• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدرتی ماحول میں بگاڑ موسمی تغیرات کا ذمے دار صرف انسان

دنیا میں صنعتی انقلاب کے برپا ہونے تک انسان اس کرہ ارض پر اپنے مسائل کے ساتھ جیسے تیسے ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔ انسا ن میں یہ خوبی ہے کہ جیسے حالات ہوتے ہیں، اچھے یا برے، وہ ان میں رہ کر گزر بسر کر ہی لیتا تھا، مگر صنعتی انقلاب کے بعد دنیا بھر میں قدرتی ماحول پر اس کے اثرات نمایاں ہونے لگے، آلودگی میں اضافہ ہونے لگا جس کے منفی اثرات سے بالائی طبقے یا تو نابلد تھے یا جان بوجھ کر انہیں نظرانداز کرتے رہے تھے۔ عوام الناس اس تمام صورتحال سے تو یکسربے خبر تھی،پھر اس پر ستم یہ کہ یورپی طاقتیں آپس میں برسرپیکار رہیں۔ 

دنیا دو عالمی جنگوں سے گزری، جبکہ ستر فیصد سے زائد آبادی یورپی قوتوں کی کالونیوں میں بٹی ہوئی تھی۔ لگ بھگ بیسویں صدی کے نصف کے بعد سے قدرتی آفات میں اضافہ شروع ہوا۔ دنیا میں کہیں کہیں آلودگی کے پھیلائو پر بحث سنائی دی مگر زیادہ تر عوام بے حس رہے، قدرتی آفات کو وہ قدرتی نظام کاحصہ تصورکرتے رہے۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں یکایک ہل چل مچ گئی کہ دنیا میں آلودگی میں اضافہ سے قدرتی ماحول میں نمایاں منفی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ تب پہلی بار برازیل کے شہر،ریوڑی جینرو میں دنیا کی پہلی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی جس سے دنیا کو موسمی تبدیلیوں اورقدرتی ماحول میں بگاڑ سے شدید خطرات لاحق ہونے کا علم ہوا۔

بعدازاں عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی اس جانب توجہ مبذول کی اور ماحولیات کے حوالے سے خبریں منظر عام پر آنے لگیں۔ اکیسویں صدی کے اوائل تک بتایا جاتارہا کہ ،دنیا میں 3.6 فارن ہائٹ تک حدت میں اضافہ ہو چکا ہے جو گلوبل وارمنگ کا سبب ہے۔ اس کے بعد بیش تر سائنسدانوں نے دعویٰ کیا کہ، اگر آلودگی میں اضافہ اسی طرح جاری رہا جس کے خدشات موجود ہیں تو دنیا بھر میں 5.4 تا 7.2فارن ہائٹ تک اضافہ ہو سکتا ہے ،ایسے میں شدید گرمی کی وجہ سے دنیا جہنم بن کر رہ جائے گی ،جہاں زمینی حیاتیات زبردست خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ 

اس طرح زمین پر زندگی گزارنا مشکل ترین بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ سال 2020ء کے بعد سے دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں میں موسمی تغیرات کی وجہ سے جو تباہیاں برپا ہوئیں ان میں شمالی ہماشائرشدید گرمی سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ پاکستان میں مون سون بارشوں نے تباہی مچادی۔ بھارت میں شمالی علاقوں شدید موسلادھار بارشوں سے شدید جانی اور مالی نقصانات اٹھانے پڑے۔ بیش تر ممالک میں پاور ہائوس حدت کی شدت سے بند ہوگئے۔ پرتگال، اسپین، برطانیہ، قبرص میں شدید گرمی اور بارشوں نے کئی دن تک زندگی درہم برہم کردی۔

کینیڈا ، شمالی امریکی ریاستوں، وسطی امریکی علاقوں میکسیکو، ایلسلوا ڈور، کیربین جزائر کیوبا وغیرہ میں شدید سمندری طوفانوں نے بڑی تباہی برپا کردی،سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ،اربوں مالیت کی املاک تباہ ہوگئی۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ دنوں بحراوقیانوس شمالی میں اٹھنے والے طوفان میں بہت سے بحری جہازوں کو خوفناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ برفانی طوفان نے بڑی تباہی مچائی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوب کی طرف سے آنے والی گرم ہوائوں نے شمالی خطے میں طوفان برپا کیا۔

