ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آئین استعمال کر سکتے ہیں، انتخابات والے فیصلے پر نظرِ ثانی کا وقت اب گزر چکا۔
حکومتی نمائندے فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے، افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہو جائے تو بحرانوں سے نجات مل جائے گی، اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا۔
پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کے رکن علی ظفر کا کہنا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے اسمبلی تحلیل کرنے سے اتفاق نہیں کیا، حکومت ان مذاکرات کو معاملے کو طول دینے کے لیے استعمال نہ کرے، سپریم کورٹ جو حکم کرے گی ہم من و عن تسلیم کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ حکومت نے بھی اپنا جواب جمع کرا دیا ہے، فاروق نائیک صاحب مذاکرات سے متعلق مزید بتائیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے رہنما بھی موجود ہیں، ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے ایک متفرق درخواست بھی جمع کرائی ہے، چیئرمین سینیٹ کے آفس میں مذاکرات ہوئے، چیئرمین سینیٹ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا، دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے 5 ادوار ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف کا قرضہ سرکاری فنڈز کے ذخائر میں استعمال ہو گا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ جواب وزیرِ خزانہ دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی توڑنے پر بھی بجٹ کے لیے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے، اخبار میں پڑھا کہ آئی ایم ایف کے پیکیج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے، تحریکِ انصاف نے بجٹ کی اہمیت کو تسلیم کیا یا رد کیا ہے؟ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ 90 دن میں انتخابات کرانے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔
مذاکرات ناکام ہوئے تو اپنے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے آئین استعمال کر سکتے ہیں‘‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عمل داری کا معاملہ ہے، 90 دن میں انتخابات کرانے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے، کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی، آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین استعمال کر سکتے ہیں، عدالت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے، کہا گیا کہ ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا اور اس سے نقصان ہوا، اس عدالت نے ہمیشہ احترام کیا اور کسی بات کا جواب نہیں دیا، جب غصہ ہو تو فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ ہی نہیں کرتے، نائیک صاحب! یہ دیکھیں یہاں کس لیول کی گفتگو ہوتی ہے اور باہر کس لیول کی ہوتی ہے، عدالت اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا موازنہ کر کے دیکھ لیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کو 90 دن میں انتخابات والے معاملے کا دوبارہ جائزہ لینا ہو گا، انتخابات کے لیے نگراں حکومتوں کا ہونا ضروری ہے، منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا، یہ نظریۂ ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ 23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں، یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے، آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں تو عدالت نے سنا ہی نہیں تھا۔
’’حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے‘‘
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سماعت شروع کی تو حکومت نے بائیکاٹ کر دیا، حکومتی بائیکاٹ کے بعد ہم نے بھی کہہ دیا کہ السلام علیکم! حکومت نے سنجیدگی سے کیس چلایا ہی نہیں، حکومت نے کبھی فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے، جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا لیکن حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں، کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا، حکومت کی سنجیدگی یہ ہے کہ ابھی تک نظرِ ثانی درخواست دائر نہیں کی، حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے، ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہوا ہے، 6 فوجی جوان ہم نے گزشتہ روز کھو دیے، یہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہے، معاشی حالات کے علاوہ ہمیں آج سیکیورٹی کا اہم مسئلہ بھی درپیش ہے، اگر سیاست دانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو آئین کہاں جائے گا؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 6 نہیں بلکہ 8 جوان شہید ہوئے اور اساتذہ کو بھی مارا گیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ملک کی خاطر بہت بڑی قربانیاں دی جا رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ تحریکِ انصاف نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا، ایک ہی دن انتخابات پر دونوں فریقین نے رضا مندی ظاہر کی، حکومت مذاکرات کو معاملے کو طول دینے کے لیے استعمال نہ کرے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر سب کو عمل کرنا ہو گا، ہم نے مذاکرات میں کہا کہ قومی اسمبلی توڑ کر سپریم کورٹ کو آگاہ کیا جائے، حکومتی کمیٹی نے اسمبلی توڑنے سے اتفاق نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق نائیک نے ہمارا فیصلہ چیلنج نہیں کیا صرف مشکل حالات کا بتایا۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ جو حکم کرے گی ہم من و عن تسلیم کریں گے، ابھی تک حکومت نے پنجاب میں انتخابات کے لیے فنڈز نہیں دیے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق روسٹرم پر آ گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق صاحب! خوش آمدید۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں وکیل نہیں اس طرح شاید بات نہ کر سکوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مائیک کے ساتھ کتاب رکھ دیتے ہیں، آپ کے قد کے لیے یہ اچھا ہو گا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا، 2017ء سے معذرت کے ساتھ سپریم کورٹ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی، میرے ساتھ اس عدالت نے زیادتی کی، ہم اداروں سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، مذاکرات میں حکومت نے لچک دکھائی مگر دوسرے فریق نے لچک نہیں دکھائی، آئین 90 دن میں انتخابات کا کہتا ہے کہ مگر صاف و شفاف انتخابات کا بھی کہتا ہے، پنجاب میں پہلے انتخابات سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے، انتخابات کے معاملے پر ہی پہلے آدھا ملک گنوا چکے ہیں، ایک صوبے کا انتخاب ہونا تباہی لا سکتا ہے۔
