• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلو بجائے خود بہت توجہ طلب ہے کہ ایک ایسا ملک جو آئینی زرائع اور قانونی مباحث کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا، آزادی کے بعد مستقل آئینی بحرانوں سے دوچار رہا ہے۔ آزادی کے بعد کے تئیس چوبیس سال تو ملک کو سرزمینِ بے آئین بھی کہا جاتا رہا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس زمانے میں آئین نہیں تھا بلکہ اس عرصے میں جو آئین بنے وہ جاری نہیں رہ سکے اور ایک قابل عمل مستقل آئین کی تلاش کا عمل جاری رہا۔ آزادی کے بعد کے نو برس 1935ء کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ملک کے عبوری دستور کی حیثیت سے نافذ رہا۔ 1956ء میں پہلا آئین بنا جو عوام کے براہ راست منتخب کردہ نمائندوں کے بجائے ایک ایسی آئین ساز اسمبلی نے بنایا جس کے اراکین کا انتخاب بالواسطہ طور پر، یعنی صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے سے کیا گیا تھا۔

1962ء کادستور فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنوایا اور نافذ کیا۔بعد ازاں اس کی توثیق قومی اسمبلی سے کروائی گئی جو خود بھی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب نہیں ہوئی تھی بلکہ بالواسطہ طور پر بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے ذریعے اس کا انتخاب ہوا تھا۔ 1969ء میں اس آئین کو خود اس کے خالق جنرل ایوب خان نے منسوخ کردیا۔ بعد ازاں ایک بڑے بحران سے گزر کر جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوا،ہم ایک دستور بنانے میں کامیاب ہوئے جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اور براہ راست طور پر منتخب ہونے والی اسمبلی نے بنایا تھا اور جس کو اسمبلی میں موجود جملہ سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل تھی۔

1973ء کے اس دستور کا بننا بظاہرآئینی بحرانوں سے گلوخلاصی اور نجات کا پیغام لے کر آیا تھا لیکن ایسا ممکن نہیں ہوا۔ یہ دستور گوکہ توڑا تو نہیں گیا مگر دو مرتبہ معطل ضرور ہوا۔ یہی نہیں بلکہ1973ء کے آئین سے پہلے اور اس کے بعد بھی ملک جن آئینی بحرانوں سے دوچار رہا، ان پر غائر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آئینی نظام کی عدم موجودگی تو بحران کا ایک واضح سبب تھی ہی مگر آئین کے بننے کے بعد بھی بحرانوں کا تسلسل ہماری ریاست کے چند بنیادی نقائص اور تضادات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

پاکستان میں آئینی بحرانوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے توبنیادی طور پر چار قسم کے آئینی بحران ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اول، وہ بحران ہیں جو مستقل آئین کی عدم موجودگی ، یا کسی آئین کے معطل کیے جانے کے بعد ، متعارف کیے جانے والے عبوری نظاموں کا نتیجہ تھے۔ مثلاً 1954ء میں دستور ساز اسمبلی کا توڑا جانا جبکہ یہ اسمبلی ایک مستقل دستور بنانے کے بہت قریب پہنچ چکی تھی، ایک بڑے بحران کا سبب بنا۔اسی طرح 1970ء میں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے مگر یہ اسمبلی متحدہ پاکستان کے لیے دستور نہیں بنا سکی یا اس کو دستور بنانے سے باز رکھا گیا۔یہاں تک کہ ملک دو لخت ہوا اور آبادی کے لحاظ سے اس کا سب سے بڑا صوبہ علیحدہ ہوکر ایک الگ ملک بن گیا۔

