لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ملک بھر میں مقدمات کے اندراج کے خلاف عمران خان کی درخواست فل بینچ کے روبرو سماعت کے لیے چیف جسٹس کو بھجوا دی۔
دورانِ سماعت چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں پیش ہو گئے۔
جسٹس طارق سلیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی جس میں جسٹس فاروق حیدر بھی شامل تھے۔
دورانِ سماعت عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری مشینری کا عمران خان کے خلاف بھرپور استعمال ہو رہا ہے، آج کے دن تک ان کے خلاف 141 کیسز درج ہو چکے ہیں، ہم نے 121 کیسز کی تفصیلات درخواست کے ساتھ لگائی ہیں، جو اندراجِ مقدمات کا سلسلہ چل رہا ہے، عدالت اسے روک دے، تمام کیسز میں مدعی پولیس خود ہے، ہر چیز کی ایک لمٹ ہوتی ہے، وزیر آباد واقعہ سامنے ہے، اس میں بھی مدعی ہمیں نہیں بننے دیا گیا، ظلِ شاہ کیس میں بھی والد کو باہر کر کے پولیس کو مدعی بنا دیا گیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اگر آپ کا مؤقف ریکارڈ ہو گیا ہے تو پھر یہ مسئلہ نہیں رہتا۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہر کیس میں دہشت گردی کی دفعہ لگ رہی ہے، عدالت اختیارات کے غلط استعمال پر خاموش نہیں رہ سکتی، پنجاب کے 80 کیسز ہیں، ہمیں سب محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے، اس درخواست میں عمران خان کا پیش ہونے کا فیصلہ درست ہے، روز آ کر ضمانت لینا تو مسئلے کا حل نہیں ہے، اب عید آنے والی ہے جب عدالت کام نہیں کر رہی ہو گی، ابھی تک کسی کیس میں پولیس کو عمران خان کی تحویل کی ضرورت نہیں، ان دنوں پولیس کی جانب سے زمان پارک پر پھر دھاوا بولنے کی توقع ہے، ان دنوں پولیس کو نیا مقدمہ درج کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے سوال کیا کہ کیا ایسی کوئی روایت ہے؟
اس موقع پر عمران خان نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ وہاں آپریشن نہیں ہو گا، اب ان عید کی چھٹیوں میں انہوں نے آپریشن کرنا ہے، میرے پاس مصدقہ اطلاع ہے کہ یہ آپریشن کرنا ہے، عدالت انہیں روکے، یہاں تو جنگل کا قانون چل رہا ہے، پکڑ پہلے لیتے ہیں پھر الزام بتاتے ہیں، اس آپریشن کی وجہ سے وہاں خون خرابہ ہو سکتا ہے، یہ الیکشن لڑنے سے ڈرے ہوئے ہیں، میں اس خطرے سے پہلے آگاہ کر رہا ہوں کہ یہ سب ہونا ہے۔
عمران خان کے وکیل نے دوبارہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عید کے دنوں میں تو بارڈر پر سکون ہی رہتا ہے، الیکشن ہونے جا رہے ہیں، ایسے اقدامات تو الیکشن سے روکنے کے مترادف ہیں، ایک سیاسی رہنما کو گرفتاری سے ڈرا کر عوام میں جانے نہیں دیا جا رہا۔
عمران خان کے وکلاء نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد پنجاب حکومت کے وکیل سرور نہنگ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تفتیش کرنے کے لیے عدالت سے اجازت کی استدعا قانون کے مطابق نہیں، عدالتیں ایسی استدعا کو مسترد کرتی آئی ہیں۔
پنجاب حکومت کے وکیل کے دلائل پر عمران خان کے وکلاء کے قہقہے گونج اٹھے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ایک سوال آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں، پرانے کیسز میں تو تحویل کی ضرورت نہیں ہے، نئے کیس درج ہونے پر کیوں کارروائی کرنا چاہتے ہیں؟
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ایسی پٹیشن فائل کیسے ہو سکتی ہیں، عدالت کے پاس ایسی درخواست قابلِ سماعت نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی پنجاب حکومت کے وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے۔
’’آئین وزیرِ اعظم کو فریق بنانے کی اجازت نہیں دیتا‘‘
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ درخواست میں وزیرِ اعظم کو فریق بنایا گیا ہے، یہ نکتہ ہم نے نوٹ کیا ہے، آئین پٹیشن میں وزیرِ اعظم کو فریق بنانے کی اجازت نہیں دیتا، اس نکتے کی حد تک درخواست درست نہیں ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اگر کوئی داد رسی نہ بچے تو ہائی کورٹ کے پاس اختیار ہے، ہمارے پاس کوئی داد رسی نہیں رہی، اس لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا، سرکاری مشینری کا ایسا استعمال کبھی نہیں ہوا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ پنجاب حکومت کے وکیل نے حمزہ شہباز اور مریم نواز کے کیسز کے حوالے دیے ہیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ وہ نیب کے کیسز تھے۔
عدالت نے کہا کہ وہ بھی تو سیاسی لوگوں کے کیس تھے۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ اب کریمنل jurisprudence آخری سانسیں لے رہی ہے، ایسی پٹیشن فائل کیسے ہو سکتی ہیں؟ عدالت کے پاس ایسی درخواست قابلِ سماعت نہیں ہے۔
اس موقع پر عمران خان دوبارہ روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ آپ کے حکم کے باوجود انہوں نے وہاں ہلہ بول دیا، یہ تو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کر جاتے ہیں، میں تو اس خون خرابے کو روکنے کی کوشش کر رہا ہوں، ہمیں اس سسٹم پر یقین ہی نہیں رہ گیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ہم کچھ دیر بعد دوبارہ آتے ہیں، جس کے بعد جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس فاروق حیدر چیمبر میں چلے گئے اور سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
کچھ دیر بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو 2 رکنی بینچ نے درخواست فل بینچ کے روبرو سماعت کے لیے چیف جسٹس کو بھجوا دی۔
عدالت نے کہا کہ اسی نوعیت کی ایک درخواست پہلے بھی ہم فل بینچ کو بھجوا چکے ہیں۔
سماعت مکمل ہونے کے بعد عمران خان کمرۂ عدالت سے روانہ ہو گئے۔
ملک بھر میں مقدمات کے اندراج کے خلاف عمران خان کی درخواست عدالتِ عالیہ میں دائر ہے۔
اس موقع پر عدالتِ عالیہ اور اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