11 اگست 1947 کو قائد اعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرکے پاکستان کا بیانیہ پیش کیا اور یہ بیانیہ ہی دستور پاکستان کیلئے رہنما اصول تھے ، قائد کی خواہش تھی کہ اسمبلی جلد سے جلد آئین تدوین کر ے قائد کی زندگی میں یہ خواہش پوری نہ ہوئی اگر آئین بن جاتا تو پاکستان کی پہلی 25 سالہ تاریخ بدل سکتی تھی، قائد کے انتقال کے 2/3 برس بعد بھی یہ مرحلہ طے ہو سکتا تھا، اس وقت کی قیادت کے ذہن میں ایک خوف تھا کہ نئے آئین سے ان کے اختیارات کو کنٹرول کیا جائے گا اسلئے اسے جتنا ٹالا جا سکتا ہے، ٹالا جائے اس وقت بہترین سیاستدان کا معیار یہ ٹہرا کہ کون کتنے عرصے تک آئین بننے سے روک سکتا ہے ،وہی سب سے بڑا سیاستدان ہے یہ اسی کوشش کا نتیجہ تھا کہ 1956 میں جوآئین وضع ہوا وہ بھی محض 2 سال چل سکا اس کے بعد ایوب خان نے 1964 کا دستور دیا جس میں بالواسطہ ( ان ڈائریکٹ ) الیکشن کا طریق کار رائج کر کے ملک کی اشرافیہ کو طاقتور بنایا گیا۔
یہ وہ آئین تھا جس میں مادرملت کو رسوا کیا گیا اور جمہوری اقدار پامال ہوئیں ، ایوب خان کا دستور جنرل یحیٰی نے ختم کر دیا پاکستانی قوم کے 36 برس کوڑے میں پھنک دیئے گئے ۔ 23 مارچ اور 14 اگست کی طرح اپریل کی 10 تاریخ ، پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک یاد گار دن بن گیا ہے ،اس روز پاکستان کے منتخب نمائندوں نے قیام پاکستان کے ٹھیک 36 برس بعد پاکستان کیلئے ایک متفقہ ، وفاقی ، جمہوری پارلیمانی آئین منظور کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، دنیا میں کسی بھی نو آزاد قوم نے آئین کی تدوین میں اتنی تاخیر نہیں کی تھی ،مستقبل دستور سے پہلے ایک عبوری آئین کی منظوری دی گئی تھی ، لیفٹ رائٹ میں تقسیم Highly پولرائزڈ سوسائٹی میں دستو راور سکے بعد مستقل آئین کی متفقہ منظوری یقیناً ہماری تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ قرار دیا گیا ، افہام و تفہیم کی ایسی فضا قائم ہوئی کہ پوزیشن بائیکارٹ ختم کر کے اسمبلی کی تدوین میں شامل ہو گئی ، 3رہنمائوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔
ان میں 2قصوری بھی شامل تھے انکی مہربانی تھی کہ انہوں نے آئین کی مخالفت میں ووٹ نہ دیا۔ دستور پاکستان 1973 کی تدوین کی لحظہ بہ لحظہ بدلتے واقعات کے انمٹ نقوش آج ہماری سیاسی جمہوری اور قومی تاریخ کا چمکتا دمکتا باب ہیں ، دستور کی تدوین میں حکومت اپوزیشن نے اپنے سیاسی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے قومی مفادات کو ترجیح دی اور بانیان دستور نے ایک ایسا متفقہ عمرانی معاہدہ قوم کے سپرد کیا ، جس نے پاکستان کے افق سیاست کو دانش کا راستہ دکھایا سیاست اور دانش کے اوصاف کی حامل قومی قیادت نے 1973 کے دستور کے ذریعے نہ صرف قوم کو متحد ،ملک کو استحکام عطا کیا بلکہ ان کے اجتماعی فیصلوں نے پاکستان کی دفاعی قوت کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔
آج جبکہ اہل پاکستان ،دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں مجھے تاریخی واقعات کا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ اس وقت حکومت پاکستان کے ایک نوجوان پی آر افسر کی حیثیت سے پارلیمانی ایوانوں تک رسائی تھی ، اکتوبر 1972 کے شب ور وز نہیں بھلائے جاسکتے جب ذوالفقار علی بھٹو ،قومی اسمبلی ہال ( سٹیٹ بنک بلڈنگ اسلام آباد ،موجودہ نادرا ہیڈ کوارٹر ) میں دستور پاکستان کی اساس میں اپوزیشن کو برابر کا شریک سفر کر رہے تھے، مولانا مفتی محمود اور مولانا ظفر احمد انصاری نے دستور پاکستان کے اساسی لمحات میں معرکتہ الاراء خطاب کیااور بات 622 عیسوی سے شروع کی جب رسالت مآب ؐ 13 برس کی مکی زندگی پر مہر اختتام لگاتے ہیں اور یثرب میں ،مدینہ النبیؐ کی وہ ریاست معرض وجود میں آئی ہے جسے رہتی دنیا تک جدید ریاست کا بانی ہونا ہے۔
یہاں بوجوہ ’’جدید ریاست ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور اسے محض حر ف گستری کیلئے ’’مشعل راہ ‘‘ یا ’’نمونہ ‘‘ کے صیغوں میں تولنے سے گریز کیا کیونکہ ریاست مدینہ کی اصطلاح استعمال کرنے والے معاشرے کو یہ یاد دلانا مقصود ہے کہ اللہ کا آخری نبیؐ جس پر وحی الہٰی کا اختتام ہوا اس نے ریاست مدینہ کی بنیاد اس میثاق پر رکھی جو دنیا کا پہلا آئین ہے اسے میثاق مدینہ کہتے ہیں ریاست کیلئے ایک ایسی دستاویز جس پر بلا تخصیص رنگ نسل اور مذہب معاشرے کے تمام عناصر کا اجماع ہو کس قدر ضروری ہے ، اس کا بہترین ادراک سیرت رسالت مآبؐ ﷺ ہے کہ جنہوں نے اسلامی ریاست کی بنیاد اپنے معیار عدل و انصاف پر رکھی اسلئے اللہ کے نبی کا یہ معجزہ ہے کہ آپ کے تدیر اور فراست نے جدید ریاست کے قیام کا پہلا اصول یہ بتایا کہ وہ معاشرہ کبھی امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے تمام شہریوں کو برابر تسلیم نہ کرے۔
اس موقع پر میثاق مدینہ کی تفصیلات بھی ایوانوں میں سنائی گئیں ،سالت مآب ﷺ کہ جن کی شخصیت میں انسانیت کیلئے بہترین نمونہ رکھا گیا یہ ان ہی کی شخصیت سے ،عیاں ہے کہ ریاست اور اس کی تشکیل کیلئے ایک عمرانی معاہدہ کیا جائے ، جس کی پاسداری زور یا جبر سے نہیں باہمی رضا مندی سے ہو اور جو ریاست کو اپنے شہری کا حاکم نہیں بلکہ اس کا نگہبان ، محافظ اور خادم بنائے۔ یہی نکات 1973 کےجمہوری اسلامی دستور کی اساس بنے ، قیام پاکستان کے وقت جب رائٹرز کےنمائندے نےبانی پاکستان قائد اعظم سے مستقبل کی ریاست پاکستان کے آئینی خدو خال کی وضاحت مانگی تو بلا جھجک قائد نے جواب دیا مستقبل کی ریاست پاکستان اسلام کے ذریں اصول ،مساوات ،بھائی چارے اور سماجی انصاف پر قائم ہو گی۔
بد قسمتی سے بانی پاکستان کے مختصر عرصہ حیات کے باعث پاکستان اس دیدہ ور سے محروم ہو گیا جس کی نگاہ میں اس جدید اسلامی ریاست کا مکمل ڈھانچہ موجود تھا جس کا اولین اور آخری مقصد اس کے عوام کی فلاح ہے، تحریک پاکستان کی تاریخ جس قدر تابناک ہے تعمیر وطن کے باب میں آئین تلاشی کی اڑھائی عشروں پر محیط قوم کی صحرا نور دی اتنی ہی کرب خیز، مساوات کے اصول کو نظر انداز کرنے والا 1956 کا آئین جہاں 2 برس بھی نہ جی سکا وہیں باہمی بھائی چارے اور سماجی انصاف کا خون کر تا ہوا فرد واحد کی انا کی تسکین گاہ 1962 کا آئین بالا ٓخر مملکت کی تقسیم اور سانحہ مشرقی پاکستان پر اختتام پذیر ہوا۔
