جدید قومی ریاستوں کی تاریخ کا مطالعہ اس امر کی بخوبی توثیق کردیتا ہے کہ آئین سازی کا کام کم و بیش سب ہی ریاستوں کے لیے ایک بڑی آزمائش اور مشکل امتحان ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کو بھی اپنا پہلا دستور بنانے میں نو سال کی مدت لگی مگر پاکستان میں دستور سازی میں تاخیر کی وجہ صرف درپیش سیاسی و سماجی مفادات کا ٹکرائو اور سیاسی قوتوں کا اختلاف ِ فکرو نظر ہی نہیں تھا بلکہ ریاست کے اقتدار پر آزادی کے فوراً بعد ہی قابض ہوجانے والی غیر سیاسی انتظامی اور عسکری اشرافیہ کی اس مملکت کو اپنی خواہش اور منشا کے مطابق چلانے کی ضد بھی تھی۔
دوسرے لفظوں میں ہمارے یہاں سیاسی قوتوں کے لیے درپیش مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ وہ اپنے نظریاتی، سیاسی اور اقتصادی رجحانات کے اختلافات کے پس منظر میں ایک قابل عمل اتفاق تک پہنچیں بلکہ اس سے بڑھ کر دشواری یہ تھی کہ ریاستی اقتدار پر روزِ اول ہی سے تصرف حاصل کرلینے والے مقتدر ادارے ریاست سازی کا کام اپنے ان تصورات کے مطابق کرنا اور کروانا چاہتے تھے جو استعمار کے ورثے کے طور پر انہوں نے قبول کیے تھے۔ ہماری سیاسی قیادت نے بوجوہ خود کو ان اداروں کے مقابل بالکل بے دست و پا پایا۔
1973ء کا آئین پاکستان بننے کے 26 سال بعد بن پایا۔ ان 26 برسوں میں ملک مختلف سیاسی بحرانوں کی آماجگاہ بنا رہا۔اس دوران ملک میں دو مرتبہ فوجی آمریتیں قائم ہوئیں۔ ان 26 برسوں میں ملک نے تین دساتیر کا تجربہ کیا۔ آزادی کے بعد نو برس تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ 1935 ء ملک کے عبوری دستور کے طور پر نافذ العمل رہا۔ 1956ء میں ملک کا پہلا دستور بنایا گیا لیکن صرف ڈھائی سال بعد اکتوبر1958ء میں اس کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور ریاست کو مارشل لا کے سپرد کردیا گیا۔ 1962ء میں اس وقت کے مارشل لا ایڈ منسٹریٹر جنرل ایوب خان نے ملک کو تیسرا آئین دیا جو 1969ء میں ان کی معزولی تک نافذ العمل رہا۔
ایوب خان سول اور عسکری افسر شاہی کی مدد سے تقریباً ساڑھے دس سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔بالآخرایک بھرپور عوامی تحریک کے آگے ایوب خان کو ہتھیار ڈالنے پڑے لیکن انہوں نے جاتے جاتے اپنے ہی آئین کو کالعدم قرار دے کر ملک کو ایک او ر مارشل لا کے سپرد کردیا۔ملک کے دوسرے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی یہ مژدہ سنایا کہ وہ حالات کے سنبھلتے ہی ملک میں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد کروائیں گے تاکہ ایک نیا آئین مملکت کو دیا جاسکے۔ نئی فوجی حکومت کا یہ فیصلہ قطعاً غیر ضروری اور بدنیتی پر مشتمل تھا۔ ایوب خان کے پورے دور حکومت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا مطالبہ یہ رہا تھا کہ 1956ء کے دستور کو بحال کیا جائے۔
یہ جماعتیں مذکورہ دستور میں ترامیم ضرور چاہتی تھیں لیکن اس کو یکسر ختم کردینے کے خلاف تھیں۔1962ء میں جب ایوب خان نے اپنا دستور نافذ کیا اور اس کی بنیاد پر 1965ء میں صدارتی انتخاب ہوا، اُن مراحل میں بھی حزب اختلاف ایوب خان کے دستور کو ختم کرواکر1956ء کے دستور کی بحالی کی علمبردار رہی تھی۔ صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی(COP)کی طرف سے امیدوار تھیں۔اپوزیشن اتحاد کا منشور ہی یہ تھا کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد ایوب خان کا صدارتی نظام اور بالواسطہ طریقۂ انتخاب(جو بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے نام سے ایوب خان نے نافذ کیا تھا)ختم کردیا جائے گا۔