شمالی قطبین میں تقریباً برف گلیشیرز سے پگھل کر سمندر میں پانی بن چکی، جس سے بتدریج سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا کے مختلف ملکوں میں معاشرتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ذرائع آمد ورفت متاثر ہو رہے ہیں۔ عوام الناس کے روزمرہ معمولات پر اثر پڑ رہا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے زندگی دشوار ہوتی جا رہی ہے۔ 

موسم سرما میں امریکہ یورپ کے بڑے علاقوں میں برفانی طوفانوں کی وجہ ہیٹنگ سسٹم بھی جام ہو رہا ہے۔ لوگ شدید سردی میں ٹھٹھرتے رہتے ہیں، جبکہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے روس کی طرف سے قدرتی گیس اور تیل کی فراہمی پابندی کی وجہ سے بند ہے ایسے میں یورپی ممالک شدید مسائل اور مصائب کا شکار ہیں، مگر انسان وہ بے چین اور کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھتا آیا ہے اس سے اب وہ آلودگی سے بچنے اور قدرتی ماحول کو بہتر بنانے کی لگن رکھتا ہے جس کے لئے شمسی توانائی، پانی کے بہائو، استعمال شدہ اشیاء کو دوبارہ قابل استعمال بنانے، ری سائیکلنگ کرنے ، بائیو گیس تیارکرنے اور استعمال کرنے کی طرف مائل ہوگیا ہے۔ اس طرح کی مزید کچھ پیش رفت عمل میں آرہی ہیں، جس سے آلودگی کم سے کم درجے تک آنے کی قوی امید ہے۔ 

یہ سب کچھ عین ممکن ہے۔ اس حوالے سے امید کی جاسکتی ہے مستقبل قریب میں سدھار آجائے گا، تاہم دنیا کے ارب پتی افراد خلائی سائنس دانوں کے اشتراک سے مریخ پرآئندہ کے لئے کالونیاں بسانے کی مہم جوئی میں بھی مصروف ہیں اور مریخ کے بارے میں بہت کچھ معلومات رکھتے ہیں تاہم وہاں امریکہ نے خلائی اسٹیشن تعمیر کر لئے ہیں اور ایک طرح سے مریخ زمین کے باسیوں کی ایک کالونی بننے جا رہا ہے۔

فی الفور یہ گریٹ گیم یا منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہے اور اب تک کچھ کامیابیاں حائل ہو رہی ہیں، مگر معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکن کی وصیت ہے کہ ،انسان خلاء کی طرف دیکھنا چھوڑدے اگر خلائی مخلوق مل بھی گئی تو وہ انسان کو ختم کردے گی مزید یہ کہ انسان صرف زمین کی پیداوار ہے اور زمین پر ہی زندہ رہ سکتا ہے اگر اس نے کہیں اور جاکر آباد ہونے کی کوشش کی تو وہ تباہ ہو جائے گا۔ اسٹیفن ہاکن کی اس پیش گوئی کی بہت سے سائنس دانوں اور ماہرین نے درست قرار دیا ہے۔

تاہم زمین پر قدرتی ماحول میں بگاڑ موسمی تغیرات کا صرف اور صرف انسان ہے اس کی خود غرضی لالچ اور ہوس نے اس حسین کرہ ارض کو زمینی جہنم میں تبدیل کردیا ہے۔ اس حوالے سے گزرے ستر برسوں میں اقوام متحدہ اور دنیا کے پانچ سو سے زائد چوٹی کے سائنس دانوں نے دو درجن سے زائد دنیا کے سربراہوں کی کانفرنسیں منعقد کی ہیں، مگر اس کے باوجود معاملہ جوں کا توں ہے۔ اس حوالے سےکہا جاتا ہے کہ، خلاء میں کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ہے،جہاں انسان قدم جما سکے۔

