پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی لڑائی نے میڈیا کو بہت مصروف کر دیا ہے۔ دیگر صحافیوں کی طرح میں بھی اس لڑائی کی وجہ سے بہت مصروف ہوں لیکن مدثر نارو کی ماں کو میری مصروفیت کا کوئی احساس نہیں۔ جب سے رمضان شروع ہوا ہے وہ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی وائس مسیج بھیج دیتی ہے اور اللّٰہ کا واسطہ دے کر کہتی ہے کہ میرا بیٹا مدثر پانچ سال سے لاپتہ ہے، بس اس رمضان میں اسے مجھ سے ملوا دو میں وعدہ کرتی ہوں کہ وہ خاموش رہے گا اور کسی کو کچھ نہیں بتائے گا کہ اسے کہاں رکھا گیا۔ اس دکھی ماں کا پیغام سن کر میں سوچتا ہوں کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ سے لے کر پنجاب تک ہزاروں مائیں اپنے لاپتہ بیٹوں کی تلاش میں بھٹک رہی ہیں۔ ان مائوں کو نہ تو سپریم کورٹ انصاف دیتی ہے نہ ہی پارلیمنٹ ان مائوں کے جگر کے ٹکڑے واپس لانے کیلئے برق رفتاری سے کوئی قانون بناتی ہے۔ یہ مائیں مجھ جیسے صحافیوں کو پریشان کرتی رہتی ہیں۔ ان مائوں کو احساس ہی نہیں کہ اگر میں ان کے بیٹوں کی بازیابی میں الجھ گیا تو پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی لڑائی سے جڑے سنسنی خیر واقعات عوام تک پہنچا کر ان کے بلڈ پریشر میں اضافہ کون کرے گا؟
کل مجھے ایک معروف وکیل نے فون کیا اور پوچھا کہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی لڑائی میں آپ کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ میں نے فوراً کہا کہ جناب میں تو صرف آئین کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انہوں نے جھٹ سے کہا کہ ہم حرمت آئین پر ایک سیمینار کر رہے ہیں کیا آپ اس میں تقریر کے لئے وقت نکالیں گے؟ یہ سن کر میں نے تلخ لہجے میں کہا کہ کچھ سال پہلے بھی ہم نے حرمتِ آئین کے نام پر ایک چیف جسٹس کا اندھا دھند ساتھ دیا تھا اور کئی ماہ تک پابندیوں کا شکار رہے۔ وکلا اور میڈیا کی بھرپور حمایت کے باعث وہ چیف جسٹس پاکستان کے سیاستدانوں سے زیادہ پاپولر ہوگیا لیکن انجام یہ ہوا کہ موصوف نے انصاف پر مبنی فیصلے کرنے کی بجائے پاپولر فیصلے کرنے شروع کردیئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی جماعت بنا کر صدارتی نظام کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا اس لئے میں حرمت آئین کے نام پر کسی ایسے چیف جسٹس کی حمایت کیلئے تیار نہیں جو دوبارہ افتخار محمدچودھری بننا چاہتا ہے۔ وکیل صاحب نے پوچھا کہ کیا آپ حکومت کیساتھ کھڑے ہیں؟ میں نے بتایا کہ نہ حکومت کیساتھ کھڑا ہوں نہ چیف جسٹس کے ساتھ کھڑا ہوں میں تو آئین کیساتھ کھڑا ہوں اور اگر آپ بھی آئین کیساتھ کھڑے ہیں تو پھر یہ بتایئے کہ چیف جسٹس صاحب نے ہمارے ساتھی ارشد شریف کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے ویسی پھرتی کیوں نہیں دکھائی جیسی پھرتی وہ الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے دلوانے کے لئے دکھا رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے مدثر نارو کی ماں کو انصاف دلانے کے لئے پھرتی کیوں نہ دکھائی حالانکہ اس ماں کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ اس کابیٹا جلد ہی واپس آ جائے گا؟کسی کو اچھا لگے یا برا لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ دونوں آئین کی ان دفعات پر اچھل کود کر رہے ہیں جن دفعات کے ساتھ ان کے اپنے مفادات وابستہ ہیں۔ جن دفعات کے ساتھ عوام کا مفاد وابستہ ہے ان دفعات پر عمل درآمد کے لئے ان دونوں اداروں میں بیٹھی شخصیات کا ضمیر نہیں جاگتا۔ زیادہ دور نہ جائیں، میری ہی مثال لے لیں، ہر سال جب 19اپریل قریب آتاہے تو عالمی میڈیا کے نمائندے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ 19اپریل 2014ء کو آپ پر کراچی میں قاتلانہ حملے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک تین رکن انکوائری کمیشن بنا تھا، اس کمیشن کی رپورٹ آئی یا نہیں آئی؟ کمیشن کی تشکیل نو سال قبل ہوئی تھی اور نو سال سے میں بتا رہا ہوں کہ کمیشن کی رپورٹ نہیں آئی۔ کسی چیف جسٹس نے آج تک یہ ضرورت محسوس نہیں کی اس کمیشن کی رپورٹ ہی جاری کردے۔ میرا شہید ساتھی ارشد شریف اپنی زندگی میں بیرسٹر شعیب رزاق کے ذر یعہ اس کمیشن کی رپورٹ کے حصول کے لئے عدالتوں میں درخواستیں دائر کرتا رہا اور آخر کار وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے کہا کہ حامد میر کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانا قومی مفاد میں نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کمیشن کی رپورٹ سامنے آ جاتی تو ارشد شریف کی جان نہ جاتی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی کمیشن کی رپورٹ اس لئے سامنے نہیں آئی کہ میں نے اس کمیشن کے سامنے ایک سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی کو قاتلانہ حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ سامنے نہ آنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں نے وہ وجوہات ٹھوس شواہد کے ساتھ بیان کی تھیں جو مجھ پر قاتلانہ حملے کا محرک تھیں اور ان میں تین وجوہات بڑی اہم تھیں۔ پہلی یہ کہ مجھے کہاگیا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھانا بند کرو، بلوچستان کے مسئلے کو اجاگر مت کرو اور جنرل پرویزمشرف کے ٹرائل پر اصرار نہ کرو۔ ان تینوں معاملات کا تعلق صرف اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بلکہ عدلیہ سے بھی تھا۔ اگر اعلیٰ عدلیہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کھڑی ہو جاتی تو شاید مجھ جیسے کمزور صحافی کو گولیاں مار کر خاموش کرانے کی کوشش نہ کی جاتی۔ افسوس کہ عدلیہ نے کچھ عرصہ تک اس معاملے پر توجہ دی اور پھر چپ سادھ لی۔ پچھلے سال اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رکن قومی اسمبلی اختر مینگل کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا جس میں اسد عمر، رضا ربانی، سینیٹر کامران مرتضیٰ، سینیٹر مشاہد حسین اور افراسیاب خٹک شامل تھے۔ اس کمیشن سے کہا گیا کہ پاکستان کی مختلف جامعات سے بلوچ طلبہ کی گمشدگی اور ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی وجوہات تلاش کی جائیں۔ اس کمیشن نے فروری 2023ء میں اپنی رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی لیکن اس دوران اطہر من اللّٰہ سپریم کورٹ چلے گئے۔ کیا اس رپورٹ کو منظر عام پر لانا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں؟ یہ رپورٹ دراصل پارلیمینٹ اور عدلیہ کے اشتراک عمل کی ایک مثبت مثال ہے۔ مجھے بھی اس کمیشن میں بلایا گیا اور میرا بیان ریکارڈ کیا گیا لہٰذا میں جانتا ہوں کہ اس کمیشن کو 31بلوچ طلبہ کی فہرست دی گئی جو صرف اسلام آباد سے لاپتہ ہوئے اور کمیشن نے مزید 69طلبہ کی بھی نشاندہی کی جو پاکستان کے دیگر شہروں سے غائب کئے گئے۔کیا سپریم کورٹ کے لئے یہ معاملہ اہم نہیں ہے؟ گستاخی معاف! پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آئین کی بالادستی کی نہیں بلکہ اپنی اپنی بالادستی کی لڑائی میں مصروف ہیں اگر انہیں واقعی آئین کی فکر ہوتی تو پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی ناک کے نیچے سے اسلام آباد میں بلوچ طلبہ غائب نہ ہو رہے ہوتے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نوے دن کے اندر پنجاب میں الیکشن کرانا ہے۔ میں بھی نوے دن میں الیکشن کا حامی ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس صرف سیاسی معاملات میں پھرتی کیوں دکھاتے ہیں؟ مدثر نارو اور اس جیسے ہزاروں لاپتہ پاکستانیوں کی مائوں کو انصاف دلانا ان کی ترجیح میں کیوں شامل نہیں؟۔