کیا تلخ کہانی ہے کہ اکابرین ملت کو اپنے مرض کی تشخیص بالا ٓخر اس وقت ملی جب مرض آدھا جسم کھا چکا تھا لیکن شاید قوموں کی زندگی میں یہی وہ حادثے ہیں جوان کے سفینے کو بالا ٓخر صحیح سمت پر ڈال دیتے ہیں 10 ا پریل 1973 کو قوم کے سفینے کو بالا ٓخر ایک متفقہ وفاقی پارلیمانی اور اسلامی ریاست کی وہ منزل نصیب ہو گئی جسے دستور پاکستان 1973 کہتے ہیں ،16 دسمبر 1971 کو سانحہ ڈھا کا کے 4 روز بعد 20 دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو نے دستور کی عدم موجودگی کے باعث قانونی تقاضوں کے تحت پہلے سول مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کے طور پر حلف لیاتو اسی شب بلکہ نصب شب کے بھی بعد ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اولین خطاب میں کہا میں آپ سے تاریخ پاکستان کے فیصلہ کن لمحات میں ہم کلام ہوں ہم اپنی قومی زندگی کے بد ترین بلکہ تباہ کن بحران سے گزر رہے ہیں۔
ہمیں خاک پر بکھرے اپنے ٹکڑے خود چننا ہوں گے اور ان ہی چھوٹے ٹکڑوں کو چن کر ایک نیا پاکستان بنانا ہے ، ایک خوشحال اور ترقی پسند پاکستان ، استحصال سے پاک وہ پاکستان جو قائد اعظم کا مرکز نگاہ تھا، یہ پاکستان جمہوریت کے بغیر نا ممکن ہے اور جمہوریت کی بحالی کیلئے ہمیں عوام کو آئین دینا ہو گا ،ڈیڑھ گھنٹے پر محیط یہ تقریر میں نے اوائیل عمری میں 20 دسمبر کی سرد ٹھٹھرتی گھپ سیا ہ رات میں ایک کمزور سے بلب کی روشنی میں زمین پر بیٹھا ریڈیو پر سن رہا تھا ،شہر کے درو دیوار تاحال سانحہ ڈھاکا کے سوگ میں ماتم کناں اور باورچی خانوں میں کام کرتی بیبیاں بے وجہ آنے والے آنسوؤں کو با ربار دوبٹوں سے پونجھتی تھیں، نماز کیلئے مسجد جانے والے بزرگ یا تو راہ میں ایک دوسرے سے چہرہ چھپاتے تھے، یابے اختیار لپٹ کر رونے لگتے تھے، گلی میں بے سبب کھیلتے بچے اب یوں سہم کے بیٹھے تھے گویا گلی سے میت نکلی ، بے بسی، مایوسی اور بے کلی کی ایسی رات ذوالفقار علی بھٹو کی صدا گویا پیا م امید تھی اور دستور کے مل جانے کی نوید گھپ اندھیرے میں گویا جیسے روشنی کی ایک کرن، لیکن یہ تنہا ذوالفقار علی بھٹو کا کارنامہ ہر گز نہیں تھا اس لئے کہ نظر یات کی تحفیص سے بالا تر ہو کر ہر ایک مکتبہ فکر کی سیاسی قیادت کا قد اس قدر اونچا تھا کہ آئین کا سائبان محض 2 سالوں میں اس قوم کے سروں پر آگیا جو گزشتہ 25 برسوں سے اس کیلئے ترس رہی تھی اس سیاسی قیادت کی بالیدگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ جناب بھٹو نے فروری 1973 کو عطا اللہ مینگل کی NAPکی حکومت کو برطرف کر دیا۔
اس فیصلے کے خلاف احتجاج کے طور پر صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود نے استعفے دے دیا ، اس وقت تک کوئی آئینی سکیم موجود نہیں تھی ،لہذا وہ مولانا مفتی محمود جو مرکزی مجلس قانون سا ز میں قائد حزب اختلاف تھے ۔۔۔۔۔ آئینی سکیم نہ ہونے کے باعث مولانا مفتی محمود صوبائی اسمبلی کے رکن بھی تھے ان سمیت بہت سے ارکان، قانون ساز اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے بھی ارکان تھے، نیپ کی حکومت کی بر خواستگی اور نیپ اور جے یو آئی کی مشترکہ حکومت کے استعفے کی وجہ سے مجلس قانون ساز( قومی اسمبلی) میں ولی خان نے اسمبلی اور تمام متعلقہ کارروائی بشمول آئین سازی کا بائیکاٹ کر دیا، قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن میں جہاں نیپ اور جے یو آئی تھیں وہیں جے یو پی کے مولانا شاد احمد نورانی ،جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد مسلم لیگ پگاڑا نے بھی ،اسمبلی کا بائیکاٹ کر دیا ۔تمام اپوزیشن جماعتوں نے۔