اگر کوئی ایسا سیارہ ہے بھی تو وہ کم از کم اربوں کھربوں سال دورہوگا۔ درحقیقت خلاء میں فاصلے اس قدر ہیں کہ ہماری زمین میں نہیں سما سکتے، انسان کو جو کرنا ہے وہ زمین پر کرنا ہوگا۔ اگر انسان واقعی سدھار لانا چاہئے تو اپنا طرز زندگی تبدیل کرے۔ قدرتی ایندھن اورآلودگی پید اکرنے والی اشیاء مصنوعات اورذرائع ترک کردے، مگر انسان سادہ زندگی کی لوٹنے کے لئے راضی نہیں۔ اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ کرہ ارض پر قدرتی ماحول میں بگاڑ اور موسمی تغیرات نے انسان کو اب خلاء کی طرف دیکھنے پر زیادہ مائل کر دیا ہے، کیونکہ ماہرین کی رائے کے مطابق زمین زیادہ خطرات سے گھرتی جا رہی ہے۔ قدرتی ماحول اور موسمی حالات میں بگاڑ زیادہ پیدا ہو رہا ہے۔ انسانی کاوشیں آلودگی کم کرنے میں زیادہ کامیاب نظر نہیں آرہی ہیں اور نہ انسانی آسائشات اور ضروریات میں کمی کے آثار ہیں۔ دنیا نے جو کچھ حاصل کر لیا اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری طرف ہماری زمین سسکیاں لے رہی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے امیر ترین افراد نے امریکی سائنس دانوں اور ماہرین کے اشتراک سے نجی خلائی کمپنیاں قائم کرلی ہیں۔ مثلاً ایلن مسک اور دوسرے ارب پتی خلاء میں سفر کرنے کا سامان کر رہے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ آئندہ سال ایک سو مسافروں کو لے کرخلاء میں چکر لگا کر آئیں گے۔ یہ کمپنی ایلن مسک نے قائم کی ہے جو فی الوقت دنیا کے امیر ترین شخصیات میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

اس کے علاوہ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا چاند کے علاوہ اب مریخ پرزیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ ناسا نے مریخ پر خلائی اسٹیشن بھی قائم کر لیا ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی دور میں ماضی بعید میں مریخ پر پانی تھا ہرچند کہ مریخ پر زمین جیسا قدرتی ماحول نہیں ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ مریخ پرانسانی رہائش کے لئے جو تجربات کئے جا رہے ہیں ان سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ مریخ پرانسان کورہائش کیلئے ایک حد تک سازگار ماحول میسر آسکتا ہے،جو دیگر سیاروں پر میسر نہیں ہے۔ اس حوالے سے روس اور چین بھی چاند اور مریخ مشن پر تیزی سے کام کر رہے ہیں۔

بیش تر ماہرین کا کہنا ہے کہ خلاء کے حوالے سے اور سیاروں کے متعلق امریکی تحقیقی ادارہ ناسا کے پاس بہت زیادہ معلومات ہیں جو دیگر خلائی تحقیقی اداروں کے پاس نہیں ہیں۔

ادارہ ناسا امریکہ کا سب سے اہم ادارہ تصور کیا جاتا ہے اس ادارے میں لگ بھگ انیس ہزار افراد کام کرتے ہیں، جن میں سائنس دان، ماہرین انجینئرزاور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں، اس ادارے کا سالانہ بجٹ تیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ناسا کا مرکزی آفس واشنگٹن میں ہے،جبکہ دس مزید مراکز پورے امریکہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ناسا فضا، پانی، زمین پر تحقیق کرتا ہے۔ اس کی سب سے اہم زمےداری فضا اور خلاء پر نظر رکھنا ہے، تاکہ جو شہاب ثاقب آسمان سے زمین کی طرف آتے ہیں ان سے خبردار رہا جائے۔ 

گزشتہ تیس برسوں میں دو بڑے شہاب ثاقب جو بڑی بڑی چٹانوں کی صورت میں تھے ،زمین کی طرف آرہے تھے۔ سائنس دانوں کو خطرہ تھا کہ اگر یہ زمین سے ٹکرائے تو بڑی تباہی پھیلا سکتے ہیں ان میں سے ایک کو ناسا نے طاقتور راکٹوں کی مدد سے خلاء میں تباہ کر دیا اور دوسرے کا رُخ موڑ دیا۔ ناسا کے حوالے بہت سے قصے مشہور ہیں، تاہم بلاشبہ یہ ایک اہم ترین خلائی تحقیقی ادارہ ہے، اس لئے پراسرار بھی ہے۔