گویا صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح اور اپوزیشن کا اتحاد پارلیمانی نظام اور بالغ رائے دہی کے انتخابی اصول کی بحالی کے موقف کے ساتھ حصہ لے رہے تھے۔ایوب خان اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان فروری۔مارچ1969ء میں جو گول میز کانفرنس منعقد ہوئی اُس میں بھی حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی(DAC)جس کی سربراہی نوابزادہ نصراللہ خان کررہے تھے،بیشتر اُن مطالبات کے ساتھ شریک ہوئی جو1956ء کے دستور کی بحالی کے ذریعے ممکن ہوسکتے تھے ،سوائے اس کے کہ حزب اختلاف کی چند جماعتیں مغربی پاکستان کے سابقہ صوبوں کی بحالی اور قومی اسمبلی میں صوبوں کو آبادی کی نمائندگی کی بنیاد پر نمائندگی دینے کا مطالبہ بھی کررہی تھیں۔
یہ مطالبات بھی 1956ء کے دستور کو بحال کرنے کے بعد ترامیم کے ذریعے پورے کیے جاسکتے تھے۔صرف شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کا چھ نکاتی پروگرام 1956ء کے دستور کے فریم ورک میں سمونا مشکل ہوسکتا تھا مگر اس پر بھی عوامی لیگ کی قیادت سے بات چیت ہوسکتی تھی جس پر شیخ مجیب الرحمن کم از کم 1970ء کے انتخابات کے انعقاد سے قبل تک یہ کہہ کر اپنی آمادگی ظاہر کرتے رہے تھے کہ چھ نکات، کوئی قرآنی متن نہیں ہے جس میں ترمیم نہ ہوسکے۔یہ بات شیخ مجیب الرحمن ، ایوب خان کے زمانے ہی میں نہیں کہہ رہے تھے بلکہ اس کا اعادہ ان کی طرف سے 1962ء کے دستور کی تنسیخ اور 1970ء میں نئی آئین ساز اسمبلی کے انتخاب کے وقت تک ہوتا رہا تھا۔
اس تمام تاریخی پس منظر کے بیان کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ جنرل یحییٰ خان نے نئے دستور کے بنانے کا جو اعلان کیا وہ اگر ان کی بدنیتی پر مشتمل نہیں بھی تھا تویہ کم از کم نئی آئین سازی میں پیش آنے والے امکانی خطرات کے ادراک سے اُن کی محرومی کا مظہر ضرور تھا۔ جس آئین کے بنانے کا راستہ جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے اختیار کیا، وہ آئین جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے دوران متحدہ پاکستان کے ہوتے ہوئے وجود میں نہیں آسکا۔اور جب یہ آئین بنا تو پاکستان ٹوٹ چکا تھا اور جنرل یحییٰ خان ایوانِ اقتدار سے باہر جاچکے تھے۔1973ء کا آئین باقی ماندہ پاکستان کے لیے ان معنوں میں سرخروئی کا پہلو رکھتا تھا کہ 1947ء کے بعد کے آئینی تجربات کے مقابلے میں یہ ایک بہتر آئینی نظام کا حامل تھا۔
1935ء کا ایکٹ استعمار کا دیا ہوا ورثہ تھا جس کو باامر مجبوری قبول کیا گیا تھا۔ 1956ء کا آئین صوبائی اسمبلیوں سے منتخب ہونے والے ان اراکینِ آئین ساز اسمبلی نے بنایا تھا جو براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئے تھے اور 1962ء کا آئین عوام کے نمائندوں کے بجائے ایک آمر نے اپنی کابینہ کے چند وزیروں کی مدد سے بنایا تھا۔ اس آئین کے پیچھے کسی آئین ساز اسمبلی کی طاقت موجود نہیں تھی بلکہ ہوا یہ کہ آئین پہلے بنایا گیا، اس کے بعد قومی اسمبلی وجود میں آئی اور پھر اس اسمبلی سے آئین کی منظوری لی گئی۔ اس آئین کے ابتدائی جملے ہی یہ تھے کہ میں فیلڈ مارشل ایوب خان قوم کو ایک آئین دے رہا ہوں۔