دوم ، وہ بحران ہیں جو ملک میں چار مرتبہ فوج کی جانب سے آئینی نظام کو ختم کرکے یا اس میں خلل ڈال کر اقتدار میں آنے کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔1958ء ، 1969ء اور 1977ء کے فوجی شب خون، مارشل لاء کے نام سے آئے جبکہ 1999ء کے فوجی شب خون نے مارشل لاء کا لفظ استعمال نہیں کیا۔اسی طرح ابتدائی دو مارشل لاء آئین کے خاتمے کے بعد نافذ ہوئے جبکہ 1977ء اور 1999ء کے فوجی اقتدار نے آئین کو ختم کرنے کے بجائے اس کے معطل کیے جانے کا اعلان کیا۔ ماضی کے یہ چاروں فوجی اقدامات شدید نوعیت کے آئینی بحرانوں کی شکل میں ظاہر ہوئے اور ان میں ملک کی عدالتوں کو ایک کردار ادا کرنا پڑاجو بحیثیت مجموعی ان اقدامات کی توثیق اور ان کو قانونی جواز فراہم کرنے کا وسیلہ بنا۔ ان عدالتی فیصلوں کے حوالے سے کچھ مزید گفتگو ہم آگے چل کر کریں گے۔

سوم ، وہ آئینی بحران جو آئین بننے کے باوجود اس پر عملدرآمد کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا نتیجہ تھے۔ اس ضمن میں خاص طور سے 1973ء کے دستور کے متعارف کیے جانے کے بعد ابھرنے والے ان بحرانوں کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے جو ہمارے آئین کی دَرونی اور داخلی کمزوریوں کا شاخسانہ بھی تھے اور آئین کے بنیادی فلسفے سے انحراف کا نتیجہ بھی۔ کسی بھی آئین میں تضادات بھی ہوسکتے ہیں اور متناقض شقیں بھی۔ بعد میں آنے والے ان بے قاعدہ اور غیر ہم آہنگ شقوں کی اصلاح کرسکتے ہیں اور اس کے لیے ہر آئین میں ترمیم کا ایک باقاعدہ طریقۂ کار بھی تجویز کیا جاتا ہے۔

ہمارے یہاں ایسے تضادات کو بعض صورتوں میں حل بھی کیا گیا ہے مگر بہت سے تضادات اب بھی آئین کے اندر موجود ہیں جو شاید مستقبل میں ترامیم کا موضوع بنیں۔ جہاں تک آئین کے بنیادی فلسفے پر عملدرآمد کے نہ کیے جانے کا تعلق ہے ،اس کی بھی بہت سی مثالیں ہمیں اپنی تاریخ میں مل جاتی ہیں۔ ہمارا آئین بنیادی طور پر ’تقسیمِ ثلاثی‘(Trichotomy of powers) کے فلسفے پر استوار ہوا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ مقننہ (Legislature)، انتظامیہ (Executive) اور عدلیہ(Judiciary)اپنا علیحدہ وجود رکھتی ہیں اور ان کے دائرہ ہائے کار دستور میں واضح کردیے گئے ہیں ۔یہ ضرور ہے کہ چونکہ ملک نے پارلیمانی طرز حکومت کو اختیار کیا ہے لہٰذا مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان ایک تعلق اور رشتہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دائرہ کار میں غیر ضروری طور پر مداخلت بھی کرتے رہیں۔

عدلیہ کا تو انتظامیہ اور مقننہ کے مقابل اپنا ایک بالکل واضح دائرہ کار ہے جو اس کو انتظامیہ اور مقننہ کے معاملات میں مستقل مداخلت سے روکتا ہے۔ انتظامیہ کے بعض فیصلے اوراقدامات یقیناً عدالتوں میں زیر بحث آسکتے ہیں لیکن عدالتیں براہ راست طور پر کابینہ اور انتظامیہ کے کاموں مداخلت نہیں کرتیں۔یہی صورت مقننہ کی بھی ہے جس کی کاروائی اور فیصلے عدلیہ کی مداخلت سے محفوظ ہوتے ہیں ،سوائے ایسے فیصلوں اور اقدامات کے جو آئین سے متصادم ہوں۔