گزشتہ سال ناسا نے جو دیوہیکل خلائی دُوربین جس کا نام ،جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ،ہے اس نے خلائی تحقیق اور سائنسی تحقیق کی دنیا میں تہلکہ مچا دیاہے۔ بتایا جاتا ہے اس ٹیلی اسکوپ نے کائنات میں چھبیس ہزار کہکشائوں کا پتہ چلایا ہے جبکہ ہر کہکشاں میں کھربوں اسٹارز ہیں، اس کے علاوہ اس نے ایک بلیک ہول کے علاوہ دوسرے بلیک ہول کا بھی پتہ چلایا ہے۔ اس طرح بیش تر خلائی نظریات غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ ٹیلی اسکوپ بہت اہم تصاویر بھی ارسال کر رہی ہے، جس میں کچھ ایسی اشیاء بھی شامل ہیں جس کے بارے میں سائنس دان لاعلم تھے۔ دوسرے لفظوں میں فلکیات کی دنیا میں ایک نیا انقلاب آرہا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ خلائی سائنسدان اور ماہرین کرہ ارض کے قدرتی ماحول میں بگاڑ سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں اور سیاہ مریخ پر زندگی بسانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اس معاملہ میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کرہ ارض کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ہرچند کہ زمین کو بچانے کی بھی کوششیں پوری تندہی سے جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مریخ پر انسانی قدم جمانے کی بھی کاوشیں جاری ہیں۔

درحقیقت پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں روسی سائنسدانوں نے خلاء میں قد م رکھنے اور چاند کو تسخیر کرنے کی جدوجہد شروع کی۔1957ء میں پہلا خلاباز یوری گگارین کو روس نے خلاء میں بھیجا۔ بعدازاں پہلی خلاء باز خاتون ویلنٹینا بھی روس نے خلاء میں بھیجی۔ اس کے علاوہ روس کی خلائی تحقیقی اور ٹیکنالوجی امریکہ سے ایک قدم آگے رہی۔ امریکہ نے روس کی ضد میں اپنا بھی خلائی مشن، اپالو ون خلاء میں بھیجا، اس طرح روس امریکہ کے مابین خلائی تحقیق کی دوڑ شروع ہوگی۔ 1969ء میں امریکہ نے اپنا خلاء باز چاند پر اُتاردیا اور اس سے ایک قدم آگے بڑھ گیا،جبکہ روس کا دعویٰ ہے کہ چاند سے پہلے خلا باز آرم اسٹرونگ جو پتھر لائے وہ روس نے پہلے ہی اپنے سیارے کے ذریعے حاصل کر لئے تھے جبکہ اپالو مشن پر امریکہ نے روس کے مقابلے میں تین گنا زیادہ خرچہ کیا۔

روسی ٹیکنالوجی کے حوالے سے روس کو آج بھی امریکہ پر اس کی سبقت حاصل ہے کہ روسی خلاء باز خلاء سے واپسی کے بعد ماسکو کے ریڈاسکوائر میں اُترتے ہیں جبکہ امریکی خلاء باز سمندر میں گرتے ہیں جہاں امریکی نیوی کے جہاز انہیں سمندر سے زمین پر لاتے ہیں۔ خلائی تحقیق پر جو خرچ آتا ہے اسی حوالے سے بیش تر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ اصراف بے جا ہے۔ اتنا پیسہ انسانی فلاح و بہبود پر خر چ کیا جائے تو دنیا کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ غربت، پسماندگی میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے،انسانیت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

بیش تر دانشور، ماہرین یہ تک کہتے رہے ہیں کہ بڑی طاقتیں ایک لڑاکا طیارہ اور ایک بلیسٹک میزائل پر جو خرچ کرتے ہیں اس سے دو ہزار اسکول ا ور ایک ہزار مکمل اسپتال تعمیر کئے جا سکتے ہیں، جبکہ لڑاکا طیارہ یا دورمار میزائل تباہی بربادی کے سوا کیا دے گا۔

مگر امریکہ جیسی بڑی طاقت جہاں تعلیمی اوسط 98 فیصد ہے دنیا کی عظیم درس گاہوں میں جہاں جدید تحقیقی ادارے،علمی سائنسی کتابیں اور تحقیقی مقالات سے بھری بے شمار لائبریریاں موجود ہیں اور دنیا کے سب سے زائد نوبل انعام یافتہ شخصیات جہاں آباد ہیں ،وہاں صرف جدید مہلک ہتھیاروں کی تجارت اور تیاری پر سارا زور صرف کیا جاتا ہے، اس طرح اس دوڑ میں اب روس، چین، فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہو چکے ہیں، ایسے میں انسانی کرتوتوں اور قدرتی آفات، ہر دو جانب سے کرہ ارض کو خطرات لاحق ہیں۔

