• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ محمد انور

ہر سال یکم مئی کے موقع پر مزدوروں کے حقوق کے بارے میں پروگرام ہوتے ہیں اور پروگرام بھی وہ لوگ کرتے ہیں جن کو مزدوروں کے حالات کا علم بھی نہیں ہوتا۔ اس دن حکمران مزدوروں کیلئے کچھ اعلانات کرتے ہیں، ٹی وی پر پروگرام ہوتے ہیں، اخبارات مزدوروں کی حمایت اور حقوق سے بھرے ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے بیانات اور تقاریر سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کا دل مزدوروں کیلئے پسیج گیا ہو۔ 

مگر افسوس کہ یہ دن آتا ہے اور مزدوروں کی تشہیر کرتے کرتے گزر جاتا ہے لیکن مزدوروں کے حالات نہیں بدلتے۔ آج تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے ہمیشہ سے مزدوروں کو اُن کے حقوق سے محروم رکھنے کے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔ اس دن مزدوروں کی محرومیوں اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ لیکن صرف تقریروں سے مزدوروں کا پیٹ نہیں بھرسکتا۔ تقاریر میں حکومتی سطح پر مزدوروں سے بہت سے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن اگلے سال یکم مئی کو مزدوروں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔

اس دن کو مزدوروں کے نام سے منسوب کرنا صرف جلسے جلوس اور تقاریر کرنا ہی لیبر ڈے کا حصہ نہیں بلکہ اُن کو ان کے جائز حقوق دلوانا، وقت پر اجرت دینا، اجرت بڑھانا، کام تھوڑا لینا، مزدور کو مزدور نہیں بلکہ انسان سمجھنا یہ تمام کام بھی لیبر ڈے کا ہی حصہ ہیں۔ حکومت کو مزدوروں کی فلاح و بہبود سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے لہٰذا آج نجکاری، چھانٹیاں اور برطرفیاں عام ہو چکی ہیں، تنخواہوں میں تاخیر، ریٹائر ملازمین اور بیوائوں کے واجبات کی ادائیگی میں تاخیر، ریٹائرملازمین اور بیوائوں کی پینشن میں تاخیر معمول بن چکی ہے۔ مزدور یونینوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں مزدور تحریک بحران کا شکار ہے۔ پاکستان ریلوے جیسے سب سے بڑے ادارے میں انتظامیہ اور حکومت ریفرینڈم سے مسلسل فرار اختیار کیے ہوئے ہے۔

یوم مئی بین الاقوامی طور پر مزدوروں کی عید یا بڑے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو مناتے ہوئے مزدور شکاگو کے شہیدوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً 80ممالک میں آج یکم مئی لیبر ڈے کے طور پر منایاجاتا ہے۔

پاکستان میں مزدور پالیسی کا آغاز 1972ء میں ہوا اور یکم مئی کو قانونی طور پر لیبر ڈے کا خطاب دے دیا گیا۔ پاکستان آج انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ممبر ہے جس کا مقصد مزدوروں کو معاشی حقوق دینا اور انہیں ان کے حق کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ آج کے دن پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک کے مزدور ’’یوم مئی‘‘ کے موقع پر شکاگو کے محنت کش رہنمائوں اور ان کے ہزاروں جانشینوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے 1886 میں دنیا کے مختلف ممالک کی مزدور تحریکوں میں انسانیت کی بقاء کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ 

امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں سے تقریباً سولہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور انہیں اجرت بھی بہت کم دی جاتی تھی اور صنعتوں کے مالکان اسی کشمکش میں لگے رہتے تھے کہ مزدور اپنے حق کیلئے آواز بلند نہ کریں۔ اگر کوئی مزدور باقی مزدوروں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتا تو اسے نوکری سے نکال دیا جاتا تھا یا پھر مار دیا جاتا تھا۔ لیکن چاہے انسان جتنا بھی ظلم کرلے ایک نہ ایک دن حق غالب آہی جاتا ہے۔ 

صنعتوں کے مالکان کے خلاف مزدوروں نے تنظیم بنالی اور مطالبہ کیا کہ وہ لوگ 8گھنٹے کام کریں گے۔ اس مطالبے کے اگلے ہی دن کئی مزدوروں کو گرفتار کرلیا گیا اور اُن پر مقدمات درج کردئیے گئے۔ کئی مزدور لیڈروں کو پھانسی اور قید کی سزائیں ہوئیں لیکن آخر کار یہ تنظیم زور پکڑتی گئی، ملازمین کی قربانیوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے آخرکار مزدوروں کا مطالبہ مان لیا گیا اور اب کوئی بھی مزدور 8گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتا۔