چہارم، ملک کی تاریخ میں ایسے بھی بہت سے بحران آتے رہے ہیں جو براہ راست طور پر آئین سے یا آئین شکنی سے تو متعلق نہیں تھے لیکن جن کا تعلق عدلیہ سے ضرور تھا جو آئین کی پاسدار ہونے کے ناطے ایک بہت اہم کردار کی حامل ہے۔ عدلیہ سے متعلق بحران خود اس کے کردار اور اس کے داخلی مسائل کا نتیجہ رہے ہیں۔ ججوں کا خلاف ضابطہ تقرر ،اس تقرر میں سینیارٹی کے اصول کی عدم پاسداری ،کسی مقدمے کو سننے کے لیے، چیف جسٹس کی طرف سے اپنی صوابدید پر بنچ تشکیل دینے کا اختیار اور اس کے مضمرات، ججوں کی برادری کے باہمی اختلافات یا کسی ایک یا دوسرے جج کا انتظامیہ کی طرف سے ہدف بن جانا ، ایسے بحران کو جنم دے سکتا ہے جس کا اثر پورے عدالتی نظام پر ، عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات پر ، اور سب سے بڑھ کر تقسیم ثلاثی کے اصول پر پڑ سکتا ہے ۔پاکستا ن میں جسٹس سجاد علی شاہ کا بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں سے جھگڑا اور جسٹس افتخار چوہدری کا جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ہدف بنایا جانا ، اس کی مثالیں ہیں۔

مذکورہ بالا چاروں قسم کے بحرانوں میں سب سے اہم، دوررس نتائج کے حامل، اور ریاست کے سارے تاروپود کو ہلا ڈالنے والے بحران وہ رہے ہیں جو آئینی نظام کو ختم کرنے یا اس میں خلل ڈالنے کے فوجی اقدامات کا نتیجہ تھے۔ ایسے اقدامات کیونکہ ملک میں چار مرتبہ ہوئے لہٰذا انہی سے متعلق چار بحران ہماری آئینی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کہے جاسکتے ہیں لیکن ملک کے عمومی سیاسی و جمہوری ارتقا کے تناظر میں 1954ء کے دستور ساز اسمبلی کو توڑے جانے کے اقدام کو بھی ملک کے اہم ترین آئینی بحرانوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔ یہاں ہم اس بحران اوربعد کے ، فوجی مداخلت سے متعلق بحرانوں کا تذکرہ کریں گے۔

آئین ساز اسمبلی کی تحلیل

آزادی کے سات سال بعد 27اکتوبر1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا اقدام پاکستان کے پہلے بڑے آئینی بحران کا سبب بنا۔ اس اقدام کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ جہاں ایک طرف آئین سازی میں اس وجہ سے تاخیر ہورہی تھی کہ مختلف صوبوں ، خاص طور سے پنجاب اور مشرقی بنگال کے درمیان نمائندگی کے مسئلے پر اتفاق رائے نہیں ہوپارہا تھا، وہاں دوسری طرف مختلف صوبوں میں انتخابات کا عمل پنجاب (مارچ 1951ء)، صوبہ سرحد(دسمبر1951ء)، اور سندھ(مئی1953ء) سے ہوتا ہوا مارچ 1954ء میں جب مشرقی بنگال پہنچا تو باقی تین صوبوں کے برعکس میں جہاں مسلم لیگ کسی طور اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی ، مشرقی بنگال میں اس کو حزب اختلاف کے متحدہ محاذ جگتو فرنٹ یا یونائیٹڈ فرنٹ کے ہاتھوں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

