ملک بھر میں چینی جو ڈیڑھ ماہ قبل 93 روپے فی کلو گرام تھی،اس کی قیمت بڑھ کر 135 روپے ہوجانا تعجب اورتشویش کا باعث ہے ۔ یہ وافر مقدار میں موجود ہے ، نہ کرشنگ کا سیزن اور نہ ڈالر اور توانائی کے نرخوں میں ہونے والا اضافہ چینی کی روزانہ بنیادوں پر بڑھتی قیمتوں سے کوئی نسبت رکھتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق منافع خور اور اسمگلنگ مافیا نے لاکھوں بوریاں ذخیرہ کر رکھی ہیں جو رفتہ رفتہ افغانستان اسمگل ہورہی ہیں ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق چینی کے موجودہ بحران سے موقع پرست افراد چند ہی دنوں میں 115 ارب روپے منافع کما چکے ہیں جس کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر مناسب کریک ڈاؤن کرتے ہوئے ذخیرہ کی گئی چینی برآمد نہ کی گئی تو اسمگلنگ کا سلسلہ جاری رہنے سے اس کی قیمتوں میں جو مزید اضافہ ہوگا ، لوگ اس کے حالیہ نرخوں کو بھی بھول جائیں گے۔ بیکری اشیا ،مٹھائی اور مشروبات جو پہلے ہی گذشتہ برس کے مقابلے میں دوگنا مہنگے ہوچکے ہیں ، انکی قیمتیں مزید بڑھیں گی۔ ذرائع کے مطابق مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں کا اس کی صنعت و تجارت سے وابستہ افراد خود تعین کرتے ہیں ۔ اس کھلی چھوٹ سے حاصل ہونے والا کروڑوں روپے کا اضافی منافع صارفین کی پریشانی کے علاوہ قومی خزانے کیلئے بھی نقصان کا باعث بن رہا ہے کیونکہ اس پر ایف بی آر کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے تحت غیر رجسٹرڈ شدہ چینی پر ٹیکس وصول نہیں ہوتا ۔زمینی حقائق کے برخلاف چینی کی بیرون ملک غیر معمولی برآمد اور بعد میں اسکامصنوعی بحران پیدا کرنے کی تحقیقات کے ساتھ وزیراعظم شہباز شریف کی سخت ہدایات کی روشنی میں متعلقہ محکموں کو تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئےمہنگائی سے دوچار عوام کو اس نئی افتاد سے نجات دلانی چاہئے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998