جمہوری دور کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ آزادکشمیر ہائیکورٹ نے آزاد ریاست کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کو توہین عدالت کیس میں نہ صرف وزارت عظمیٰ بلکہ قانون ساز اسمبلی کی رکنیت کے لئے بھی دو سال تک نااہل قرار دے کر فارغ کردیا۔ عدالت نے غیرمشروط معافی بھی قبول نہیں کی اور تابرخاست عدالت قید کی سزا بھی سنادی۔ تنویر الیاس بعد میں سپریم کورٹ گئے جہاں اسی نوعیت کا ایک اور کیس بھی ان کے خلاف زیر سماعت ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی انہیں ریلیف نہیں دیا تاہم تحریری جواب کیلئے دو ہفتے کی مہلت دے دی۔ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا سابقہ ریکارڈ اچھا نہیں۔ ہمیشہ عدالتوں کے خلاف غلط قسم کی میڈیا ٹاکس کا حصہ بنتے ہیں۔ عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کو تنویر الیاس کی اسمبلی رکنیت کے خاتمے کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا حکم دیا جس کا فوری اجرا کردیا گیا۔ عدالت نے انہیں یہ سزا عدلیہ مخالف بیانات پر دی۔ سردار تنویر الیاس تحریک انصاف آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان میں اس جماعت کے رہنماؤں کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف کھلے عام الزام تراشی اور بیان بازی کے کلچر پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔ کورٹ روم میں ایک بڑی سکرین پر ان کی تقاریر میڈیا ٹاک اور پریس کانفرنسوں کے کلپس بھی دکھائے گئے جنہیں انہوں نے تسلیم کیا اور غیر مشروط معافی مانگی جو قبول نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ نے بھی ان کے طرزعمل پر ان کی سرزنش کی۔ بدھ کو انہوں نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جو اعتراض کے ساتھ واپس کردی گئی اور اگلے روز دوبارہ دائرکرنے کیلئے کہا گیا۔ سیاستدانوں کی طرف سے عدلیہ پر جوبے جاحملے کئے جارہے ہیں تنویر الیاس کی نااہلی میں اس حوالے سے ایک سبق پنہاں ہے جس کا سب کو ادراک کرنا چاہئے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998