• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتدار میں عمران آزادانہ فیصلے کرسکیں گے؟

پاکستانی تاریخ میں بڑا سیاسی سرقہ اس وقت ہوا جب ا سکندر مرزا، جو اسٹیبلشمنٹ کے روح رواں تھے، نے ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں ری پبلکن پارٹی بنائی، آپ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر خان صاحب، باچا خان کے بڑے بھائی تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے قربان جائیے کہ باچا خان اس لئے معتوب ٹھہرے کہ وہ غیر جمہوری عمل کا نہ صرف یہ کہ حصہ بننے پر تیار نہ تھے بلکہ اس کیخلاف سب سے توانا آواز تھے، لیکن انہیں کے بھائی جو نہ صرف خدائی خدمتگار تحریک کے ہر اول دستے میں شامل تھے بلکہ پاکستان بننے کے بعد جس سرحد (پختونخوا) حکومت کو برطرف کیا گیا اس کے وزیر اعلیٰ بھی یہی ڈاکٹر خان صاحب ہی تھے، لیکن چونکہ اب اسٹیبلشمنٹ کے باجگزار بننے پر آمادہ ہوئے تو ان کے سارے ’داغ‘ ایسے دھل گئے کہ مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے ! یہ علیحدہ بات ہے کہ خاندانی شرافت و دیانت چونکہ ان کے خمیر میں شامل تھی اس لئے ان کے دورِ وزارت اعلیٰ میں انصاف اور عوامی مسائل کے حل کے وہ کارنامے سامنے آئے، جو آج تک کسی بھی پاکستانی حکمراں کے حصے میں نہیں آسکے، مگراس کا صلہ انہوں نے پنجاب کے دل لاہور میں شہادت کی صورت میں پایا۔ایوبی آمریت کے دوران کنونشن مسلم لیگ اور ضیاء الحق کے مارشل لا میں مسلم لیگ جونیجو کی تخلیق دراصل ایسے ہی غیر فطری شاہکار مظاہر تھے۔ اس کے مضر اثرات نہ صرف سیاست پر مرتب ہوئے بلکہ بالخصوص ضیاء دور میں اس وادی میں کرپشن عام ہونے سے معاشرتی برائیاں بھی اُ گ آئیں۔ ظاہر ہے کہ کرپشن کا یہ سلسلہ صرف اعلیٰ قیادت تک محدود نہ رہ سکا اور رفتہ رفتہ یہ عام ورکر تک پہنچ گیا۔ آج سیاست کا جو حال ہے بلاشبہ اس میں سابقہ ادوار کی غلط پالیسیوں کے عمل دخل کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ طالع آزما یہ سب کچھ محض اپنے رسک پر کر رہے تھے بلکہ ایسا عالمی سامراج امریکہ کے عین مفادات کا تقاضا بھی تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ پرویز مشرف کی آمریت نے پھر ق لیگ تخلیق کر ڈالی، ذرا ماضی کے جھروکوں سے اگر جھانک کر ہم دیکھیں تو ہروہ جماعت ، جس نےاسٹیبلشمنٹ کیخلاف نعرہ لگایا، اقتدار میں آتے ہی کاسہ لیسی کیلئے بے قرار ہوئی۔1999میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیںاور پیپلز پارٹی سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اس تبدیلی کا خیر مقد م کیا۔ پھروہی بیزاری کا سلسلہ جو قبل ازیں ایوبی اور ضیاء آمریتوں کے آخر میں عوام دیکھ چکے تھے، دراز ہوا، یہاں تک کہ سیاست پھر اصل ٹریک پر آئی، لیکن حسب سابق سیاستدانوں نے خود کو ایک مرتبہ پھر نا اہل ثابت کیا اور اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جا بیٹھے ،ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ سیاست میں ہر غیر جمہوری عمل نے قوم و ملک کو نقصان سے ہی دوچار کیا ہے۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والاہندوستان ہے، جہاں اس طرح کی مثالیں تلاش ِبسیار کے بعد بھی ہاتھ نہیں آتیں۔ فطری سیاسی عمل کی بدولت آج کانگریس جیسی بھارت کی بانی جماعت کو بھی محض کارکردگی کی بنیاد پر ہی پرکھا جاتا ہے، بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعت کی پالیسیاں بھی اپنے ملک و عوام کیلئے اس قدر ترقی پسند ہوتی ہیں کہ عوام کانگریس پر بی جے پی کو ترجیح دے دیتے ہیں۔ قابل غور امر یہ ہے کہ آج اگر پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑانظر آتا تو پھر یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا کہ آمریتوں و سیاست میں آمیزش کی بدولت ہی ہم اس اعلیٰ مقام پر فائز ہیں لیکن اگر پاکستان آج ترقی کے حوالے سے بھارت و بنگلہ دیش سمیت دنیا کے 143ممالک سے پیچھے ہے تو کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری یہ قومی بربادی درحقیقت آمریتوں اور ملاوٹ شدہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی کارستانیوں ہی کا نتیجہ ہے۔ہم بات کررہے تھے عمران خان کی مقبولیت کی، جس کے سبب اگر انتخابات شفاف ہوتے ہیں تو وہ اقتدار میں آسکتے ہیں،آخر میں پھر وہی سوال کہ کیا عمران خان آزادانہ طورپر فیصلے کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں گے اور نعرہ صرف نعرہ نہیں ہوگا۔؟

تازہ ترین