سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز ایک مفصل ٹی وی انٹرویو میں ملک کی موجودہ صورت حال کا بڑی دل سوزی کے ساتھ نہایت بصیرت افروز تجزیہ کیا ہے۔ سیاسی قیادت کے باہم دست و گریباں رہنے کی صورت میں غیرآئینی اقدام کے خطرے سے متنبہ کرنے کیساتھ ساتھ انہوں نے ملک کی کشتی کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کیلئے درست راستہ بھی تجویز کیا ہے۔ اس رائے کے اظہار کے باوجود کہ موجودہ عسکری قیادت کسی غیرآئینی راستے کو اختیار کرنے کی سوچ نہیں رکھتی انہوں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ ماضی میں فوج اس سے بہت کم سنگین حالات میں مداخلت کرتی رہی ہے چنانچہ معاشی اور سیاسی ابتری بڑھتی رہی تو عسکری قیادت کے نزدیک غیرآئینی حل ناگزیر ہوسکتا ہے لہٰذاقومی امور کے کلیدی شراکت داروں کو جلدازجلد بامقصد بات چیت کے ذریعے تعطل اور انتشار پر قابو پانا ہوگا۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان نے آج سے زیادہ سنگین معاشی اور سیاسی صورت حال پہلے کبھی نہیں دیکھی جبکہ کسی بھی ملک میں معاشرے اور اداروں میں تقسیم و تفریق بہت گہری ہوجائے تو انارکی پھیلتی ہے اورپھر فوجی انقلاب رونما ہوتے ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اگر پاکستان میں فوج اقتدار سنبھالتی ہے تو حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہونگے۔ سابقہ حکومت کی چار سالہ مایوس کن کارکردگی کے بعد ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میں شامل تمام جماعتیں بھی اپنے بارہ ماہ پورے کرچکی ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک کوئی کارکردگی نہیں دکھائی جو آئینی اور ادارہ جاتی ، سیاسی اور عدالتی نظام اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی ہے ۔اس سوال پر کہ کیا فوج کو سیاسی تعطل کوختم کرنے کیلئے صوابدیدی کردار ادا کرنا چاہئے، شاہد خاقان نے کہا کہ اداروں کے سربراہان کے مل بیٹھنے اور ملک کیلئے کوئی حل نکالنے کی کوشش پر کوئی پابندی نہیں بلکہ درحقیقت یہ ان کی ایک ذمہ داری ہے۔ انہوں نے صراحت کی کہ ’’ہمارے ہاں ایک غیر معمولی صورتحال ہے اور ہمیں ایک غیر معمولی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انتخابات کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ انتخابات نے ہمیشہ حل فراہم کیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس بار ایسا نہیں ہوگا، حالات کو سنبھالنا کسی کیلئے بھی محال نظر آتاہے کیونکہ مروجہ نظام میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔‘‘ سابق وزیر اعظم نے نہایت درست نشان دہی کی کہ اگر مذاکرات کا مقصد صرف انتخابات کی تاریخ یا کسی کے سیاسی فائدے کا فیصلہ کرنا ہے تو اس مشق سے کوئی بہتری ممکن نہیں ۔ مفاہمت میں دوست ملکوں کے کردار کے نتیجہ خیز ہونے سے بھی انہوں نے مایوسی ظاہر کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ ہمیں ملک کے اندر ہی سے حل نکالنا ہوں گے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ قیادت حالات کی سنگینی کو سمجھے ۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنے اس فکر انگیز تجزیے میں حالات کی ہمہ جہت بہتری کیلئے ملک کی کلیدی سیاسی اور عسکری قیادت یعنی مسلم لیگ (ن) کے قائدمیاں نواز شریف ،پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کے درمیان مذاکرات کو ناگزیر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں قیادت سے شروع کرنا ہوگا اور پھر سب کچھ وہیں سے چلے گا۔‘‘انہوں نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ’’ آگے بڑھنے کا واحد راستہ عقل کی بالادستی اور ملکی مفادات کیلئے ذاتی ایجنڈوں سے بالاتر ہونا ہے۔‘‘ فی الحقیقت ملک میں انتقامی و دشنامی سیاست کے برسوں سے جاری ماحول میں حکمت وتدبر پر مبنی یہ تجزیہ پوری قوم خصوصاً تمام اسٹیک ہولڈرز کی فوری توجہ کا حقدار ہے۔ ہماری ترقی و استحکام کا جو راستہ اس میں تجویز کیا گیا ہے، اسے اختیار کرنے میں اب تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ بصورت دیگر معاملات غیرآئینی حل کی طرف جاسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں قومی سالمیت خطرات سے دوچار ہوسکتی ہے۔