یو ڈی ایف کی بنیاد رکھی جس کے سربراہ پیر پگاڑا اور سیکرٹری جنرل پر وفیسر غفور احمد تھے ، سیاسی ہیجان بڑے عروج پر تھا لیکن ان سب کے باوجود جب 27 مارچ کی شب ذوالفقار علی بھٹو نے یکطرفہ آئین کے پاس ہو جانے کے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو شامل ہونے کی آخری دعوت دی ۔باہمی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر موقع کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں مذاکرات پر واپس آگئیں محض ایک ماہ پہلے صوبائی حکومتوں سے محروم ہونے والی اپوزیشن 10 اپریل کو ایک متفقہ آئین پر دستخط کر رہی تھی جناب غوث بخش بزنجو نے ازرہ تفنن متحدہ اپوزیشن پر پھبتی کسی بھٹو ہماری حکومتیں گراتا ہے ہم مرکز میں اسکے ساتھ بیٹھے ہیں مولانا مفتی محمود نے برجستہ کہا صوبوں میں بھٹو سے ہماری لڑائی سیاسی ہے یہ لڑائی ہم گلی گلی میں لڑیں گے مرکز میں 25 سال سے آئین کی منتظر قوم کی نگاہیں ہمیں دیکھ رہی ہیں ،انہیں مایوس نہیں کیا جا سکتا۔
اپوزیشن پارٹیاں مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہی تھیں پی پی پی کے پاس بہت تجربہ کا رایم این ایز بھی تھے ، بھٹو مرحوم نے 29 مارچ کو حاکم علی زرداری کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی بنائی تاکہ نیپ NAPاور اپوزیشن دیگر جماعتوں کو مذاکرات پر آمادہ کیا جائے ، ملک جعفر اور علی بخش تالپور شامل تھے ۔ آئینی تعطل دور کرنے کیلئے حاکم علی زرداری کمیٹی اپوزیشن سے ملی اور 2 اپریل کو اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس بلا لیا ،متحدہ جمہوری محاذ کا اجلاس ویسٹرج میں چوہدری ظہور الہیٰ کے گھر پر ہوا۔ بھٹو نے نشری خطاب میں آئین سازی کا بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کی تھی ۔ پیر پگاڑا (یو ڈی ایف ) کی سربراہی کر رہے، تھے مذاکرات میں ڈیڈ لاک کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو اپوزیشن ارکان سے الگ الگ ملاقاتیں کر رہے تھے ، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد UDFکو اعتراض تھا۔
انہوں نے مذاکرات کی شرط عائد کی کہ الگ الگ ملاقات کی بجائے متحدہ جمہوری محاذ سے بات کریں حزب اختلاف کے مطالبات میں اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ شائع کریں ، عدم اعتماد تحریک کیلئے د و تہائی اکثریت کی شق واپس لیں ،فلور کراسنگ پر پابندی ختم کریں، دو صوبوں میں مرکزی حکومت کے اقدامات نا قابل برداشت ہیں۔ اپوزیشن کو سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی پر بھی اعتراض تھا ، مذاکرات ہوئے اور آئین کی 24 دفعات پربات چیت کی آمادگی ہوئی، اپوزیشن سیاس جماعتوں پر پابندی اظہار رائے کی آزادی ،اسلامی شقوں کو موثر بنانے فرد کی آزادی پر کمپرو مائز کیلئے تیار نہیں تھی۔
اس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی میں دستور کی منظوری کا مرحلہ شروع ہوگیا اور 13 اپریل کو آئین کا دیپاچہ منظور کیا گیا ،یہ وہی دباجہ ہے جو آج بھی ہمارے دستور کا حصہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے ساتھ منتخب نمائند وں کے ذریعے جمہوری نظام چلانے کا عزم کیا گیا او ربتایا گیا کہ پاکستان ایک وفاقی پارلیمانی جمہوریہ ہوگا ، جہاں عدلیہ آزاد ،اقلیتوں کے مکمل حقوق، مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا اہتمام، وفاق پاکستان میں شامل صوبے، ریاستیں اور علاقوں کی وضاحت کی گئی، قائد اعظم کے اعلان سے وفاداری اسلامی اصولوں پر مبنی جمہوریہ اور جمہوریت