جگتو فرنٹ صوبائی خود مختاری کے مطالبے کے ساتھ منظر عام پر آیا تھا اور اس میں شامل جماعتیں اس موضوع پر کسی مصالحت کے لیے آمادہ نہیں تھیں۔ مرکز میں مسلم لیگ کی حکومت جو افسر شاہی کی پشت پناہی سے قائم تھی، مشرقی بنگال سے ابھرنے والے صوبائی خود مختاری کے اس رجحان سے سخت خوفزدہ تھی۔اس سے زرا قبل 3 اکتوبر 1953ء کووزیر اعظم محمد علی بوگرا ایک ایسا آئینی فارمولا بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے جس کی رو سے صوبوں کے درمیان نمائندگی کا مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔اس فارمولے کو آئین ساز اسمبلی کی تائید بھی حاصل ہوگئی اور یوں سات سال سے جاری آئین سازی کا بحران بالآخر ایک بڑی کامیابی کی طرف بڑھ رہا تھالیکن قبل اس کے کہ یہ مرحلہ آتا، آئین ساز اسمبلی نے عبوری دستور، جس کے تحت ملک چل رہا تھا ، میں بعض اہم ترامیم متعارف کردیں۔

21ستمبر 1954ء کو اسمبلی نے چند ایسی ترامیم منظور کیں جن کی رو سے گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کردینے کی کوشش کی گئی ۔اسمبلی کے اراکین یہ دیکھ چکے تھے کہ کس طرح گورنر جنرل نے سابق وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو ان کے عہدے سے الگ کیا تھا لہٰذا ایک ایسے موقع پر جبکہ گورنر جنرل دارالحکومت کراچی میں موجود نہیں تھے ،اسمبلی نے محض دس منٹ کے اندر وہ چار اہم ترامیم منظور کرلیں جو گورنر جنرل کے اختیار ات کو کم کرنے اور نظام کو حقیقی پارلیمانی نظام کے قریب لانے کا راستہ کھولتی تھیں۔

ان ترامیم میں پہلی ترمیم کے ذریعے گورنر جنرل کو پابند کیا گیا کہ وہ وزیراعظم کے منصب پر اسی شخص کو نامزد کریں گے جسے اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہوگا۔ دوم، کابینہ کے سارے وزراء اسمبلی سے لیے جائیں گے ۔سوم، کابینہ اجتماعی طور پر اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہوگی ۔اور چہارم،گورنر جنرل کابینہ کے مشوروں کا پابند ہوگا۔

گورنر جنرل کے لیے یہ اقدامات جن کو انقلابی حیثیت حاصل تھی کسی طور قبول نہیں ہوسکتے تھے۔ سو وہ فوراً کراچی پہنچے اور 24 اکتوبر کوانہوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی آئین ساز اسمبلی کو یہ کہہ کر تحلیل کردیاکہ وہ اپنی نمائندہ حیثیت کھو چکی ہے، اور دستور ساز مشینری کی حیثیت سے یہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔گورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف آئین ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خان نے سندھ چیف کورٹ میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کی شق 223-Aکے تحت درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ آئین ساز اسمبلی ایک مقتدر ادارہ تھی جس کو تحلیل کرنے کا گورنر جنرل کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا ۔لہٰذا درخواست کی گئی کہ اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے مجھے کام جاری رکھنے دیا جائے۔نیز نئی تشکیل کردہ کابینہ کو ایمرجنسی پر عملدرآمداور دیگر متعلقہ اقدامات سے روکا جائے۔

سندھ چیف کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں گورنر جنرل کے اقدام کو ناجائز قرار دیا۔عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ اسمبلی کے بنائے ہوئے قوانین پرگورنر جنرل کے توثیقی دستخط ضروری نہیں ہیں لیکن اگر کسی قانون کے حوالے سے ضروری سمجھا گیاتو پھر یہ دستخط کی بھی جاسکتے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ آئین ساز اسمبلی ایک مقتدر ادارہ ہے جس کو کسی بھی قانون میں ترمیم کرنے یا اس کو ختم کرنے کا بلکہ ایک بالکل نیا آئین بنادینے تک کا اختیار حاصل ہے۔ آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کے حوالے سے سندھ کورٹ نے فیصلہ کیاکہ انڈین انڈیپینڈنس ایکٹ اس طرح کی کوئی شق نہیں رکھتا لہٰذاگورنر جنرل کا آئین ساز اسمبلی توڑنے کا اقدام سراسر غیر قانونی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ اسمبلی ایک خاص مقصد یعنی آئین سازی کے لیے وجود میں لائی گئی تھی اور اس کو اس وقت تک کام کرنا تھا جب تک کہ یہ اپنے اس فرض کی تکمیل نہ کرلیتی۔ عدالت نے اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ سنایا۔

سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت فیڈرل کورٹ میں اس درخواست کے ساتھ پہنچی کہ سندھ کورٹ کو اسمبلی کی بحالی کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ فیڈرل کورٹ جس کے سربراہ جسٹس محمد منیر تھے، نے ایک کے مقابلے میں چار ججوں کی اکثریت سے 21مارچ1955ء کو مرکزی حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا اور سندھ کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔فیڈرل کورٹ نے اس سوال پر غور کرنا ہی ضروری نہیں سمجھا کہ گورنر جنرل کو اسمبلی توڑنے کا اختیار تھا یا نہیں بلکہ اس نے اپنا فیصلہ ایک تکنیکی نکتے کے اوپر استوار کیا۔

اس کا کہنا یہ تھا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں آرٹیکل 223-Aکی ترمیم جس کو کہ پاکستان نے گورنمنٹ آف انڈیا (ترمیمی) ایکٹ کے ذریعہ اختیار کیاتھا، اس پرگورنر جنرل کے دستخط نہیں کروائے گئے تھے لہٰذا یہ قانون کی حیثیت نہیں رکھتی اور اگر یہ قانون کی حیثیت نہیں رکھتی تو اس کے تحت سندھ کورٹ نے مولوی تمیز الدین کی درخواستوں پر کاروائی کا جو فیصلہ کیا وہ قانونی بنیادوںسے محروم تھا ۔کورٹ کا یہ بھی خیال تھا کہ اسمبلی چاہے آئین ساز اسمبلی کے طور پر کام کررہی ہو یا قانون سازاسمبلی کی حیثیت سے ، اس کے بنائے گئے قوانین گورنر جنرل کے دستخطوں کے بغیر قانون کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے۔

فیڈرل کورٹ کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے محل نظر تھا کہ یہ ایک معلوم حقیقت تھی کہ آئین ساز اسمبلی ایک مقتدر(sovereign) ادارہ ہے اور آئین کی رو سے اس کو حرف آخر کی حیثیت حاصل ہے ۔کامن ویلتھ کے ملکوں میں آئین سازی اور آئینی ترامیم پر گورنر جنرل کے دستخط کرانے کی پابندی موجودنہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ زیر بحث مقدمے سے قبل قائداعظم، خواجہ ناظم الدین اور غلام محمدتینوں گورنرز جنرل کے ادوار میں اس اسمبلی نے46ایسے قوانین بنائے اور وہ نافذ ہوئے جن پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں تھے۔فیڈرل کورٹ کے فیصلے نے ملک کو ایک بڑے آئینی بحران سے دوچار کردیا جو آئین ساز اسمبلی کے توڑے جانے کے اقدام سے بھی زیادہ سنجیدہ نتائج کا حامل تھا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد گورنر جنرل نے ایمرجنسی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک آرڈیننس کے ذریعے ان قوانین پر دستخط کرنے شروع کردیے جن پرپہلے گورنر جنرل کے دستخط ثبت نہیں ہوئے تھے۔اس پر یوسف پٹیل کے مشہور مقدمے کے دوران چیف جسٹس نے قرار دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قانون ساز مشینری کی عدم موجودگی میں گورنر جنرل پہلے تو خود ایک آرڈی ننس کے ذریعے قوانین کی توثیق کااختیار حاصل کرلیں اور پھر ماضی کے قوانین کی توثیق کا عمل شروع کردیں۔اس دوسرے فیصلے کے بعد قانونی مشینری کی ضرورت نمایاں ہوئی اور یوں اگلی اسمبلی کے انتخاب (بالواسطہ) کا راستہ کھلا جس نے بعد ازاں 1956ء کا دستور بنایا۔