مذکورہ پس منظر میں1973ء کا آئین اس لحاظ سے بہتر آئین ہے کہ اس کو براہ راست طور پر منتخب کردہ عوام کے نمائندوں نے بنایا تھا۔اس کے پیچھے ایک آئین ساز اسمبلی کی طاقت موجود تھی۔پھر یہ آئین ان معنوں میں متفقہ بھی تھا کہ اس کو آئین ساز اسمبلی میں موجود جملہ سیاسی جماعتوں کی تائید اور حمایت حاصل تھی۔
البتہ 1973ء کے آئین کی منظوری سے وابستہ یہ تلخ حقیقت بھی نظروں سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ پاکستان، عوام کے منتخب نمائندوں کے اتفاق رائے سے بننے والا اپنا دستور اس وقت بناپایا جب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ اس سے الگ ہوچکا تھا۔یہ بڑا افسوس ناک منظر تھا کہ 1970ء کے انتخابات کے بعد معرضِ وجود میں آنے والی پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں مشرقی پاکستان کے اراکین کی نشستیں خالی تھیں اورمشرقی پاکستان کے لیے مختص 162عام نشستوں پر منتخب ہونے والے اراکین میں سے صرف 2 ایسے اراکین(جناب نورالامین اور چکمہ قبیلے کے سردار راجہ تری دیو رائے) اجلاس میں شامل تھے جو پاکستان میں موجود تھے اور جنہوں نے پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کیا تھا۔تاریخ کے طالبعلموں کے لیے اس حقیقت سے بھی صرفِ نظر ممکن نہیں کہ آزادی کے بعد سے پاکستان میں مشرقی پاکستان کو آئین ساز اسمبلی یا قومی اسمبلی میں آبادی کی بنیاد پر نمائندگی دینے کی مزاحمت کی جاتی رہی لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد صوبوں کو آبادی کی بنیاد پر نمائندگی دینے کے اصول کو بغیر کسی حیل وحجت کے قبول کرلیا گیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے لیے ـ’نیا پاکستان‘ کی اصطلاح بھی وضع کرلی گئی۔یہ اصطلاح 20دسمبر1971ء کو صدارت کے منصب پر فائز ہونے والے پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے ذہنِ رسا کی پیداوار تھی۔ انہوں نے قوم سے اپنے ابتدائی خطاب میں کہا تھا کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو سمیٹیں گے۔ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔ بعد میں یہ اصطلاح زیادہ قبولِ عام بھی حاصل کرگئی۔یہاں تک کہ ہندوستان کے ایک سیاسی مورخ ستیش کمار نے1978ء میں پاکستان سے متعلق اپنی کتاب کا نام ہی ’نیا پاکستان‘(The New Pakistan) رکھا۔
نئے پاکستان‘ میں آئین سازی کی دشواریاں
دسمبر1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اپریل1973ء میں دستور کی منظوری تک تقریباً 16مہینے کی مدت آئین سازی کے حوالے سے نئی مشکلات اور آزمائشوں کی مدت تھی۔متحدہ پاکستان کے لیے آئین ساز اسمبلی کے انتخاب اور آئین کی منظوری تک کے مراحل کو جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر(LFO)کے ذریعے مشتہرکیا تھا۔ اس LFOنے طے کیا تھا کہ انتخابات کے انعقاد کے بعد آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا جس کو 120دن کے اندر آئین بنانا ہوگا۔آئین بن جانے پر اس کو صدر سے منظوری حاصل کرنا ہوگی۔صدر کی منظوری کے بعد آئین ساز اسمبلی، قومی اسمبلی (یا قانون ساز اسمبلی) بن جائے گی، ملک سے مارشل لا ختم کردیا جائے گا اور قومی اسمبلی اپنا وزیراعظم منتخب کرلے گی۔