کے تحفظ کیلئے ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ شامل ہوگا اور مساوات پر مبنی معاشرہ قائم کریں اپوزیشن سے مذاکرات کے نتیجے میں آئین کے مسودے میں ترامیم تیار کی گئیں اور عبوری دستور میں ترامیم کیلئے صدر بھٹو کو اختیار دینے کیلئے صدارتی فرمان جاری کیا گیا، بانیان دستور شہری آزادیوں کے معاملے پر کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں تھے، پیر پگاڑہ کی تجویز پر اسمبلی میں قرار داد پیش کر دی کہ شہری آزادیوں پر پابندی غداری کےمترادف ہو گی۔صدر بھٹو اور اپوزیشن مذاکرات میں طے ہوا کہ عدم اعتماد کیلئے دو تہائی اکثریت کا اصول 15 کی بجائے 10 سال کیلئے ہو گا اور عدم اعتماد سے قبل اسمبلی نہیں توڑی جائے گی ۔ حکومت بحرانی کیفیت ختم کر کے سیاسی استحکام لانا چاہتی تھی ۔یوں تو 1973ء کے دستور میں 24 ترامیم ہو چکیں لیکن 18ویں تاریخی آئینی ترمیم 2010ء میں سیاسی اتفاق رائے سے منظور ہوئی۔
30 جون 2011ء میں اختیارات صوبوں کو ملے تو خوشی میں یکم جولائی کو یومِ صوبائی خودمختاری منایا گیا جو 1970ء میں ون یونٹ کے خاتمہ کا دن تھا۔ علامتی اعتبار سے ہم وفاقیت کے ایک نئے سفر پر گامزن ہوئے۔ وفاقیت کا سوال پاکستان کی بنیاد، قیام اور استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ اس حوالے سے کوتاہیوں کی ماضی میں ہم نے بڑی قیمت چکائی ہے۔ 1973ء کا آئین وفاقیت کی جانب پہلا قدم تھاتاہم اسے چار سال بعد معطل کردیاگیا،اور پھر اس میں ایسی ایسی ترامیم کی گئیں کہ اس کی وفاقی پارلیمانی روح زخمی ہوگئی۔ اٹھاریں ترمیم نے اسے کچھ حد تک بحال کرنے کی سعی کی۔ اس ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو طاقت اور اختیار کا مرکز ومحور بنایاگیا، نیز ان اداروں کو وہ اختیارات بھی واپس کیے گئے جو ایوانِ صدر چلے گئے تھے۔
18ویں ترمیم نے اختیارات افراد سے لے کر اداروں کو دیے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا قیام تو 1973ء میں ہوا لیکن 2010ء تک 37 سالوں میں اس کے فقط 11 اجلاس ہوئے۔ جبکہ اب گزشتہ دس سالوں میں اس کے 34 اجلاس ہوچکے ہیں اور اس نے ملک کو پہلی واٹر پالیسی دی،اور بھی بہت کام کیے۔ تاہم آج بھی دستور کی منشاء کے مطابق اس کا علیحدہ سیکریٹریٹ نہیں۔ کونسل اپنی دس سالہ رپورٹس پارلیمنٹ کے سامنے رکھ چکی ہے لیکن ان پر فقط ایک بار صرف سینٹ آف پاکستان میں ہی بحث ہوئی۔۔ اس کے اجلاس بھی آئین کے مطابق ہر 90 دن کے بعد نہیں ہوتے۔ کچھ ایسا ہی حال قومی اقتصادی کونسل کا ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد اس ہرسال کم ازکم دو اجلاس ہونے چاہیئں تاکہ ملک وقوم کی اقتصادی منصوبہ بندی پالیسی کے رہنما اصولوں کے مطابق ہوسکے۔ 2010ء سے 2020ء تک اس کے فقط دس اجلاس ہوئے، وہ بھی وفاقی بجٹ سے پہلے رسمی منظوری کے لیے۔ اگر باقی دس اجلاس بھی ہوتے تو شاید وفاق اور صوبے باہم مل بیٹھ کر اقتصادی منصوبہ بندی کرلیتے۔ قومی اقتصادی کونسل کی سالانہ رپورٹ بھی 2018ء کے بعد سے پلارلیمنٹ کے سامنے نہیں رکھی گئی۔نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ بھی 2009ء سے چل رہا ہے حالانکہ اسے ہر پانچ سال بعد ہونا چاہیے تھا۔
