شیرشاہ سوری نے حقارت سے برصغیر کے لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ...... ’’یہ عجیب لوگ ہیں جو ہر جانے والے کو گالی دیتے ہیں اور ہر آنے والے کی خوشامد کرتے ہیں‘‘۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پرویز مشرف کی آمد پر پاکستان اور پنجاب تو کیا ...... لاہور کے لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں، جشن منایا اور نوافل شکرانہ ادا کئے کہ ان کی جان چھٹ گئی۔ مٹھائیوں کی تقسیم کا عالم یہ تھا کہ چند گھنٹے میں مٹھائی کی ہر دکان خالی ہوگئی۔ پھر وقت بہتا چلا گیا اور پرویز مشرف سے چند ’’غلطیاں‘‘ سرزد ہوگئیں۔ میرے نزدیک وہ غلطیاں نہیں تھیں، کام سو فیصد درست تھے لیکن ان کی ہینڈلنگ بلکہ یوں کہئے کہ میڈیا ہینڈلنگ درست نہیں تھی مثلاً شروع شروع میں پرویز مشرف کی کتوں کے ساتھ تصویر شائع ہوئی تو خاص قسم کے چمپوئوں نے شور مچا دیا کہ پرویز مشرف اہل مغرب کو اپنے ’’مغربی‘‘ ہونے کا پیغام یا تاثر دے رہے ہیں۔ پرویز مشرف کی بھوندو میڈیا ٹیم ستو پی کر لیٹی رہی حالانکہ ایسا منہ توڑ جواب دیا جاسکتا تھا کہ ان کو سانپ سونگھ جاتا۔ کیسے؟ آرمی ہائوس کے اندر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ایک انتہائی لاجواب، نایاب اور خوبصورت بلیک اینڈ وائٹ تصویر آویزاں ہے جس میں خوش لباس قائداعظمؒ سوٹ پہنے زمین پر ایک گھٹنا ٹیکے بیٹھے ہیں اور ان کے دائیں بائیں دو خوبصورت کتے ہیں، آپ کا دایاں ہاتھ ایک اور بایاں دوسرے کے اوپر ہے۔ ایک طرف کالے رنگ کا قد آور کتا جبکہ دوسری طرف کیوٹ سا پوڈل ہے۔ یہ تصویر چودھری فواد کے آفس میں بھی آویزاں ہے۔ اگر یہ نایاب تصویر عام کردی جاتی اور نیچے ’’قائد کی ایک نایاب تصویر‘‘ کا کیپشن دے دیا جاتا تو ٹھنڈ پڑ جاتی۔ اسی طرح آپ کو بھی یاد ہوگا کہ لال مسجد کے دنوں میں جب دارالحکومت اسلام آباد ’’دارالمزاح‘‘ کا منظر پیش کر رہا تھا، عوام ان لٹھ برداروں سے عاجز تھے جو کبھی چینیوں اور کبھی پولیس والوں کو اٹھا لے جاتے اور ہر روز حکومتی رٹ کا مذاق اڑاتے تو حکومت کیا کرتی؟ ایکشن تو ہونا ہی تھا، اس کا طریقہ، ہینڈلنگ بہت بودی اور بھونڈی تھی۔ اسی طر ح چیف جسٹس والا معاملہ جسے کہیں بہتر طور پر ہینڈل کیا جاسکتا تھا کہ سانپ اورلاٹھی والا محاورہ یاد آجاتا لیکن بہرحال جو ہونا ہو..... ہو جاتا ہے، ہونی کو کوئی روک نہیں سکتا لیکن میں آج بھی دعوے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ پرویز مشرف کا عہد بینظیر، نوازشریف، زرداری اور پھر نواز موجودہ دورسے کئی گنا بہتر تھا کہ یہ المیہ اپنی جگہ ’’پہلے مرغی یا پہلے انڈا‘‘ جیسا سوال ہے کہ آئین اور ملک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو بیچارہ ’’آمر‘‘ کہاں جائے کہ آئین بچائیں تو ملک کو خطرہ اور ملک بچائیں تو آئین