پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کےحوالے سے فیصلوں پر تنقید بلاوجہ ہے۔
ایک انٹرویو میں بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستانی طالبان کو واپس آنا تھا، تو فیصلہ ہوا کہ انہیں مین اسٹریم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو مین اسٹریم کرنے کے لیے شرائط رکھی گئی تھیں، طالبان کو پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا ہے، افغانستان سے ہتھیار لے کر نہیں آنا، انہیں یہاں آ کر امن سے رہنا ہے، ان کو ری ہیبلیٹیٹ کرنا ہے، اس پر قومی اسمبلی میں اِن کمیرا سیشن میں بریفنگ دی گئی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ جو آج اعتراضات کر رہے ہیں وہ سب بریفنگ میں بیٹھے تھے، شہباز شریف، بلاول بھٹو، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی سمیت سب تھے، بریفنگ کے بعد فیصلہ ہوا کہ آگے بڑھنا ہے اور لائحہ عمل بنانا ہے، پھر ہماری حکومت رخصت ہو گئی، ہماری حکومت سے رخصتی کے بعد جو حکومت آئی ذمے دار تو وہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آئی، گزشتہ ایک سال میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، ذمے دار ہم کیسے ہو سکتے ہیں؟ سوات میں لوگ آنا شروع ہوئے تو کیا ہم نے نشاندہی نہیں کی؟
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ مراد سعید اور ہمارے دیگر لوگوں نے وہاں لوگوں کو موبلائز نہیں کیا؟ کیا رانا ثناء اللّٰہ نے یہ بیان نہیں دیا کہ یہاں کوئی باہر سے لوگ نہیں آئے؟ اب ساری ذمے داری پیچھے کی طرف منتقل کر رہےہیں، کوئی سیاسی جماعت اکیلے فیصلہ نہیں کر سکتی۔
ان کا کہنا ہے کہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہے، دہشت گردی ایک لعنت ہے، ہمیں مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے، نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آصف زرداری نے جو کہانی بیان کی اس کے کردار ان کے ساتھ بیٹھے تھے، جنہوں نے ان پر کیسز بنائے، زبان کاٹی وہ ن لیگ والے تھے، ہم نے بات چیت سے کبھی انکار نہیں کیا مگر پہل حکومت کرتی ہے، ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں اس کا ایجنڈا کیا ہو گا، آصف زرداری نے کہا ڈائیلاگ غیر مشروط ہونا چاہیے، یہ خوش آئند ہے۔
سابق وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ملک کو بھنور سے نکالنے کے لیے پہلی ضرورت نئے انتخابات ہیں، آصف زرداری کہتے ہیں کہ اعتراض الیکشن پر نہیں وقت پر ہے، الیکشن کی ٹائمنگ آپ کے کنٹرول میں نہیں، دو اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں، آئین میں یہ قدغن ہے کہ 90 دن کے اندر انتخابات ہونے ہیں، ٹائمنگ آصف زرداری نے طے کرنی ہیں، نہ شہباز شریف اور نہ میں نے، بلوچستان، سندھ اور قومی اسمبلی کے انتخابات پر بات چیت ہو سکتی ہے، اس پر بات چیت کے ذریعے ہم ایک وقت میں الیکشن پر متفق ہو سکتے ہیں، اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہم بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پنجاب اور کے پی میں الیکشن تو آئینی بندش ہے، وکلاء کی کانفرنس میں 90 روز میں الیکشن پر کوئی دو رائے نہیں تھیں، پیپلز پارٹی کے زیرِ اہتمام کانفرنس میں 90 روز میں انتخابات پر کسی کو اعتراض نہیں تھا، آصف زرداری ان سے رہنمائی کیوں نہیں لیتے، طارق رحیم، لطیف کھوسہ، رضا ربانی سے رہنمائی لے لیں، بات چیت کے لیے پیرامیٹرز طے کرنا ہوں گے، ایک طرف ڈائیلاگ کی بات دوسری طرف انتقامی کارروائی کر رہے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ علی زیدی اور سیکریٹری جنرل کے پی علی امین گنڈا پور گرفتار ہیں، میں روز پیشیاں بھگتا رہا ہوں، عمران خان پر نئے کیسز بنائے جا رہے ہیں، بات چیت کے لیے ماحول بنانا ہوتا ہے، یہ انتقامی کارروائی کر رہے ہیں، مذاکرت کی ان کی کوئی نیت نہیں، یہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں، یہ آئین کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں، سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ توہینِ عدالت کر رہے ہیں، ملک کو انارکی میں دھکیل رہے ہیں۔
سابق وزیرِ خارجہ نے کہا کہ معیشت بیٹھ گئی ہے، آئی ایم ایف پروگرام اٹکا ہوا ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں، ڈائیلاگ سے ہمیں انکار نہیں، پہلے وہ اپنی صفوں کو تو درست کریں، فضل الرحمٰن ڈائیلاگ نہیں چاہتے، ن لیگ کا ایک دھڑا بھی نہیں چاہتا، پہلے آپ اپنے گھر کو ٹھیک کریں پھر ہم سے رابطہ کریں، آرمی چیف نے کہا ہے کہ 2 چیزیں مقدم ہیں، منتخب نمائندوں کی رائے، آئینِ پاکستان، ہم دونوں پر متفق ہیں، ہم تو کہہ رہے ہیں آئین کا احترام کرو۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین کہتا ہے کہ 90 دن کے اندر انتخابات کراؤ، آپ کراتے کیوں نہیں، عوام کی رائے کا تب پتہ چلے گا جب آپ عوام کے پاس جائیں گے، ان میں اتنی ہمت نہیں کہ 9 ممبران کو اسمبلی میں بٹھا دیں، ہمارا نوٹیفکیشن معطل ہو گیا، کیس عدالت میں ہے، سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہیں، ان چیزوں پر بحث کرنی ہے تو پوری پارلیمنٹ بٹھائیں، ڈائیلاگ آئین کے اندر ہو گا، ہم اس کے لیے تیار ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومتِ وقت اور لوگوں کا تعاون انہیں درکار ہوتا ہے وہ ہم دینے کے لیے تیار تھے، الیکشن سے فرار کے لیے کہہ دینا کہ صورتِ حال بگڑ گئی ہے، ذمے دار وہ تھے، یہ غلط ہے، انہوں نے آپریشن کی بات کی، علی وزیر، محسن داوڑ، مولانا فضل الرحمٰن کو قائل کیا، آپریشن کے لیے ان کی اپنی صفوں میں یک سوئی نہیں ہے۔