1971ء کے آئینی بحران، مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن اور پاکستان کے دولخت ہوجانے کے نتیجے میں LFO کا طے کردہ یہ نظام الاوقات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ جنرل یحییٰ خان نے فوجی شکست،فوج میں بغاوت کی صورت حال اور عوامی دبائو کے پیش نظر اقتدار سے علیحدہ ہونے ہی میں پناہ پائی۔بعجلت مغربی پاکستان میں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو، جوکہ اقوام متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے گئے تھے،فوری طور پر طلب کیا گیا اور اقتدار ان کے سپرد کردیا گیا۔یہ اقتدار ’صدر مملکت‘ اور’ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘ دونوں مناصب کے اشتراک پر مبنی تھا۔بھٹو صرف اس بنا پر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر قرار پائے کہ اقتدار انہیں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سے منتقل ہوا تھا اور مارشل لا کو آئین کی منظوری کے بعد ختم ہونا تھا۔
دسمبر1971ء سے اپریل 1972ء تک بھٹو صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، دونوں مناصب پر فائز رہے۔ مارشل لا کا تسلسل اور بھٹو کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننا بظاہر اُس وقت کی ایک قانونی ضرورت تھی کیونکہ انتقال اقتدار اسی صورت میں ہوا تھا، مگر بھٹو نے مارشل لا کے ضابطوں کو بے دریغ استعمال کرنا شروع کردیا۔ مارشل لا کا استعمال انہوں نے منفی اور مثبت دونوں طرح کے کاموں کے لیے کیا، انہوں نے جہاں مخالف صحافیوں کی گرفتاری اور ان کے جرائد پر پابندی عائد کرنے کے لیے مارشل لا ریگولیشنز کا استعمال کیا، وہیں زرعی اصلاحات بھی مارشل لا قوانین کے ذریعے نافذ کی گئیں۔
اقتدار کی اس منتقلی کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں نے، خاص طور سے نیشنل عوامی پارٹی (NAP)اور جمعیت علمائے اسلام نے جنہیں مشترکہ طور پر بلوچستان اور صوبہ سرحدکی صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل تھی ، یہ اصرار شروع کیا کہ مارشل لا فوری طور پرختم کیا جائے۔ان کے اس اصرار کی قابل فہم وجہ یہ تھی کہ حالانکہ LFOکے لحاظ سے صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس ،آئین کی منظوری اور مارشل لا کے خاتمے کے بعد طلب کیے جانے تھے لیکن بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بلوچستان اور صوبہ سرحد میں اپنی پارٹی کے دو رہنماؤں غوث بخش رئیسانی اور حیات محمد خان شیرپائو کو گورنر نامزد کردیا جو وہاں کی منتخب اکثریتی سیاسی قیادت کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں تھا۔
مارشل لا کو فوری طور پر ختم کرنے کے حزب اختلاف کے مطالبے کے برعکس بھٹو کچھ عرصہ مارشل لا کو برقرار رکھنا چاہتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ مارشل لا کو ضرورت سے ایک دن بھی زیادہ جاری نہیں رکھیں گے۔اس مشکل صورت حال سے نکلنے کا ایک فارمولا نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے یہ پیش کیا گیا کہ صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلالیے جائیں تاکہ صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن واضح ہوجائے اور یہ بھی طے ہوجائے کہ کون سی سیاسی پارٹیاں کن آزاد ارکان کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔یہی نہیں بلکہ یہ تجویز بھی دی گئی کہ صوبوں میں نمائندہ حکومتیں قائم کردی جائیں تاکہ ان صوبوں پر پیپلز پارٹی کا گورنروں کے ذریعے حاصل کردہ اقتدار مستحکم نہ ہوسکے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اگر صوبائی اسمبلیاں بلا لی جاتیں اور وہ وزرائے اعلیٰ کا انتخاب کربھی لیتیں، تو بھی آئین کی عدم موجودگی میں وہ قانون سازی کس طرح کرپاتیں۔