یہ ایوارڈ اٹھارویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا اس کے بعد صوبوں کی ذمہ داریاں بڑھیں۔ آج 18ویں ترمیم پر بات کی جائے توسیاسی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں آئین پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کے لیے سیاسی مکالمہ ہو۔اداروں خصوصاََ بیوروکریسی میں اصلاحات ہوں۔ 18ویں ترمیم آئین میں کوئی حتمی فل سٹاپ نہیں بلکہ شہریوں کو حکمرانی کے حوالے سے اچھی ڈیل دینے کی جانب قدم ہے۔ سیاسی وسماجی ارتقاء کو ریورس گئیر نہیں لگایا جاسکتا۔
بائیس کروڑ پاکستانی اچھی، باوقار اور خوشحال زندگی چاہتے ہیں۔ متوازن جمہوری وفاق سفر کے لیے انہیں دونوں پر وں کی ضرورت ہے۔ اول:سیاسی حقوق، دوئم: معاشی حقوق۔ ٹوٹے ہوئے پروں کے ساتھ بلندیوں کی جانب پرواز کا خواب ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کو معاون اور مہربان وفاق، متحرک صوبے اور فعال مقامی حکومتیں چاہیئں وگرنہ مایو سیوں کے بادل پہلے ہی گہرے ہیں۔جدید آئین پتھر پر کندہ نہیں ہوتے، یہ زندہ جاوید دستاویز ہوتے ہیں جنہیں ضابطے کے مطابق تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے سقم دور کرنے کے لیے انیسویں، بیسویں اور بائیسویں ترمیم ہوچکی ہیں۔ سابقہ فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام بھی پچیسویں ترمیم کے ذریعہ ہوا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپریل 2010ء میں تاریخی اٹھاریں ترمیم منظور کی جسے ”گفتگو کے ذریعے قانون سازی کا انقلاب“کہا گیا۔اس تاریخی ترمیم کی پہلی اینٹ 14مئی2006ء کا میثاق جمہوریت ہے جس پر سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے دستخط کیے۔ 18مارچ2009ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اس وقت کے صدر مملکت نے سپیکر قومی اسمبلی کو ایک کمیٹی بنانے کا کہا جو آئین میں ترامیم تجویز کرے۔
بعدازاں صدرمملکت نے وزیراعظم کو بھی خط کے ذریعے عملی اقدامات کا کہا۔10اپریل2009ء کو قومی اسمبلی نے تمام پارلیمانی سیاس یجماعتوں پر مشتمل خصوصی کمیٹی کے قیام کی قرارداد منظور کی۔سینٹ نے بھی 29اپریل 2009ء کو ایسی ہی قرارداد منظور کی۔جن کی روشنی میں سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد 25 رکنی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات قائم کی جس میں 14سیاسی جماعتوں اور آزاد اراکین کی نمائندگی تھی۔ کمیٹی کا پہلا اجلاس 25 جون 2009ء کو ہوا اور سینیٹر میاں رضاربانی کمیٹی کے متفقہ چیئرمین منتخب ہوئے۔
کمیٹی نے میڈیا کے ذریعے عوام سے تجاویز اور ترامیم کے حوالے سے سفارشارت طلب کیں اور اسے 982 تجاویزوسفارشات موصول ہوئیں۔ کمیٹی نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے بھی تجاویزوسفارشات مانگیں،نیز ترامیم کے حوالے سے 91 پرائیویٹ ممبر 1973 کے آئین اور 18 ویں ترمیم کی تیاری کے عمل میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں واقعات میں ۔کمیٹی نے 77بندکمرے کے اجلاس ہوئے اور ہر اجلاس اوسطاََ پانچ گھنٹے کا تھا۔
کچھ اسی طرح کا طریقہ کار 1973ء کے آئین کی تشکیل کے وقت اپنایاگیا تھا۔ آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کےموقع پر کی سیاسی لڑائی آج بھی گلی گلی میں آگئی ہے جہاں دو اسمبلیاں برخواست ہیں وہاں ہر سطح پر سیاسی تقسیم دوبارہ گرم ہے ،ایسے مرحلے پر قومی سیاسی قیادت کو اپنی ذات سے بلند ہو کر آئین اور قانون کی سربلندی اور جمہورت کے دفاع پر متفق ہونا ہو گا۔