• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے ناپاک کی گئی میری سرزمین پاک!

میرے منہ میں خاک ۔میں جانتا اور مانتا ہوں کہ تیرا ماحول، تیری ہوا و فضا تیرے آغاز و شباب اور آج کو کتنا آلودہ بنا دیا گیا ۔تجھ پر عشروں کتنا گند برسایا گیا ،اتنا مکدر اور اتنا پیچیدہ و بوجھل کہ ہر فرد و گھرانہ و گائوں ،گلی ، محلہ و شہر ،سیاست و صحافت بے اعتبار و بے وقار ہوئی ۔محکمے اور ایوان ہائے اقتدار و اختیار و عدل و انصاف اور مراکز طاقت و تحفظ سب ہی تو سوال بن گئے ۔جواب ملتے نہ تھے ناپید ادھورے یا ملاوٹ شدہ، اب سوال و جواب کا ایسا جدل کہ اللہ کی پناہ، گویا اب اس بدسلوکی کی انتہا ہے ایسے کہ جھوٹ غالب، سچ کا فقدان۔ حق بولنا آسان نہیں جس نے بولا، خطا کی، ہاں مشینی دور فقط مشینی نہیں، دورے بے حجابی ہے تیرے گھروں کے درو دیوار بھی محفوظ نہیں، غوطہ خور خواب گاہوں تک کو عیاں کر دیتے ہیں۔غرباء کی عزتِ نفس کا تو کوئی پاس نہیں، عزتِ سادات کی بھی دھجیاں اڑ گئیں اور بڑے بڑے وڈیروں، چوہدریوں کی ٹوپیاں اتر اور پگڑیاں اچھل گئیں ۔تدارک نہ سزا، ظلم بڑھ کر بھی بڑھتا جا رہا ہے مٹنے کا نام نہیں لے رہا ۔اس پاپ ہوئی سرزمیں پر پیدا ہو کر پیر ہوئے اور آج سراپا سوال، کیا کریں کدھر جائیں ،کس سے کہیں ،کتنا کہیں، کون سنے اور کیا کرے؟نہیں معلوم جسے ہے وہ کچھ کرتا نہیں بس محبت کے دعوے ہیں اور اب تو دھونس دھمکی کا چلن عام ہوا عجب سی کیفیت و حیثیت،ہراساں و پریشاں ،غریب اور غریب ہوا، امرا کی کوئی حد نہیں تاج راج ہی نہیں، سب ہی کچھ ان کا غریب کی روٹی مہنگی ہوئی ساتھ ساتھ چھوٹی بھی۔ آٹا مفت بٹا بھی تو کتنا ؟اس پر بھی کتنوں کی جان لے گیا گھٹیا ہو کہ کٹا بھی، کٹوتی بھی چوتھائی، اپنوں نے اسے 20ارب کی چوری کہا اور چور چپ۔ اب میڈیا گھٹیا مگر مفت بٹے آٹے کی سرعام سستی فروخت کی خبریں چلا رہا ہے کوئی جانچنے والا نہیں کہ وطن کی اتنی مفلسی میں دسیوں ارب کا یہ کھلواڑ کیسے ہوا؟

پارلیمان میں دھواں دھار تقریروں کے بعد خادم اعلیٰ وزیر اعظم اتحادیوں کے اعزاز میں ڈزن ڈش کی دعوت شیرازکے بعد برطانوی بادشاہ کی تاج پوشی میں شرکت کیلئے لندن روانہ ہو گئے ۔رپورٹس کے مطابق بے آئین ہوتی پاک مگر پریشان سرزمین کو سنوارنے بنانے کی فکر میں اتحادی سیاست کے لندن چیپڑ میں سیاسی محفلیں ہوں گی جس کیلئےفکرمند لیڈروں کو بھی لندن طلب کیا گیا ہے۔ یہ خبر نہیں کہ اپنے یا سرکاری خرچے پر ۔

