٹری دفاع نے جواب دیاکہ ریٹائرڈ آرمی جوان ریزرو فورس ہوتی ہے جنہیں مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع صاحب کیا آپ سربمہر کچھ فائلیں لائے ہیں؟
سیکریٹری دفاع نے جواب دیا کہ ابھی نہیں لائے، عدالت میں پیش کر دوں گا۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ہمیں سر بمہر فائلیں دے دیں، ہم ان کا جائزہ لے کر واپس کر دیں گے، سیکریٹری دفاع کو اگلی سماعت پر آنے کی ضرورت نہیں ہے، کچھ سوالات ہمارے ذہن میں آئے تو کھلی عدالت میں پوچھ لیں گے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم اپنی افواج کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، حساس آپریشن ہوتے ہیں، ہم کوئی معلومات لیک نہیں ہونے دیں گے۔
سیکریٹری دفاع نے کہا کہ تفصیلی بریفنگ عدالت کو ان چیمبر دیں گے، تفصیلی رپورٹ بھی عدالت کو چیمبرمیں پیش کریں گے۔
علی ظفر نے کہا کہ موجودہ حالات میں کسی قسم کی سنگینی نہیں ہے، الیکشن کے لیے زیادہ سیکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن میں ڈیوٹی کے لیے جنگجو فوجی نہیں چاہئیں، ریٹائرڈ آرمی جوان بھی سیکیورٹی دے سکتے ہیں، پیرا ملٹری فورسز بھی سیکیورٹی دے سکتی ہیں جو وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ملک میں جمعے کے اجتماع میں بھی سیکیورٹی دی جاتی ہے، حالات اتنے خراب نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کافی عرصے سے ملک میں حالات خراب ہیں، جھنگ کبھی حساس ہوتا تھا، اب نہیں ہے، جنوبی پنجاب اور کچے کے علاقے بھی حساس ہیں۔
’’سیکریٹری دفاع زبانی کے بجائے تحریری جواب دیں‘‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکریٹری دفاع حساس معلومات شیئر نہ کریں، زبانی معلومات کے بجائے تحریری جواب دے دیں۔
جس پر سیکریٹری دفاع نے کل تک جواب جمع کرانے کی مہلت مانگ لی۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع کو ہدایت کی کہ آپ چند گھنٹوں بعد یا کل صبح تک رپورٹ دے دیں، سیکریٹری خزانہ فنڈ سے متعلق آگاہ کریں، آج کی سماعت جاری رہے گی، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز محفوظ ہیں، فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کے لیے نہیں ہوتا، عدالت کو وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، انتخابات کے لیے کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیکریٹری کی علالت کے باعث ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے رپورٹ جمع کرائی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری صاحب آپ نے آئی ایم ایف پروگرام کا بتایا ہے، آپ کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارہ کم کر رہے ہیں، الیکشن کے لیے 20 ارب روپے چاہئیں، بتائیں کونسا ایسا پراجیکٹ ہے جو 20 ارب سے کم کا ہے؟ سنتے رہتے ہیں کہ فلاں سڑک اور پراجیکٹ کے لیے اتنے ارب رکھ دیے گئے، علی ظفر نے بتایا کہ 170 ارب آپ فنڈز کی مد میں ایم این ایز کو دے رہے ہیں، پی ایس ڈی پی میں کوئی کٹ لگایا گیا ہے؟
ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے جواب دیا کہ میری معلومات کے مطابق پی ایس ڈی پی میں کٹ نہیں لگایا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 20 ارب روپے آپ دیں تو کھربوں میں سے کتنے فیصد ہو گا؟ اگر 20 ارب دینے پڑ جائیں تو کیا کھربوں روپے کے بجٹ والا ملک نہیں دے سکتا؟ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں شاید کھربوں روپے پڑے ہوں گے۔
سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ریزرو فورس کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے، الیکشن کل نہیں ہونے، پورا شیڈول آئے گا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز، بحری اور ہوائی فورسز سے بھی معلومات لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جن علاقوں میں سیکیورٹی صورتِ حال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں، الیکشن کمیشن نے 45 فیصد پولنگ اسٹیشنز کوحساس قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے سوال کیا کہ جب ضمنی الیکشن ہو سکتے ہیں تو جنرل کیوں نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ضمنی انتخابات کا موازنہ عام انتخابات سے مت کریں۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع کوآج رات یا کل صبح تک تحریری رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ قومی خسارے میں 20 ارب شامل ہو جائیں تو کتنے فیصد نقصان بنے گا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ کے مطابق سود کی ادائیگی، پیٹرولیم مصنوعات کا خسارہ بڑھ گیا، آپ ہم سے شروع کریں، اخراجات کیوں کم نہیں کرتے، تھوڑا تھوڑا کر کے اداروں کے اخراجات کم کریں، یہ پیٹ کاٹنے والی بات ہے، 5 فیصد اخراجات کم کریں کام ہو جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے کیسے حکم پہلے دے دیا کہ الیکشن ہم نے کرانے ہیں، پہلے مجھ سن لیں کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا ہے، کیا آپ نے فیصلہ کرنے کا پہلے ہی بتا دیا ہے؟
چیف جسٹس عمر عطا ءبندیال نے کہا کہ ہم نے کوئی فیصلہ پہلے سے نہیں کیا۔
اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما اسد عمر روسٹرم پر آگئے جنہوں نے کہا کہ میں سابق وزیرِ خزانہ ہوں، اس سال کا بجٹ خسارہ 4.9 فیصد ہے، 20 ارب الیکشن کے لیے دے دیے جائیں تو بجٹ خسارے پر معمولی فرق آئے گا، اس سال کا ترقیاتی بجٹ 700 ارب روپے ہے، پہلے 8 ماہ میں 229 ارب روپے خرچ ہونے ہیں، ایم این ایز کو خصوصی فنڈز جاری کیے جائیں گے، آئینی ذمے داری پوری کرنے کے لیے 20 ارب روپے نہ دینے کا بہانہ مذاق ہو گا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ حکومت نے 8 ماہ میں 229 ارب خرچ کیے، اس کا مطلب کٹ لگائے گئے ہیں، توجہ کہیں اور ہے، ترقیاتی بجٹ کم نہ کریں، غیر ترقیاتی بجٹ کو کم کر دیا جائے۔
ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ غیر ترقیاتی بجٹ میں ملازمین کی تنخواہیں ہوتی ہیں، 170 ارب روپے جمع کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگائے گئے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزیرِ خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد ٹیکس جمع ہوا، اندازہ ہے کہ بجٹ خسارہ ابھی موجود ہے، پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت کا خسارہ 157 ارب روپے تھا، 177 ارب ہوتا تو کیا ہوتا؟
ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ خسارہ طے ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اخراجات کم کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کر دے گی، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے، کونسا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ اگرعدالت ذہن بنا چکی ہے تو ہمیں بتا دیں، ہمارا مؤقف سن لیں پھر سیکریٹری سے بات کر لیں، عدالت سوشل میڈیا پر چلنے والی باتوں کا بھی نوٹس لے۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ سوموٹو نہیں لیں گے، آپ درخواست دیں، حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے، عدالت فیصلہ کرے، 450 ارب روپے خرچ نہ ہونے کی وجہ اخراجات میں کمی ہے، حکومت نے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی تقاضہ پورا کرنے کے لیے آرٹیکل 254 ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں انتخابات کے لیے پیسے رکھیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت معاشی بہتری کے لیے اچھے اقدامات کر رہی ہے، وقفہ لیتے ہیں اور بعد میں عرفان قادر کو سنتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی کیس کی سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر روسٹرم پر آ گئے ۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر سے استفسار کیا کہ آپ کتنا وقت لیں گے، کتنے منٹ لیں گے؟
عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جتنی دیر میں عدالت کی تسلی ہو، جتنی دیر سن سکیں اتنا بولوں گا، بنیادی حقوق ایک طرف، درخواست گزار سیاسی جماعت اور دوسری جانب حکومت کے ہیں، جو 3 رکنی بینچ بنایا گیا اس پر سوشل میڈیا پر بہت سی باتیں ہوئیں، 3 رکنی بینچ کے ساتھ جانبداری کا عنصر شامل کر کے کچھ الفاظ جوڑے جا رہے ہیں، پی ڈی ایم نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے جو پورا نہیں کیا گیا، سب بینچ کی جانبداری کی باتیں کر رہے ہیں، پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال تو سارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے، انصاف نا صرف ہونا چاہیے، بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، مجھے انصاف ہوتا نظر نہیں آ رہا اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ بینچ کا وقار مجروح کر رہا ہوں، بینچ میں موجود ارکان نے پہلے ایک فیصلہ دیا جو تنازع کا شکار ہے، دیکھنا ہے کہ یہ چار تین کا فیصلہ تھا یا تین دو کا، آج عدالت میں بہت سیر حاصل بحث سننے کو ملی ہے، 9 ججز نے انتخابات کا معاملہ سنا، 4 نے خارج 3 نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا، یہ بینچ ججز کے درمیان اختلاف ختم کرے، ججز کے درمیان صرف اندرونی نہیں بلکہ فیصلے پر بھی اختلاف ہے، ایک سرکلر سپریم کورٹ کے فیصلے پر کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟ کیس سننے کے لیے فل کورٹ نہ ہو بھی تو مزید ججز کو شامل کیا جائے، عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ تمام سائیڈز سے ججز کو بینچ میں شامل کیا جائے، ایک سیاسی جماعت کے بنیادی حقوق عوام کے بنیادی حقوق نہیں ہو سکتے، گزشتہ کئی برسوں میں عام اور صوبائی انتخابات ایک ہی دن ہوئے ہیں، پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ کرائے جانے چاہئیں، ملک کے مالی حالات میں بھی یہی بہتر ہے کہ انتخابات ایک ساتھ ہوں، انتخابات کرانے کا معاملہ عدالت کو الیکشن کمیشن پر چھوڑ دینا چاہیے، 4 ججز کہہ چکے کہ ہائی کورٹ انتخابات کے معاملے پر فیصلہ کرے، کے پی میں گورنر، پنجاب میں صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ ججز کے اندرونی اختلافات ختم کر کے اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے، جسٹس فائز عیسیٰ کا فیصلہ آپ کے خیال میں لازمی قابلِ عمل نہیں تھا، ججز کو آپس میں ملنا چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سوشل میڈیا کا ذکر آپ کر رہے ہیں، پرسوں جسٹس فائز عیسیٰ سے ملاقات ہوئی، یہ آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ سے ملاقات میں فل کورٹ پر بات ہوئی، ملاقات میں یہ سمجھا کہ شاید جسٹس فائز عیسیٰ اپنے فیصلے کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہ بن سکیں، جلد فل کورٹ اجلاس بلائیں گے، عرفان قادر صاحب آپ کو سراہتے ہیں، آپ نے متعلقہ پوائنٹ اٹھایا، آپ کا نکتہ نوٹ کر لیا ہے لیکن بتا نہیں رہا ورنہ آپ اس پر بہت آگے نکل جائیں گے۔
’’اس وقت چیف جسٹس سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں‘‘
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ بس ایسے میری تعریفیں کر دیا کریں، میں سوشل میڈیا کی بات کر رہا تھا، اس وقت جناب سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر کو جواب دیا کہ ہم مولا سے خیر مانگتے ہیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ ایک چیز ہوتی ہے عالمگیر گواہی، پرویز الہٰی کی آڈیو لیک سے آن ریکارڈ آ چکا کہ وہ اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے تھے، گورنر یا وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے اسمبلی مرضی سے نہیں توڑی تو انتخابات کی بات ہونی ہی نہیں چاہیے، موجودہ بینچ میں بھی جسٹس اعجازالاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی وجوہات بتائیں کیوں جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے، مجھے نہیں لگتا کہ میں اپنے انتظامی اختیارات پر آپ کو جوابدہ ہوں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ مجھے نہیں لیکن قوم کو جوابدہ ضرور ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل آرڈرز پر جوابدہ ہوں لیکن انتظامی آرڈرز پر نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کے کیس سننے سے معذرت کا کیا کوئی دستخط شدہ آرڈر ہے؟ جسٹس منصور نے فیصلے میں بہت اچھی بات کہی، جسٹس منصور نے فیصلے میں کہا کہ ایک جج بینچ میں شامل ہو تو نکالا نہیں جا سکتا۔
وکیل عرفان قادر نے کہا کہ کئی بار ہوا ہے کہ جج کے دستخط سے پہلے فیصلے پبلک ہوئے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اس کے کوئی دستاویزی ثبوت دکھائیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ ججز اپنے چیف جسٹس کے خلاف لکھنے لگیں تو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا گیا ہے کہ ون مین شو والی بات میرے بارے میں نہیں عمومی طور پر کہی گئی۔
اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے عرفان قادر سے کہا کہ آپ کے دلائل بہت خوبصورت اور جامع تھے۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ بہت شکریہ آپ کے دلائل تفریحی تھے۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے استفسار کیا کہ سیاسی جماعتوں نے کیا ہدایات لے لیں؟
فاروق نائیک نے جواب دیا کہ سیاسی جماعتوں کے اعلامیے میں عدالتی کارروائی سے بائیکاٹ کا ذکر نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ عدالت پر عدم اعتماد کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بائیکاٹ نہیں کیا۔
مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکیل وکالت کرتے ہوئے غلام نہیں بن جاتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ وکلاء ذاتی حیثیت میں آتے تو اور بات ہوتی، یہاں آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں، حکمراں جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ 3 رکنی بینچ پر اعتماد نہیں ہے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ 6 دن سے یہاں بیٹھ کر انتظار کر رہا ہوں، کیا مجھے اپنی شنوائی کے لیے اخبار میں آرٹیکل لکھنا ہو گا؟ عدالت میں میری تذلیل ہو رہی ہے، مزید اپنی تذلیل نہیں کراؤں گا۔
چیف جسٹس نے اکرم شیخ کو ہدایت کی کہ آپ اپنے دلائل تحریری دے دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خوش آئند ہے کہ ہائی کورٹس میں انتخابات سے متعلق کوئی کیس زیرِ التواء نہیں۔
وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں گورنر کے پی کی جانب سے بھی پیش ہو رہا تھا، سیاسی جماعت اور گورنر کے ایک ساتھ پیش ہونے پر مفادات کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے، گورنر کے پی کی نمائندگی کا وکالت نامہ واپس لیتا ہوں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اب وزارتِ دفاع کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
جسٹس منیب اختر نے فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے عدالتی بائیکاٹ کی خبریں چلوائی گئی ہیں، آپ کو علم ہے کہ ن لیگ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایسی بات کی گئی؟
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ حکومت اور پی ٹی آئی سیاسی ڈائیلاگ کریں، حل نکالیں، پاکستانی قوم کی خاطر سیاسی ڈائیلاگ کریں، کسی سیاسی نتیجے پر پہنچیں، سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہوتے تو آئینی مشینری موجود ہے، الزامات لگائے جا رہے ہیں کیونکہ ہر کوئی صرف سیاسی مفادات کو پورا کرنا چاہتا ہے، یہ اپنے ججز بھی خود چننا چاہتے ہیں؟ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اپنے مقدمات سننے کے لیے ججز خود منتخب کیے گئے ہوں، تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے، پارلیمنٹ اور حکومت کا بہت احترام ہے، انتخابات ایک ساتھ ہونے کا آئیڈیا زبردست ہے، اس کیس میں 2 اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی چاہیے ہو گی، ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہو رہا، سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وفاقی حکومت انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرائے تو کچھ سوچا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آرٹیکل 218 الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے لیکن آئین سے تجاوز کی اجازت تو نہیں دیتا؟ عرفان قادر صاحب نے کہا کہ صدر کے تمام اختیارات مشاورت کے پابند ہیں، بد قسمتی سے ہوتا یوں ہے کہ سیاسی جماعتوں میں سیاسی ایجنڈا سامنے آ جاتا ہے، اکرم شیخ نے کہا کہ وہ دلائل دینے کو تیار ہیں لیکن ان کے مؤکل نے رسی کھینچ لی، کیا صدرِمملکت وزیرِ اعظم کی مشاورت کے بغیر تاریخ دے سکتے تھے؟ اٹارنی جنرل سے گلہ ہے 4/3، 3/2 کے معاملات میں پڑ کر انہوں نے اتنا اہم سوال نہیں اٹھایا، ہم سپریم کورٹ میں انصاف کے لیے بیٹھے ہیں، عدالت کے بائیکاٹ کے باعث اتحادی جماعتوں کے وکلاء کو نہیں سن سکتے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار پر کسی نے بات نہیں کی، الیکشن کمیشن نے نہیں بتایا کہ اسے الیکشن ملتوی کرنے کاا ختیار کہاں سے ملا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے سیکشن 58 کا حوالہ دیا تھا۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتا، الیکشن کمیشن نے اپنے حکم میں آرٹیکل 218/3 کا حوالہ دیا، آرٹیکل 218/3 الیکشن کروانے کا پابند بناتا ہے، صدرِ مملکت کی دی گئی تاریخ ہی حتمی ہے، الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ وہ اپنی ذمے داری پوری کرنے کو تیار ہے لیکن وسائل درکار ہیں، الیکشن کمیشن کو وسائل وفاقی حکومت نے دینا ہیں، عدالت توازن قائم کرنے بیٹھی ہے۔
’’عدالت کا پیغام ہے ابھی بھی وقت ہے مل کر معاملات کا سیاسی حل نکالیں‘‘
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! عدالت کا پیغام ہے کہ ابھی بھی وقت ہے مل کر معاملات کا سیاسی حل نکالیں، وزارتِ دفاع اور وزارتِ خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کی کافی رقم خرچ ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہو گی، عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا، ایسا نہ ہو کہ دوسرا کوئی غیر ضروری معاملہ شروع ہو جائے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے خیبر پختون خوا اور پنجاب کے انتخابات کے التواء کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ فیصلہ سنانے کے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
اس سے قبل آج الیکشن التواء کیس کے حوالے سے اٹارنی جنرل پاکستان ملک منصور اعوان کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی۔
درخواست میں اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں بینچ مقدمہ نہ سنے۔
اٹارنی جنرل کی متفرق درخواست میں استدعا کی گئی کہ الیکشن از خود نوٹس کیس نہ سننے والے ججز پر مشتمل عدالتی بینچ بنایا جائے۔
سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے الیکشن کے التواء سے متعلق درخواستوں کی سماعت آج 2 دن کے وقفے کے بعد کر رہا ہے۔
جمعے کو سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل ملک منصور اعوان کی جانب سے فل کورٹ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ سماعت کے بعد میں کچھ ملاقاتیں کروں گا اور توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہو گا۔
بینچ پر حکومتی اتحاد اعتراض اٹھا چکا ہے، جو آج فل کورٹ بنانےکی استدعا کرے گا۔
پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر وکیل کے ڈریس میں سپریم کورٹ پہنچے۔
حماد اظہر کو سپریم کورٹ داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
اس موقع پر فواد چوہدری نے پولیس سے درخواست کی کہ حماد اظہر بیرسٹر بھی ہیں انہیں آنے دیں۔
اجازت نہ ملنے پر فواد چوہدری حماد اظہر کو دروازے پر چھوڑ کر سپریم کورٹ کے اندر چلے گئے۔
حماد اظہر سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر شاہراہِ دستور پر آ گئے جہاں وہ وکلاء کے ہمراہ احتجاج میں شریک ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما فوادچوہدری کی ریڈ زون کھلوانے کی استدعا مسترد کر دی۔
پی ٹی آئی رہنما فوادچوہدری معمول کے کیس کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی عدالت میں پیش ہو گئے۔
فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ریڈ زون کے داخلی راستے سیل کر دیے گئے ہیں، لگتا ہے کہ ہم غزہ میں ہیں، وکلاء کو بھی آنے سے روکا جا رہا ہے، ریڈ زون کے داخلی راستوں پر جھگڑے ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے فواد چوہدری کی ریڈ زون کے داخلی راستے کھلوانے کی استدعا مسترد کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ حکومت اور انتظامیہ اپنے سیکیورٹی اقدامات کر رہی ہے، کیس کی سماعت کر رہے ہیں، ہزاروں وکلاء کا آنا ضروری نہیں، وکلاء کو آپ نے کال دی ہے تو ان سے بات کریں۔
فواد چوہدری نے جواب دیا کہ ہم نے کسی کو کال نہیں دی، وکلاء کا کنونشن ہے اس کے لیے بھی انہیں روکا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا اس سب سے کیا لینا دینا؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ازخود نوٹس پر پہلے ہی مسائل بنے ہوئے ہیں، آپ پھر سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالتی احاطے میں معمول کی شناخت کے بعد وکلاء آ سکتے ہیں۔
اس موقع پر خاتون وکیل نے شکایت کی کہ کمرۂ عدالت نمبر 1 میں بھی آنے نہیں دیا جا رہا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گنجائش کے مطابق ہی کمرۂ عدالت میں داخلے کی اجازت ہو گی، ہر وکیل کو کمرۂ عدالت میں آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ میں چیف جسٹس کے پاس یہ بتانے جا رہا ہوں کہ انہوں نے سپریم کورٹ کو غزہ بنا دیا ہے، بلکہ پورا اسلام آباد غزہ بنا دیا گیا ہے۔
یہ بات فواد چوہدری نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کے سامنے پیش ہونے سے پہلے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔
فواد چوہدری نے الزام عائد کیا کہ وزراء اور میڈیا کے کچھ لوگ سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں، وکلاء نہیں ڈرنے والے۔
انہوں نے کہا کہ وکلاء کبھی عدالت پر اثر انداز نہیں ہوتے، وکلاء عدالت کی سپورٹ ہوتے ہیں۔
فواد چوہدری نے سوال کیا کہ اگر وکیل سپریم کورٹ اور عدالتوں میں نہیں آ سکتے تو کون آئے گا؟
دریں اثناء سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ کے آرڈر میں جسٹس جمال مندوخیل کے بینچ سے الگ ہونے کے معاملے کو شامل نہیں کیا گیا جبکہ اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ کی استدعا اور پھر فل کورٹ کی استدعا مسترد کرنے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
حکم نامے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عرفان قادر کا نام بطور وکیل بھی شامل نہیں، مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا نام بھی آرڈر شیٹ میں موجود نہیں۔
مسلم لیگ ن کے ملک احمد خان نے کہا ہے کہ پہلے یہ نکتہ طے کیا جائے الیکشن التواءکے خلاف درخواست قابلِ سماعت ہے یا نہیں اور یہ عدالتی دائرہ اختیار ہے یا نہیں ہے۔
عدالتِ عظمیٰ میں آج سیکیورٹی ریڈ الرٹ ہو گی۔
سپریم کورٹ میں صرف وہی افراد داخل ہو سکیں گے جن کے مقدمات زیرِ سماعت ہوں گے یا جن کو سپریم کورٹ انتظامیہ نے اجازت نامہ جاری کیا ہو گا۔
کیپیٹل پولیس کے ترجمان کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ قانون کا احترام سب پر لازم ہے اور اس کا نفاذ برابری کی سطح پر کیا جائے گا۔
اسلام آباد پولیس نے واٹر کینن شاہراہِ دستور پر پہنچا دی۔