اس طرح کرہ ارض پر انسانیت کا مستقبل مخدوش ہوتا محسوس کیا جا رہاہے۔سائنس دانوں اور ماہرین کا ایک بڑا طبقہ خلائوں پر نظریں جما رہا ہے کہ مستقبل میں اگر زمین پر حالات اور قدرتی ماحول بے قابو ہو جائے تو کسی اور سیارے کی طرف پرواز کرجائیں، تاحال ایسا ہی کچھ محسوس کیا جا رہاہے، مگر سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد اس تمام صورتحال سے مطمئن نہیں ہے،ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ انسان اگر خلاء میں کہیں دور کوئی ایسا سیارہ دریافت کرلیتا ہے تو بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ وہاں پہنچ جائے گا،کیونکہ خلاء میں یا سیاروں کے درمیان فاصلے اتنے زیادہ طویل ہیں کہ انسان کو ہزاروں سال لگ سکتے ہیں ،جبکہ انسانی عمر کی حد بھی اس فاصلے کے مقابلے میں لمحاتی ہے۔ 

مریخ کا فاصلہ راکٹ کی رفتار کے مطابق آٹھ ماہ کا ہے جبکہ دیگر سیاروں کے فاصلے نوری برسوں میں ہیں۔ ایسے میں یہ سوال سب سے اہم ہے کہ انسان اپنی زیادہ سے زیادہ عمر میں بھی صرف سوچ سکتا ہے ،کیونکہ نوری سال کا ایک سیکنڈ دو لاکھ چھیاسی ہزار میل کے مساوی لائٹ کی طرح سفر کرے گا۔ روشنی کی رفتار سے بھی سفر کیا جائے تو بڑی مدت درکار ہوگی۔ سیاروں کے فاصلے نوری برسوں میں ناپے جاتے ہیں ۔ ایسے میں انسانی عمر تو محض پلک جھپکنے جیسی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خلائی مہم جاری رکھنا انسانی کی ضرورت ہے بعض سیاروں پر نہایت قیمتی معدنیات بکھری پڑی ہیں۔ بعض پر سونے کے پہاڑ ہیں، قیمتی پتھر ہیں جو انسانی ترقی میں بے حد مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں،وہاں سے انسان نئی نئی دریافت کر سکتا ہےاورایسے بھی فوائد حاصل کر سکتا ہے جو اس نے شاید سوچے بھی نہیں ہوں گے۔ اس لئے خلائی تحقیق کے مشن کو جاری رکھنا ضروری ہے ہر چند کہ اس پرخرچ بہت آتا ہے مگر مستقبل میں انسانیت کوبہت سے فوائد حاصل اور نئے نئے انکشافات ہو سکتے ہیں ۔عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں آلودگی کم کرنے اور قدرتی ماحول میں سدھار لانے میں بھی کامیابی مل جائے۔

اس کے باوجود ان ماہرین کا بھی خیال درست ہے کہ تاحال انسان اتنی ترقی کے بعد بھی زمین کے بہت سے راز نہیں پا سکا ہے۔ یہ راز پانے سے قبل کرئہ ارض کو پوری طرح دریافت کرلے اور قدرتی ماحول میں بگاڑ کی وجہ سے جو ا ٓفات نازل ہو رہی ہیں ان پر قابو پالے۔

جاری حالات میں بعض وبائی امراض ابھر رہے ہیں اور انسانیت کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں،ان پر قابو پالے، چند سرطان ایسے ہیں جن پر میڈیکل سائنس تاحال قابو نہیں پا سکی۔ انسان کو ان معاملات پر پہلے دھیان دینا چاہئے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر وبائی یا مہلک امراض براعظم افریقہ سے دنیا میں پھیلے ہیں ،ان کا تدارک کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں اس کرہ ارض پر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکن نے اپنی آخری وصیت میں کہاتھا کہ ،انسان یہ نہ بھولے کہ وہ زمین کی پیداوار ہے، زمین پر ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ خلائی مخلوق کی تلاش خطرناک ثابت ہوسکتی ہے،وہ اگر دریافت ہو گی توانسان کو ختم کردے گی۔