1958ء کا مارشل لاء

7اکتوبر1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے 1956ء کے دستور کو منسوخ کردیا ، ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے برّی افواج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربنادیا۔قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی۔ مارشل لاء کے نفاذ کے صرف تین روز بعد ایک آئینی بحران اٹھ کھڑا ہواجب مشرقی پاکستان کی ہائی کورٹ نے نئے صوبائی گورنر سے اس بنا پر حلف لینے سے انکار کردیا کہ وہ ایساکس آئینی اختیار کے ساتھ کرسکتی ہے؟

یہ اور ایسے ہی دیگر قانونی مسائل کے پیش نظرنئی انتظامیہ نے ـ’قوانین کے تسلسل کا حکم نامہ مجریہ1958‘ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ گو کہ آئین ختم ہوچکا ہے لیکن جہاں جہاں ملک کے کام چلانے کے لیے ضرورت پیش آئے گی وہاں کالعدم آئین کی شقوں کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کو بھی آئین کے دیے ہوئے بعض اختیارات استعمال کرنے کا حق ہوگا البتہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور ان کی انتظامیہ کے افسروں کے احکامات اورمارشل لاء ریگولیشنز کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

اس حکمنامے کے جاری ہوتے ہی یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا اور خود سپریم کورٹ کے مشہور زمانہ ’ڈوسو کیس‘ میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا پڑا کہ آئین کی عدم موجودگی میں نئی انتظامیہ کو مذکورہ حکم نامہ جاری کرنے کا اختیار کہاں سے حاصل ہوا؟دوسرے لفظوں میں عدالت میں مارشل لاء کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا سوال زیر بحث آگیا۔عدالت نے جس کی سربراہی جسٹس محمد منیر ہی کررہے تھے، یہ قرار دیا کہ مارشل لاء نافذ کرنے والی اتھارٹی نے آئین کو منسوخ کرکے خودکو آئین سے زیادہ طاقتور حقیقت کے طور پر ثابت کردکھا یا ہے۔

لہٰذا مارشل لاء کی حیثیت ایک انقلاب کی ہے۔ ریاست چونکہ خلا میں کام نہیں کرسکتی اور مارشل لاء نے یہ ثابت کیا کہ اس نے آئین کی جگہ لے لی ہے اور ریاست میں کوئی خلا پیدا نہیں ہونے دیا۔ لہٰذا اب یہی آئینی انتظامیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں مارشل لاء کے ایک غیر قانونی اقدام کو قانونی قرار دینے کا فیصلہ سنایا، یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت بڑے آئینی بحران کا سبب بنا اور کوئی چودہ سال بعد اس وقت کی سپریم کورٹ کو اس فیصلے کی طرف ایک مرتبہ پھر متوجہ ہونا پڑا۔عاصمہ جیلانی کیس میں چیف جسٹس حمود الرحمن نے ماضی کے جسٹس منیر کے فیصلے پر شدید تنقید کی۔

عاصمہ جیلانی کیس

25مارچ 1969ء کو ایوب خان کے خلاف ملک گیر احتجاج اور ہنگاموں کے بعد ایک بار پھر مارشل لا ء لگا دیا گیا۔ایوب خان نے برّی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا، خود اپنا بنایا ہوا 1962ء کا دستور منسوخ کیا اور اس دستور میں صدر کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر کے لیے جو شق رکھی تھی اس کا استعمال نہیں کیا، اور اقتدار فوج کے سپرد کرنے کو بہتر سمجھا۔ یحییٰ خان نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کے چند روز بعد 31مارچ کو مملکت کے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔

یحییٰ خان کے ان اقدامات کو اس وقت تو عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا لیکن 20دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یحییٰ خان نے مجبوراً اقتدار اور خود مارشل لاء کا نظام پیپلز پارٹی کے رہنما ، ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کردیا تو مارشل لاء کے قانونی جواز کا سوال اٹھا۔اقتدار میں آتے ہی بھٹو نے مارشل لاء ریگولیشنز کا بے دریغ استعمال شروع کردیا۔حزب اختلاف کے رہنما ملک غلام جیلانی اور روزنامہ’ ڈان‘ کے ایڈیٹر الطاف گوہرکی گرفتاری بھی مارشل لاء ریگولیشنز کے تحت ہی کی گئی۔ملک غلام جیلانی کی بیٹی عاصمہ جیلانی اور الطاف گوہرکی بیگم زرینہ گوہر نے عدالت سے رجوع کیا۔

بات ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ تک پہنچی اور ایک مرتبہ پھر مارشل لاء کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا سوال زیر بحث آگیا۔چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں عدالت نے یہ موقف اختیار کیاکہ یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ کوئی بھی قانون کیا کسی ایسے شخص یا اتھارٹی نے بنایا ہے جو خود قانونی جواز کا حامل تھا اور کیا وہ اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک قانونی مشینری کے استعمال کی بھی اہلیت رکھتا تھا۔عدالت نے یحییٰ خان کے مارشل لاء کو غیر قانونی اور غیر آئینی اور خود یحییٰ خان کو اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والا(Usurper)قرار دیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم مقدمہ تھا لیکن یہ بھی اس وقت ہو پایا جب کہ وہ فوجی انتظامیہ اور غاصب دونوں منظر سے ہٹ چکے تھے۔

جنرل ضیا ء الحق کا مارشل لاء اور نصرت بھٹو کیس

1977ء میں عام انتخابات کے انعقاد ، حزب اختلاف کے قومی اتحاد کی طرف سے انتخابات میں بھٹو حکومت کی طرف سے دھاندلی کے الزامات، ملک گیر سیاسی ہنگاموں اور قومی اتحاد اور حکومت کے درمیان مزاکرات کی کامیابی کے باوجود 5جولائی1977ء کو فوج نے ضیاء الحق کی سربراہی میں مارشل لاء نافذ کردیا۔1973ء کے آئین میں چونکہ لکھ دیاگیا تھا کہ آئین کی تنسیخ غداری تصورہوگی جس کی سزا ، سزائے موت ٹھہرائی گئی۔ لہٰذا ضیاء الحق نے آئین کی تنسیخ کے بجائے اس کے تعطل (suspension)کا اعلان کیا۔مارشل لاء کے احکام کے مطابق بعض لیڈروں کو گرفتار کرنے کا عمل شروع ہوا، جن میں سابق وزیر اعظم بھٹو بھی شامل تھے۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنے شوہر کی گرفتاری کے خلاف پٹیشن دائر کی چنانچہ ایک بار پھر عدالت کو مارشل لاء کے جائز یا ناجائز ہونے کے سوال کا سامنا کرنا پڑا۔

بیگم بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار نے موقف اختیار کیا کہ ضیاء الحق کا مارشل لاء آئین کے آرٹیکل 6کی رو سے غداری کے زمرے میں آتا ہے اور مارشل لاء کا آرڈر نمبر15جس کی رو سے بھٹو کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ قانونی جواز سے محروم ہے۔مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے وکلا شریف الدین پیرزادہ اور اے کے بروہی نے موقف اختیار کیا کہ 5جولائی تک 1973ء کے آئین کی عملداری تھی اور اس کے بعد جب مارشل لاء لگا یا گیا تو اس کے ساتھ ہی قوانین کے تسلسل کا حکمنامہ بھی جاری کیا گیا، تاکہ معطل شدہ آئین کی جن شقوں سے ضروری ہو،فائدہ اٹھایا جاسکے۔