قارئین کرام ! یہ ہے اجڑے وطن کی وہ صورت ِپریشاں جس میں راج تاج والوں، ماحول پر چھائے ان کے شتربے مہار جملہ راج دلاروں اور طاقت و تنظیم و حفاظت کے اصل اوربڑے مرکز سیاسی لشکروں اور ٹولوں، قاضیوں اور کوتوالوں اور بابوئوں ،صاحبوں کو زور زور سے یہ بتلانا اور جتلانا ضروری ہے کہ ہم سب کے جس عزیزوطن کے ساتھ اور جس میں یہ بدتر دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے، اس کا نام نامی ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ ہے۔ عہد کوئی بھی ہو حکومت جیسی بھی ہو نیم جمہوری یا ملٹری سول کامیاب یا ناکام مزاجاً جمہوری یا فسطائی، اس کا آئین متفقہ ہو یا فرد واحد کا بلا نفاذ ختم کر دیاگیا ہو، نافد العمل ،معطل ہو یا بگڑے حلیے کے ساتھ مسخ نام، آئین ایک ہی چل رہا ہے’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘، چلو کہیں تو پوری قوم، عوام تا حکام ایک پیج پر ہیں کہ نام مومنانہ ہو خواہ کرتوت جتنے بھی کافرانہ ہوں۔ آج جو کچھ اس بچاری اسلامی جمہوریہ کے ساتھ اور اس میں جتنا اور جس دھڑلے سے ہو رہا ہے، اس میں دماغ کے نہ جانے کون سے حصے اور کس خلیے سے برسوں پہلے یاد ہوا (اور پھر غائب ہو کر بھولا ) استاد داغ دہلوی کا اک شعر کھٹ سے نکل کر زبان پر وارد ہوا اور ایسا کہ صبح شام اس کی تکرار جاری رہتی ہے۔ملاحظہ ہو

تو جان ہے ہماری اور جان ہے تو سب کچھ

ایمان کی کہیں گے ایمان ہے تو سب کچھ

جیسے ہی شعر کی تکرار سے مستی آئی ہے کان میں ’’وہ کہاں سے آئے ؟وہ کہاں سے لائیں ؟‘‘کی صدا سنائی دیتی ہے اور اس کا والیم بڑھتے بڑھتے تو جان ہے ہماری مستی کو کافور کر دیتا ہے ۔سوال ہے تو تگڑا کہ ایمان کہاں سے آئے، کہاں سے لائیں؟

یارو !یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ نام نامی محترمہ اسلامی جمہوریہ میں’’کرتوتِ کافراں‘‘ تو کوئی نئی بات نہیں لیکن آج کے ’’آئین نو کے عنوان میں‘‘ اس کی انتہا‘‘ کا جو اضافہ کیا گیا ہے سوال تو بنتا ہے کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟جواب، محترمہ (عدالت) عظمیٰ کے ساتھ انتہا کی ابلاغی بدسلوکی، اسے دھمکیاں ، رات دن، سر عام اور بے قابو دیدہ دلیری سے ہراساں کرنا پھر اس کی پارٹی بازی پر اپنی تقسیم اور اس کی آڑ میں محترمہ عظمیٰ سے بڑھ کر محترمہ اسلامی جمہوریہ سے ہو کر سلوک کے ساتھ دونوں کے محافظ آئین پاکستان پرپے درپے حملے کرکے اسے مفلوج کرنا، اسلامی جمہوریہ میں کرتوت ِکافراں کی انتہا نہیں تو کیا ہے ؟اس سے قبل عزیزی عظمیٰ پر دھاوا اور اس کے کسٹوڈین کا پچھلے دروازے سے فرار تو ہمارے مستقل ہوئے کرتوتِ کافراں کا ریکارڈ تو ہے لیکن آئین کی پتلی گلی سے نکل کر بذریعہ گھوڑا بازار حکومت ہٹا اور اپنی بنا کر پھر انعقاد انتخاب کو ناممکن بنانے کے لئے آئین و عدالت کو جامد کرنے کی کوئی مثال لاکر دکھائو تو جانیں پھر یہ جو بغیر الیکشن کے ہوا، سب کچھ کرنے والی خالی خولی نگران حکومتوں کا دھڑلے سے راج ہے یہ اسلامی جمہوریہ میں کرتوتِ کافراں کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟

٭٭ ٭ ٭ ٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین