یہ 3نومبر 2018کی ایک سرد صبح کا آغاز تھا۔ آسمان کو گہرے بادلوں نے گھیرا ہوا تھا۔سردی اپنے عروج پر تھی۔ سینٹرل لندن کی سٹرکوں پر معمول کا رش تھا۔میں ایجوئر روڈ پر واقع اپنے ہوٹل سے نکلا اور تیز تیز قدموں کے ساتھ ماربل آرچ کی طرف بڑھ گیا۔وقت کم تھا اور مجھے لندن اسکول آف اکنامکس پہنچنا تھا۔آج لندن ا سکو ل آف اکنامکس میں Future of Pakistan Conference کا آخری روز تھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کانفرنس کے آخری مقرر تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سویلین بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر انتہائی جاندار لیکچردیا۔لگ رہا تھا کہ برطانیہ کی یونیورسٹی میں کارنیلیس بول رہا ہے۔کانفرنس اور اپنی تقریر سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہر سوال کا بہت مدلل جواب دیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جونہی اسٹیج سے اتر کر باہر نکلنے لگے تو انہیں دروازے پر ہی لندن کے مقامی میڈیا نے گھیر لیا۔جیو نیوز کے لندن میں نمائندے مرتضیٰ علی شاہ سمیت دیگر صحافیوںنے قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے مائیک کیا تو انہوں نے اپنے لبوں پر ہاتھ کا اشارہ کرکے بتانے کی کوشش کی کہ ’’ جج کے لب سلے ہوئے ہوتے ہیں‘‘۔میڈیا نمائندوں نے جب بار بار اصرار کیا تو قاضی صاحب نے صرف اتنا کہا کہ میں یہاں صرف کانفرنس کیلئے آیا ہوں اور کانفرنس سے متعلق مجھے جو کچھ کہنا تھا اپنی تقریر اور سوال و جواب سیشن کے دوران کہہ دیا۔اس سے زیادہ میں کوئی بات نہیں کرسکتا اور نہ میرا منصب مجھے اس بات کی اجازت دیتا ہے۔یہ قاضی فائز عیسیٰ کی اصولوں پر کاربند رہنے کی ایک مثال تھی۔قاضی صاحب نے صرف وہی گفتگو پبلک کی ،جو کہ بطور جج وہ اپنے ادارے کے نوٹس میں دے کر آئے تھے۔کانفرنس سے ہٹ کر انہوں نے ایک لفظ بھی اضافی نہیں بولا،ویسے تو خاکسار ایسے درجنوں واقعا ت کا شاہد ہے،جب جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب نے قانون و اصول کی اولین مثال قائم کی ۔جس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے پی سی او ججز فیصلے کے بعد پوری بلوچستان ہائیکورٹ فارغ ہوگئی تو جسٹس قاضی فائز عیسی کو گھر سے بلا کر پہلے بلوچستان ہائیکورٹ کا جج لگایاگیا اورساتھ ہی چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بھی مقرر کردیا گیا۔اس وقت کی پوری بلوچستان ہائیکورٹ کی تشکیل نو میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کلیدی کردار تھا۔جس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہائیکورٹ کا جج بنایا گیا اس وقت ان کی لاء فرم کی ماہانہ آمدنی سپریم کورٹ کے جج کی آج کی تنخواہ سے بھی کئی گناہ زیادہ تھی۔عمومی تاثر ہے کہ وکیل بہت کم ٹیکس دیتے ہیں،چونکہ سارا دن خود عدالتوں میں پیش ہوتے رہتے ہیں ،اسلئے ایف بی آر کا نوٹس بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔مگر جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ جب وکیل تھے تو ان کی لاء فرم نے سب سے زیادہ ٹیکس دے کر ریکارڈ قائم کیا تھا ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لاء فرم میں کام کرنیوالے انکے ایسوسی ایٹس کروڑ پتی بن چکے ہیں ،یہ اس لاء فرم کے مالک سے پوچھتے تھے کہ ’’تمہاری بیوی کے پاس یہ فلیٹ کہاں سے آیا‘‘۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خاندانی پس منظر کو بھول بھی جائیں اور اس بات کا تذکرہ نہ بھی کریں کہ پاکستان کے قیام میں ان کے والد قاضیٰ عیسیٰ کا کیا کردار تھا،قائد اعظم محمد علی جناح قاضی عیسیٰ کا کس حد تک احترام کرتے تھے۔ان تمام حقائق سے قطع نظر جسٹس قاضی فائز عیسی ذاتی طور پر بہت بڑے آدمی ہیں۔اگر آج ایسا بااصول شخص سپریم کورٹ کا جج ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے اس ادارے کی ساکھ مزید مضبوط ہوتی ہے،آج سپریم کورٹ آف پاکستان کی بلندو بالا عمارت خود پر فخر کرسکتی ہے کہ اس کے پاس قاضی فائز عیسیٰ ہے۔اس وقت پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے قد کاٹھ کا شخص ڈھونڈئےسے بھی نہیں ملے گا۔مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف تو بہت دور کی با ت ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں تو ان کے سگے بیٹے کا کیس بھی لگادیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس میں بھی انصاف ہوگا نہیں بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظربھی آئے گا۔بہت اچھی بات ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سردار طارق مسعود،جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندو خیل اپنے سینئر قاضی فائز عیسیٰ کی بھرپور تقلید کررہے ہیں یہ سب انتہائی دیانتدار اور شاندار کیرئیر کے حامل ججز ہیں۔ ضروری ہے کہ تمام مندرجہ بالا ججز ملک کے سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ کی ساکھ بحال کرنے کیلئے بھرپور اقدامات کریں اور اس سلسلے میں جو بھی قیمت ادا کرنی پڑی،اس سے گریز نہ کریں۔آج ماسٹر کے بجائے آئین کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے۔ جس برطانیہ کی ہم آئے روز مثال دیتے ہیں ،وہاں کی پارلیمنٹ کے بارے میں مقولہ مشہور ہے کہ وہ’’مرد کو عورت اور عورت کو مردبنانے کے سوا سب کچھ کرسکتی ہے‘‘پاکستان میں بھی سب سے سپریم ادارہ پارلیمنٹ ہے،اگر پارلیمنٹ کی سپریمیسی پر سمجھوتہ ہوا تو پھر سپریم کچھ بھی نہیں رہے گا۔