کو خطرہ ورنہ ملکی معیشت سے لے کر میڈیا کی اندھا دھند آزادی تک کوئی کم ظرف یا کند ذہن ہی پرویز مشرف کی کنٹری بیوشن سے انکار کرسکتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ’’آمر‘‘ کی دیانت پر کبھی کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا اور اس ملک میں شاید چند لوگ ہی اس ’’آمر‘‘ کے بچوں اور سگے بھائیوں کے ناموں سے بھی واقف ہوں ورنہ باقیوں کی پرفارمنس توسامنے کی بات ہے کہ پورے پورے خاندان سمیت پاکستان کی نحیف گردن پر سوار ہو جاتے ہیں۔
مجھے یہ ساری باتیں دو باتوں پر ٹوٹ ٹوٹ کر یاد آ رہی ہیں۔ پہلی بات بلکہ خبر یہ کہ پرویز مشرف اور چودھری شجاعت میں مثبت قسم کا رابطہ ہو چکا جو ایک عمدہ پیش رفت ہے۔ چودھری صاحبان خاندانی وضعدار و روادار لوگ ہیں۔ مشکل وقت میں پرویز مشرف کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اللہ حوصلہ ہمت اور عقل دے تو ہمایوں خانوں اور خورشید قصوریوں کوبھی سوچنا چاہئے۔ انہیں اندازہ نہیں کہ لوگ دوبار ڈسے جانے کے بعد کس شدت سے پرویز مشرف اور اس کے عہد کو یاد کر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں بظاہر زیرو دکھائی دینے والا پرویز مشرف ایک ایسا زیرو ہے جس کے ساتھ ’’ایک‘‘ کا اضافہ ہو جائے تو وہ زیرو سے یکدم دس (10) ہو جائے گا۔ پرویز مشرف کی بکھری ہوئی مقبولیت کو سمیٹنے والے دوچار سیانے بھی مل جائیں تو منظر قابل دید بھی ہوسکتا ہے۔
دوسری بات جس نے مجھے اس کالم کے لئے اکسایا..... وہ ہے پرویز مشرف کا اک تازہ ترین انٹرویو جس میں قیدی نے کہا ......
’’بھاگنا نہیں سیکھا، ملک کے لئے لڑوں گا،100 ٹرائل کرلیں۔‘‘
’’ملک کو زمین سے آسمان پر لے گیا۔ عوام کو دھوکہ دیا جارہا ہے کہ جمہوریت آمریت سے بہتر ہے۔‘‘
’’کوئی غلطی ہوئی تو کھلے دل سے معافی مانگتا ہوں۔ طالبان سے مذاکرات درست نہیں۔‘‘
اس نے کہا ..... ’’ملک کےلئے جان بھی حاضر ہے۔ ڈرنے والا نہیں، مقدمات کا سامنا کروں گا۔ ہر کیس فراڈ ہے۔ ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ جو اسے خوشحالی دیتا ہے اسے مفرور قرار دیا جاتا ہے۔ میرے لئے ملکی خزانے کا ایک پیسہ حرام ہے۔ خود آیا ہوں کہ لڑنا سیکھا ہے، بھاگنا نہیں۔‘‘
چند سال پہلے لندن میںایک ملاقات کے درمیان جنرل نے رواروی میں ایک جملہ کہا جو میرے نزدیک بہت قیمتی تھا اس لئے آج بھی کانوں میں گونج رہا ہے۔
’’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں اس عمر میں اقتدار کے لئے سیاست میں آ رہا ہوں تو وہ جاہل ہے یا پاگل، میرا خوف اور خدشہ یہ ہے کہ یہ د ونوں اس ملک کے عوام کو برباد کرکے رکھ دیں گے۔ یہ پاکستان کو کھوکھلا کر دیں گے، یہ اس کی معیشت کا ستیاناس کردیں گے اور لوٹ مار کی نئی تاریخ رقم کریں گے۔ مجھے اقتدارنہیں، پاکستان کے استحکام اور وقار کی فکر ہے۔‘‘