سہ فریقی معاہدہ
ایک اور تجویز جو نیشنل عوامی پارٹی ہی کے بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو کی طرف سے پیش کی گئی اس میں کہا گیا کہ آئین بنانے میں کیونکہ کچھ وقت لگے گا جبکہ مارشل لا کوفوری طور سے ہٹانا بھی ضروری بن چکا ہے لہٰذایہ کیا جاسکتا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور اس میں ایک عبوری دستور منظور کرلیا جائے۔ اس عبوری دستور کی منظوری کے ساتھ ہی مارشل لا ہٹادیاجائے۔ اس کے بعد مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں جہاں ایک طرف عبوری دستور کے تحت مرکز اور صوبوں میں حکومتیں قائم کردیں ،تاکہ مرکز اور صوبوں میں قانون سازی کا عمل بھی شروع ہوجائے، وہیں دوسری طرف مستقل دستور کے لیے یہی مرکزی اسمبلی اپنی وہ ذمہ داری بھی پوری کرنے پر گامزن ہوجائے جس کے لیے 1970میں انتخابات منعقد ہوئے تھے۔
اس تجویز کو روبہ کار لانے کے لیے تینوں سرکردہ جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی،نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی آمادگی ضروری تھی۔چنانچہ ان تینوں جماعتوں کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد ایک ’سہ فریقی معاہدہ‘(Tripartite Accord) طے پایا۔ 6مارچ 1972ء کو طے پانے والے اس معاہدے کی رو سے صدر کو اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا تھا۔ اس اجلاس میں17اپریل1972ء کوایک عبوری دستور منظور کیا جاتا اور 14 اگست 1972ء کو مارشل لا اٹھا لیا جاتا۔ عبوری دستور کی منظوری کے ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس طلب کرلیے جاتے اور ان اسمبلیوں کے ذریعے صوبوں میں منتخب حکومتیں وجود میں آجاتیں۔ وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کو ایک آئینی نظام دستیاب ہوجاتا جس کے تحت وہ قانون سازی اور ریاستی امور کو چلا سکتی تھیں۔
معاہدے کے تحت جو نظام الاوقات طے کیا گیا اس کی رو سے قومی اسمبلی کا اجلاس 14اپریل1972ء کو تین دن کے لیے طلب کیا جانا تھا۔ اس اجلاس کا مقصد ایک عبوری دستور کی توثیق کرنا تھا۔ دستور کی منظوری کے چار مہینے بعد یعنی 14اگست کو مارشل لا کو ہٹالیا جاتا۔اس تاریخ کو اسمبلی کا اجلاس دوبارہ منعقد ہوتا اور یہ اسی دن ملک کے مستقبل کے دستور کے لیے آئین ساز اسمبلی کی حیثیت سے بھی کام کرنا شروع کردیتی۔صوبائی اسمبلیوں کو 21اپریل کو وجود میں آجانا تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ صوبوں میں صوبائی اسمبلیاں اور منتخب حکومت قائم ہونے کے چار ماہ بعد تک ملک میں بہر حال مارشل لا برقرا ر رہتا۔
بظاہر یہ فارمولا ایک راہ کشا فارمولا تھا جو مارشل لا کے خاتمے اورمستقبل کے مستقل آئین کی تیاری کے عمل کے آغازکی راہیں کھولنے کا موجب بن سکتا تھا۔لیکن سہ فریقی معاہدے کے اوپر تینوں جماعتوں کے رہنمائوں ،ذوالفقار علی بھٹو، خان عبدالولی خان اور مفتی محمود کے دستخطوں کے بعد ایک تنازعہ اس وقت اٹھ کھڑا ہوا جب نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما عبدالولی خان صاحب نے یہ موقف اختیار کرلیاکہ انہوں نے عبوری دستور کی منظوری اور چار ماہ بعدمارشل لا کے ہٹائے جانے کے فارمولے کو قبول تو کیا ہے لیکن انہوں نے یہ وعدہ بہرحال نہیں کیا کہ ایک مرتبہ جب اسمبلی سے مارشل لا کو مزید چار مہینے جاری رکھنے کی اجازت طلب کی جائے گی تو ان کی جماعت اس کو ووٹ دینے کی پابند بھی ہوگی۔