یکم مئی محنت کشوں کی فتح کا دن ہے۔ شکاگو کے شہیدوں نے محنت کی عظمت کا لازوال نقش قائم کیا۔ اس دن سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور حکومت نے مزدوروں کی تحریک کو کچلنے کیلئے ان نہتوں پر بے دریغ طاقت کا استعمال کیا اور نہتے مزدوروں پر گولیاں برسادیں۔ مزدور حقوق کے حصول کیلئے مزدوروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ بے شمار مزدور موقع پر شہید ہوگئے، بے شمار مزدوروں کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ 

امریکہ کے شہر شکاگو کی سڑکیں خون سے سرخ ہوگئیں اور بالآخر ان قربانیوں کے نتیجے میں صنعت کاروں اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 1886 میں بیس گھنٹے مشقت کی بجائے آٹھ گھنٹے ڈیوٹی لینے کا حکم جاری ہوا۔اس طرح مزدوروں کے یہ الفاظ درست ثابت ہوئے اور یوم مئی دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شکاگو کے مزدوروں نے مزدوروں کے حقوق کیلئے بہت بڑی قربانی دی اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم استحصال کو ختم کرنے کی نوید سنائی۔ مزدوروں کے کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹوں میں متعین کروایا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کیونکہ کسی استحصالی ریاست یا حکومت کے خلاف لڑنا کوئی آسان کام نہیں اور نہتے مزدوروں کا مسلح سپاہیوں سے ٹکرانا نہایت مشکل ہے لیکن ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ دین اسلام میں مزدور کی محنت کی عظمت کا تصور بہت اعلیٰ اور برتر ہے۔

یوم مئی کے دن مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا مگر اس واقعہ کے ڈیڑھ صدی گزر جانے کے بعد بھی پاکستان کے محنت کشوں کا طبقاتی نظام پر احسان بھی کچھ کم نہیں جو انتہائی کم اجرتوں پر مہنگائی سے لڑتے لڑتے روز جیتے اور روز مرتے ہیں، میرے نزدیک موجودہ دور میں مزدور کو صرف بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کا سامنا ہی نہیں بلکہ گیس اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں صنعتیں بند اور لاکھوں محنت کش بے روز گار ہوگئے ہیں۔ریلوےپاکستان میں آج بھی مزدور 16گھنٹے اور بعض اسٹیشنوں پر 24گھنٹے ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریلوے میں ہزاروں آسامیاں خالی ہیں اور اُن کی جگہ بھرتیاں نہیں کی جارہیں۔ 

ملازمین کی کمی ہے اس وجہ سے لوگوں کو مجبوراً 24 گھنٹے ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے۔ ایک طرف تو ملک میں بے روز گاری ہے اور دوسری طرف عوام کو نوکریاں نہ دینا سوالیہ نشان ہے۔ تنخواہ جب بھی رُکتی ہے تو غریب ملازمین کی ہی رُکتی ہے۔ میں نے کبھی نہیں پڑھا کہ کسی ممبرانِ اسمبلی، کسی وزراء اعلیٰ، کسی سینیٹر کی تنخواہوں میں تاخیر ہوئی ہو۔ مہنگائی کی رفتار اس قدر بڑھ رہی ہے کہ متوسط اور متمول طبقات کیلئے بھی مہینے بھر کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا۔ 

کئی ایسے مزدور بھی ہیں جو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور ان کے حالات عام مزدوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ انہیں کبھی کام ملتا ہے اور کبھی پورا دن انتظار کے بعد بھی خالی ہاتھ اپنے گھر واپس لوٹنا پرٹا ہے۔ مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر کئی تقاریب، ریلیاں، جلسے جلوس اور تقاریر منعقد ہوتی ہیں، حکومت کے اعلیٰ افسران اور عہدیدار مزدوروں کیلئے جو وعدے کرتے ہیں وہ آج تک کبھی پورے نہیں ہوسکے۔ تقریباً ہر سال بجٹ میں مزدوروں کیلئے نئی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں جس پر عمل درآمد کبھی نہیں ہوتا۔