یہ بالکل نئی آئینی صورتحال ہے اور 5جولائی کافوجی اقدام اقتدار پر غاصبانہ قبضے کی تعریف میں نہیں آتا بلکہ یہ ایک غاصب ِاقتدار (بھٹو) جس نے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کررکھا تھا ، کو اقتدار سے الگ کرنے کا اقدام تھا۔ چیف جسٹس انوار الحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ضیا ء الحق کے مارشل لاء کو جائز قرار دیتے ہوئے قرار دیا کہ یہ آئینی راستے سے انحراف ضرورت کے پیش نظر کیا گیا ہے اور نظریۂ ضرورت کے مطابق اس کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان اپنی تاریخ کے طویل ترین فوجی اقتدار کی نذر ہوا، حالانکہ ضیاء کے وکیلوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ فوجی انتظامیہ ایک مختصر مدت کے لیے مملکت کے اقتدار پر فائز ہوئی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا فوجی اقتدار اور عدلیہ کا فیصلہ

12 اکتوبر1999ء کو فوج نے اس وقت ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کی ملک سے عدم موجودگی کے دوران وزیراعظم نے ان کو ان کے عہدے سے الگ کرنے کی کوشش کی۔فوج کے سینیئر جرنلوں نے نواز شریف کو گرفتار کرلیا اور مشرف کے سری لنکا سے واپس پہنچتے ہی انہوں نے اقتدار پر تصرف حاصل کرلیا۔ انہوں نے بھی آئین کو منسوخ کرنے کا اعلان نہیں کیا نہ ہی فوجی اقتدار کو مارشل لاء کا نام دیا۔انہوں نے اپنے لیے چیف ایگزیکیٹو کا عہدہ تخلیق کیا اور اس پر فائز ہوگئے۔ساتھ ہی انہوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ انہوں نے ایک اور اقدام یہ کیا کہ اپنے آمرانہ نظام سے وفاداری کا حلف عدالتوں کے ججوں سے لینا چاہا۔نتیجتاً سپریم کورٹ کے کئی ججوں نے یہ حلف لینے سے انکار کیا اور اپنے عہدوں سے الگ ہوگئے۔

مشرف کے اقتدار میں آنے کو بھی آئین کی تنسیخ کے بجائے اس کو تعطل میں ڈالنا قرار دیا گیا اورچیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے اس پوزیشن کو تسلیم کیا۔سپریم کورٹ نے فوج کے اقتدار سنبھالنے کو اس وقت کے حالات کا نتیجہ قرار دیا۔گویا نظریۂ ضرورت ایک بار پھر زندہ کردیا گیا۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے مشرف کو تین سال تک حکومت کرنے کا اختیار دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشرف نے بعد ازاں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ایسے راستے اختیار کیے جن پر عدالتیں گرفت نہیں کرسکیں اور وہ بحیثیت مجموعی تقریباً نو سال برسر اقتدار رہے۔

سپریم کورٹ کی اس فوجی اقتدار کی حمایت کا یہ پہلو قابل ذکر تھا کہ عدالت عظمیٰ نے 2002ء میں غیر جماعتی انتخابات منعقد کروائے۔ سویلین حکومتیں بھی قائم کیں، مگر خود چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر کے مناصب پر تقریبا ً آخر تک فائز رہے۔ اپنے اقتدار کے آخری زمانے میں انہوں نے فوج کا عہدہ چھوڑ دیا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اس منصب پر فائز ہوئے۔2008ء کے انتخابات کے بعد نئی سویلین حکومتیں وجود میں آئیں جس کے چند ماہ بعد مشرف صدارت کے منصب سے الگ کردیے گئے۔

پاکستان کے چند آئینی بحرانوں کا مذکورہ بالا احوال ملک کے سیاسی عدم استحکام کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد سے سکتا ہے۔ہماری تاریخ میں یہی آئینی بحران نہیں آئے بلکہ مختلف النوع آئینی بحران کم و بیش پچھلے پچھتر برسوں سے کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔ ریاست کے اداروں کی جمہوری تشکیل کا نہ ہو پانا، سیاسی جماعتوں اور سیاسی کلچر کی داخلی کمزوریاں، سول ملٹری عدم توازن اور ملک میں آئینی کلچر کی عدم موجودگی، یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جنہوں نے ملک کو کمزور، غیر یقینی کا شکار اور عدم تحفظ سے دوچار کر رکھا ہے۔