ولی خان کے اس موقف پر پیپلز پارٹی اور بھٹو کی طرف سے شدید تنقید ہوئی جن کا کہنا تھا کہ اگر ولی خان اور ان کی جماعت اگست تک مارشل لا کو جاری رکھنے پر آمادہ نہیں تھے تو پھر انہوں نے یہ معاہدہ کیا ہی کیوں؟ولی خان کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ وہ اس معاہدے کے ذریعے اسمبلی کا اجلاس بلوالیں اور ایک عبوری دستور بھی منظور کرلیا جائے تاکہ آگے بڑھنے کا سیاسی راستہ کھل جائے لیکن ساتھ ہی اُن پر مارشل لا کے حق میں ووٹ ڈالنے کی تہمت نہ لگائی جاسکے۔ ولی خان کی اس حکمت عملی کا بھٹو نےاپنی جوابی حکمت عملی سے بڑا دلچسپ توڑ کیا۔
بھٹو کی طرف سے 14 اپریل 1972ء کو اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا،اجلاس سے ایک دن پہلے بھٹو نے اسمبلی کے ایک سو سے زیادہ ارکان سے مارشل لا جاری رکھنے کے لیے ان کی حمایت حاصل کرلی۔چنانچہ جس روز اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا اس روز اسمبلی کی اکثریت عبوری دستور کی منظوری اور اگلے چار ماہ تک مارشل لا جاری رکھنے پر آمادہ تھی۔ بھٹو نے اپوزیشن پر دبائو ڈالنے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا،ہر چند کہ طے یہ ہوا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اپوزیشن دونوں عبوری دستور کے لیے اپنے اپنے مسودے آپس میں زیر بحث لائیں گے تاکہ ایک مشترکہ مسودہ اسمبلی میں پیش کرسکیں لیکن حزب اختلاف کو نظر انداز کرتے ہوئے بھٹو نے اپنا مسودہ اسمبلی میں پیش کردیا۔
بھٹو نے ایک اور حربہ یہ استعمال کیا کہ اعلان کردیا،اگر حزب اختلاف ان کا پیش کرد ہ مسودہ ٔدستور قبول کرلیتی ہے تو وہ 14اگست کے بجائے 21اپریل ہی کو مارشل لا ہٹالیں گے۔حزب اختلاف کو اب یہ مشکل انتخاب درپیش تھا کہ یا تو وہ مارشل لا کو چار مہینے کے لیے قبول کریں یا پھر بھٹو کا پیش کردہ مسودہ دستور قبول کرلیں۔ حزب اختلاف نے دوسری کڑوی گولی نگلنا پسند کیا۔
عبوری دستور کے لیے رائے شماری شروع ہوئی۔حزب اختلاف نے بعجلت تمام چند تجاویز پیش کیں اور یوں20اپریل 1972ء کو ایک ایساعبوری دستور منظور کرلیا گیا جو 1935ء کے ایکٹ ، ایوب خان کے 1962ء کے آئین کے علاو ہ چند پارلیمانی خصوصیات کاملغوبہ تھا۔21 اپریل کو بھٹو نے صدرِ مملکت کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔اسی روز مارشل لاء اٹھالیا گیا۔
عبوری دستور کے تضادات اور مرکز بہ مقابلہ بلوچستان و سرحد جھگڑے
عبوری دستور کا سب سے بڑا تضاد یہ تھا کہ اس نے مرکز میں صدارتی طرز حکومت اختیار کیا تھا اور بھٹو جوصدارت کے منصب پر فائز ہوئے تھے اب اس دستور کی رو سے اسی منصب پر فائز رہے۔ اس کے برعکس صوبوں میں پارلیمانی طرز اختیار کیا گیا۔صوبائی اسمبلیوں نے وزرائے اعلیٰ کا انتخاب کیا جبکہ صدر بھٹو نے صوبائی گورنر مقرر کیے۔
انہوں نے سندھ اور پنجاب میں اپنی پارٹی کے گورنر نامزد کیے جبکہ بلوچستان اور سرحد میں ’سیاسی فراخدلی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمائوں، میر غوث بخش بزنجو اورارباب سکندر خان خلیل کو گورنر نامزد کیا۔ بلوچستان اور سرحد کی یہ حکومتیں نو ماہ تک چل سکیں۔ فروری 1973میں جبکہ ابھی مستقل دستور منظور نہیں ہوا تھا،بھٹو نے بلوچستان کی حکومت کو معزول کردیا۔ بلوچستان کے علاوہ سرحد کے گورنر بھی ان کے عہدوں سے الگ کردیے گئے۔ احتجاج کے طور پر سرحد کے وزیر اعلیٰ مفتی محمود نے اپنی حکومت کا استعفیٰ پیش کردیا۔