حکومت نے مذاکرات کے لیے سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا اور عدالتِ عظمیٰ سے انتخابات سے متعلق کوئی ڈائریکشن نہ دینے کی بھی استدعا کی۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ سپریم کورٹ کوئی ہدایت یا حکم نہ دے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا کسی قسم کی کوئی ہدایت کا ارادہ نہیں، ہم آپ لوگوں کو سننے کا اختیار تو رکھتے ہیں۔
سعد رفیق نے کہا کہ گزارش ہے کہ انتخابات کے لیے مذاکرات پر بریک آئی لیکن بریک اپ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مذاکرات میں مداخلت نہیں کریں گے نہ کوئی ہدایات دیں گے، آج جمعہ ہے، مذاکرات کرنے ہیں تو آغاز کر دیا جائے، مذاکرات نہ ہوئے تو ایک دو روز بعد اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔
درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی نظرِ ثانی کی درخواست آ چکی ہے، حکومت کو بھی نظرِ ثانی دائر کرنی چاہیے، وزیرِ اعظم شہباز شریف اور عمران خان کو ویڈیو لنک پر لے لیا جائے، عمران خان اور وزیرِ اعظم کو سننے کے بعد حل جلد نکلے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعظم یا عمران خان مصروف لوگ ہیں، عمران خان اور شہباز شریف کے نمائندے یہاں موجود ہیں، ہم صرف کالے کوٹ والوں کو سننا پسند کرتے ہیں، یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نظرِ ثانی درخواست کا حق رکھتا ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور عمران خان کو ویڈیولنک پر لینے کی استدعا مسترد کر دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات والے فیصلے پر نظرِ ثانی کا وقت اب گزر چکا ہے۔
وائس چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف شاہ محمود قریشی نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ حکومت میں بیٹھے لوگ تکبر کر رہے ہیں، حکومتی کمیٹی کے مذاکرات سے متعلق جواب میں صرف اسحاق ڈار کے دستخط ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے رات کو درخواست تیار کی جس کو نمبر لگائے بغیر ہم سن رہے ہیں، ہم اس معاملے میں صرف سہولت کاری کرنا چاہتے ہیں، ایک ہی روز انتخابات کی تاریخ پر اتفاقِ رائے ہونا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آئی ایم ایف سے حکومت کے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مالی مشکلات کا ہمیں علم ہے مگر آئی ایم ایف سے معاہدہ تعطل کا شکار ہے، پاکستان اس وقت سیاسی بحران کا شکار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تحریکِ انصاف مذاکرات چاہتی ہے یا نہیں؟
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریکِ انصاف مذاکرات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
سپریم کورٹ نے ایک ساتھ انتخابات کرانے کی آج کی سماعت مکمل کر لی اور چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے مقدمہ نمٹانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آج اس درخواست کو نمٹا دے، 14 مئی کے فیصلے کو بعد میں سن لیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگرعدالت مقدمہ نمٹا دے گی تو کیس کا اصل مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے ہم نے اپنا جواب جمع کروایا ہے، یقین ہے جج صاحبان نے اس کا مطالعہ کر لیا ہو گا، تحریکِ انصاف معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے بیٹھی ہے، الیکشن کا پراسس اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے، آئین کو بچانے کے لیے ہم نیک نیتی سے بیٹھے، سیاست میں راستے کھولے جاتے ہیں، پیش رفت ہوئی لیکن ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس اس پر نمٹا دیں کہ فریقین ایک تاریخ پر الیکشن کرانے پر متفق ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ آپ صرف وعدے کرتے ہیں، یہ نکتہ تحریری طور پر دیا جا سکتا تھا کہ پنجاب بڑا صوبہ ہے اور اس کے انتخابات سے چھوٹے صوبے متاثر ہوں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملک کو آئینی بحرانوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، ہماری جماعت کا مؤقف دیکھیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم نے آپ کا مؤقف پڑھ لیا ہے، دوسرے کیس میں کارروائی ہو سکتی ہے، اگر دلچسپی ہو تو دوبارہ مذاکرات پر آ جائیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جتنی گنجائش کی توقع تھی اتنی نہیں ملی، حکومت لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہی، کیا ہمیں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں چبھ رہی تھیں؟ آئین کے تحت اپنی دو حکومتوں کی قربانی دی، مذاکرات کا ایک ماحول ہوتا ہے، ہم مذاکرات کر رہے ہیں یہ پکڑ دھکڑ کر رہے ہیں، تنقید کے باوجود ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھے، وزیرِ قانون بڑا ایماندار آدمی ہے، انہوں نے مذاکرات کے دوران کہا کہ فیصلہ چار تین کا ہے، ہمیں حیرانی اور شرمندگی ہوئی جب سپریم کورٹ پر جملے بولے گئے، تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ کے حکم کی پاسداری کی، حکومت کے ساتھ مزید بیٹھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