• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو تباہی کی طرف لے جانے والی سیاسی کشمکش کے ماحول میں یہ بات کسی حد تک خوش آئند ہے کہ وفاقی حکومت میں شامل اتحادی سیاسی جماعتیں اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئی ہیں لیکن ہمیں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں کیونکہ ہماری قومی سیاسی قیادت خود مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھی ہے بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس بینچ کی تجویز پر مذاکرات کے لیے آمادہ ہوئی ہے ، جو عام انتخابات ایک دن کرانے کیلئے کیس کی سماعت کر رہا ہے ۔ سپریم کورٹ آئین کے مطابق فیصلہ کرنے کی بجائے سیاسی جماعتوں کے درمیان پنچایت اور ثالثی کا کردار کیوں ادا کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب تو خود معزز چیف جسٹس آف پاکستان ہی دے سکتے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ ہماری قومی سیاسی قیادت خود مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھی ۔ اسے سپریم کورٹ نے کہا ہے اور سپریم کورٹ نے اسے کیوں ایسا کرنے کے لیے کہا ہے ۔ یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے حالانکہ سپریم کورٹ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو ہر حال میں کرانے کا حکم دے چکی ہے ۔ معزز چیف جسٹس صاحب نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ اب اس کیس میں عدالت نہ کوئی ٹائم لائن دے گی اور نہ کوئی ہدایت بلکہ مناسب فیصلہ سنائے گی۔

جب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہماری قومی سیاسی قیادت خود مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھی تو ان مذاکرات میں وہ جو فیصلہ کرے گی ، وہ اس کا اپنا فیصلہ نہیں ہو گا بلکہ ان قوتوں کا فیصلہ ہو گا ، جنہوں نے اسے مذاکرات کی میز پر بٹھایا ۔ قوم کو اپنی قومی سیاسی قیادت سے یہ توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ ملک کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے کیلئے کسی مشترکہ لائحہ عمل یا کسی میثاق ( چارٹر) پر اتفاق کر لے گی اور یہ مذاکرات کا ایجنڈا بھی نہیںہے ۔ مذاکرات کا صرف ایک نکاتی ایجنڈا ہے اور وہ یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اگر ایک دن ہوں تو کب ہوں ۔ اگرچہ اس ایک نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں اور فریقین یہ امید دلا رہے ہیں کہ منگل کو ہونے والے تیسرے دور میں کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ عام انتخابات کی کسی تاریخ پر اتفاق ہو سکے گا ۔ اگرچہ حکمران اتحاد میں شامل پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) اور پیپلز پارٹی پہلے بھی پی ٹی آئی سے اس معاملے پر مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کرتی رہی ہیں لیکن پی ٹی آئی کچھ دن پہلے تک مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھی ۔ وہ ہر حال میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سپریم کورٹ کے فیصلے مطابق قبل ازوقت کرانے پر بضد تھی پھر اچانک پی ٹی آئی کی طرف سے یوٹرن لیا گیا تو پی ڈی ایم کے اور جمعیت علمائے اسلام ( جے یو آئی ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن مذاکرات میں شریک نہ ہوئے ۔ پی ڈی ایم میں شامل پاکستان مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی مولانا فضل الرحمن کو مجبور نہیں کیا کہ وہ مذاکرات میں شریک ہوں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں اور پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمن کے موقف کی مخالفت نہیں کر رہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ایک شخص یعنی عمران خان کی ’’ہٹ دھرمی‘‘ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہئیں ۔

مذاکرات کے حوالے سے اب تک کی جو اندرونی کہانیاں سامنے آئی ہیں ، ان کے مطابق حکمران اتحاد اور اپوزیشن کی پی ٹی آئی نے اپنے اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے ۔ یہ لچک بھی ان کی اپنی سیاسی سوچ کا نتیجہ نہیں ہے یہ اور بات کہ مذاکرات کے لیے مجبور کرنے والی قوتوں کے ’’ پلان ‘‘ پر فریقین شاکی ہیں ۔ بالفرض فریقین بجٹ ’’ اسٹرٹیجی ‘‘ پر بھی متفق ہو جاتے ہیں اور ستمبر یا اکتوبر کی کسی تاریخ پر عام انتخابات ایک دن میں کرانے پر اتفاق بھی کر لیتے ہیں ( جو ابھی تک مشکل نظر آ رہا ہے ) تو بھی عام انتخابات اس تاریخ پر ہونا ممکن نہیں ہیں ، جس پر اتفا ق کیا جائے گا کیونکہ اس وقت تک نئی مردم شماری کے نتائج مکمل نہیں ہو سکیں گے ، جن کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں ۔ اس مسئلے کے ساتھ ساتھ اس مرتبہ بھی مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی پیش گوئی کی جا رہی ہے ۔ گزشتہ سال بھی سیلاب کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات تین مرتبہ ملتوی ہوئے ۔ 2010 ء میں ایک بڑا سیلاب آیا تھا ۔ پھر 2011 ء میں طوفانی بارشوں نے تباہی مچائی تھی ۔ دس بارہ سال کے بعد سیلاب اور طوفانی بارشوں کا ایک ’’ اسپیل ‘‘ (Spell ) آتا ہے ۔ اس سال بھی غیر معمولی بارشوں کا خطرہ ہے ۔ اگر مذاکرات کے نتیجے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں عدالتوں سے بحال کر ادی جاتی ہیں اور پھر جولائی میں تمام اسمبلیاں تحلیل کرکے تین ماہ کے اندر عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا جاتا ہے تو پھر سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہو جائیگا کیونکہ انتخابات مقررہ تاریخ پر نہیں ہو سکیں گے ۔ دوبارہ ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ، جو اس وقت ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ کسی اور کے کہنے پر مجبور ی سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے والی قومی سیاسی قیادت ان مذاکرات میں اپنا ایجنڈا بنائے اور اس پر بات کرے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قومی سیاسی قیادت پہلے ہی خود مذاکرات سے سارے مسائل حل کر لیتی اور یہ مذاکرات پارلیمنٹ سے باہر نہ ہوتے بلکہ پارلیمنٹ کے اندر ہی سارے معاملات طے کر لئے جاتے ۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے رجوع کرنے کی نوبت ہی نہ آتی ۔ اب بھی وقت ہے ۔ تاریخ سے سبق حاصل کیا جائے ۔ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کو ملوث کرکے یا ان کا سہارا لے کر ایک دوسرے کو پچھاڑنے کا سلسلہ بند کیا جائے ۔ یہ غیر جمہوری اور فسطائی رویہ ہے ۔ صرف پاکستان ہی نہیں ، دنیا بھر میں جمہوریت کو فسطائیت ( فاشزم ) سے خطرہ ہے ، جو سیاسی قوتوں کے غیر جمہوری اور غیر سیاسی رویوں کے باعث مضبوط ہو رہی ہے ۔ یہ مذاکرات اگر وسیع تر ایجنڈے پر نہ ہوئے اور اس وسیع تر ایجنڈے پر اتفاق نہ کیا گیا اور صرف انتخابات کی تاریخ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کر بھی لیا گیا تو پاکستان کا سیاسی بحران ختم نہیں ہو گا ، جو تھوڑے سے وقفے کے بعد پھر شدت اختیار کر لے گا ۔ یہ سیاسی بحران پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو غرق کر دے گا۔

تازہ ترین