دستور کی منظوری سے قبل کے ڈرامائی واقعات
عبوری دستور کی منظوری کے بعد بلوچستان اور سرحد میں مرکز اور ان دو صوبوں کے درمیان جس آویزش کا دور دورہ رہا اور جو ان دونوں حکومتوں کے خاتمے پر منتج ہوئی ،اس ضمن میں دوباتیں نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ایک تو یہ کہ اس آویزش نے مستقل دستور کے بنائے جانے کے عمل پر منفی اثرات مرتب کیے اور ملک میں ایسی فضا قائم رہی جو مستقل دستور پر افہام و تفہیم کی راہ میں مزاحم ثابت ہوئی۔
دوسری اہم بات یہ کہ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے باوجود مرکز کی سخت گیر اور جارحانہ حکمت عملی کے، دستور سازی کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔ اسمبلی نے مستقل دستور کی تیاری کے لیے ایک پچیس رکنی کمیٹی قائم کی تھی جس میں اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں سے ارکان شامل کیے گئے تھے۔ کمیٹی میں آزادارکان کی نمائندگی بھی موجود تھی۔اس کمیٹی نے اکتوبر 1972میں ایک آئینی معاہدے (Constitutional Accord)پر دستخط کیے۔
بظاہر یہ بھی ایک بہت بڑا کام تھا اور اب ایسا نظر آتا تھا کہ دستور بنانے میں کوئی بڑی رکاوٹ درپیش نہیں ہوگی۔ لیکن اس موقع پر ایک اور بڑا بحران اس وقت اٹھ کھڑا ہوا جب خان عبد الولی خان نے یہ اعلان کیا کہ گو کہ کمیٹی میں شامل ان کی جماعت کے اراکین نے اس معاہدے کو قبول کیا ہے مگر جماعت کی سینٹرل کمیٹی اور نیشنل کائونسل پر مشتمل نیشنل کنونشن، کے اس معاہدے کے حوالے سے بہت سے تحفظات ہیں اور ان کے لیے ان متنازعہ نکات کو قبول کرنا ناممکن ہے۔
جب دستور ساز اسمبلی کا اجلاس دستور کی منظوری کے لیے منعقد ہوا تو حزب اختلاف نے یہ بھی اعتراض کیا کہ مسودۂ دستور میں بہت سی ایسی چیزیں شامل کرلی گئی ہیں جو اکتوبر کے معاہدے سے ہٹ کر ہیں۔ چنانچہ حزب اختلاف نے دستور ساز اسمبلی کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔یہ بحران اس وقت ایک خطرناک شکل اختیار کرگیا جب اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کی عدم موجودگی میں دستوری شقوں پر گفتگو اور رائے شماری شروع ہوگئی۔
ایک طرف اسمبلی میں یہ کام ہورہا تھا اور دوسری طرف حکومت پور ی کوشش کررہی تھی کہ حزب اختلاف کے ساتھ اسمبلی کے ایوان کے باہر کوئی ایسی افہام و تفہیم ہوجائے کہ حزب اختلاف اپنا بائیکاٹ ختم کرکے آئین سازی کے کام میں شامل ہوجائے۔ بھٹو کی سب سے بڑی کوشش اور خواہش یہ تھی کہ و ہ ایک متفقہ دستور بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔1971ء کے آئینی بحران کے وقت اُن کی خواہش دستور پر اتفاق رائے کی تھی جس کی تکمیل نہ ہوسکی مگر اب جبکہ وہ ملک کے سربراہ ہیں اور اسمبلی میں انہیں اتنی اکثریت حاصل ہے کہ وہ حزب اختلاف کی حمایت کے بغیر بھی دستور بناسکتے ہیں، انہوں نے ایسا نہیں کیا اور ایک متفق علیہ دستور بنانے میں کامیابی حاصل کی۔بھٹو کی پوری کوشش تھی کہ حزب اختلاف کسی طور آئین سازی میں حصہ لے اور وہ ایک متفقہ دستور بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔
حزب اختلاف کا بائیکاٹ ختم کرانے کے لیے پس پردہ بہت سی کوششیں ہوئیں۔کئی امور کے اوپر کچھ لو اور کچھ دو کے تحت اتفاق رائے پیدا کیا گیا۔سیاسی روابط کو وسیع کیا گیا اور پارلیمانی پارٹیوں سے ہٹ کر دوسری سیاسی قیادت سے بھی مدد حاصل کی گئی۔جس وقت دستور کی منظوری کا مرحلہ درپیش تھا اس وقت حزب اختلاف کی مختلف جماعتیں متحدہ جمہوری محاذ(United Democratic Front)کے نام سے ایک اتحاد قائم کرچکی تھیں۔چنانچہ اس اتحاد کے بعض ایسے رہنمائوں سے بھی مدد حاصل کی گئی جو خو دپارلیمان کے رکن نہیں تھے۔ اس سلسلے میں ایک اہم کاوش جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ پس پردہ رابطے کی صورت میں کی گئی۔
کراچی سے آزاد رکن کی حیثیت سے منتخب ہونے والے مولانا ظفر احمد انصاری جو جماعت سے بہت قریب تھے اور ان کے خلاف جماعت نے انتخابات میں اپنا امیدوار بھی کھڑا نہیں کیا تھا بلکہ ان کی حمایت کی تھی،سے مدد حاصل کی گئی جو پیپلز پارٹی کے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کے ساتھ وزیراعظم کے خصوصی جہاز پر لاہور پہنچے اور وہاں مولانا مودودی سے مدد چاہی گئی۔
یہ دونوں حضرات مولانا کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور مولانا نے اسمبلی میں اپنی جماعت کے رہنما پروفیسر غفور احمد کے ذریعے متحدہ جمہوری محاز کی قیادت کو دستور کی تیاری کے عمل میں شرکت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ایسی کوششیں حکومت کی جانب سے دوسرے زاویوں سے بھی کی گئیں اوریوں بالآخر حزب اختلاف اپنا بائیکاٹ ختم کرکے اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے پر آمادہ ہوگئی۔بعد کے دنوں میں دستور سازی کے دوران حزب اختلاف کی طرف سے بہت سی شقوں میں ترامیم پیش کی گئی اور بالآخر وہ 10اپریل 1973ء کو دستور کو آخری خواندگی کے بعد منظور کرلیا گیا۔
12اپریل کو صدر مملکت نے دستور پر دستخط کرکے اس کی منظوری دی۔ 14 اگست1973ء کو آئین کا نفاذ عمل میں آگیا۔پاکستان جس پر چھبیس سال تک ’سرزمینِ بے آئین‘ہونے کی تہمت لگائی جاتی رہی تھی بالآخر ایک متفقہ آئین کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سفر میں اس کو بڑے حادثات دیکھنے پڑے۔ یہاں تک کہ ایک بڑا صوبہ جو آغاز کار میں شریکِ سفر تھا، حصولِ منزل کے وقت ایک الگ ملک بن چکا تھا اور اپنا ایک الگ دستور بھی بنا چکا تھا۔بنگلہ دیش نے اپنے دستور کے نفاذ کے لیے 16 دسمبر 1972ء کی تاریخ منتخب کی ۔اس روز بنگلہ دیش اپنی آزادی کی پہلی سالگرہ بھی منارہا تھا۔
10اپریل 2023 کو دستور پاکستان کے 50برس مکمل ہونے پر سرکاری سطح پر گولڈن جوبلی تقریبات کا آغازہوا ،یہ سلسلہ رواں ماہ کے آواخر تک جاری رہے گا۔اس تاریخی موقعے پر ہم نے بھر پور کوشش کی کہ ’’آئین سازی سے آئین شکنی تک ‘‘ آئینی اداروں کی مختصر مگر مکمل تصویر قارئین کی خدمت میں پیش کریں ،ان کو علم ہوکہ سر زمین بے آئین کو آئین ملنے کے بعد بھی کئی نشیب و فراز آئے لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود اس نے وفاقی اکائیوں کو ایک لڑی میں پروے رکھا، سو جنگ میگزین نے 25 تا 29 اپریل تک ایک ایسی دستاویز قارئین کی خدمت میں پیش کی ،جس کا ہر صفحہ آئین کا مکمل باب ہے۔
آئین کی تاریخ سے لے کر ترامیم تک ،عدلیہ کے کرداروں سے آئینی بحرانوں کی افسوس ناک تاریخ تک بہت کچھ پڑھنے کوتو ملا ہی ،ساتھ ’’گولڈن جوبلی منائیں یا برسی‘‘ کے عنوان سے آرٹیکل پڑھ کر بھی سوچا ہو گا کہ آئین کے ساتھ کیسے کیسے کھیل کھیلے گئے۔ ان صفحات کو سنبھال کر رکھیں کہ یہ ریفرنس کا مستند حوالہ ہیں۔ اب ہمیں آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ ہمارا پتہ نوٹ کرلیں۔
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی
razia.fareed@janggroup.com.pk