• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں میں پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر ستندر کمار لامبا کی ’’امن کے تعاقب‘‘ میں بھارت پاکستان کے چھ بھارتی وزرائے اعظم کی کوششوں کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب کے دقیق مطالعے اور اس کے کتابی ریویو میں مصروف رہا جو آپکی نذر کر رہا ہوں۔ اس دوران پاکستان کے نوجوان اور قابل وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے بھارت کی ریاست گوا کے عقابی دورے نے برصغیر میں تھرتھلی مچادی اور ذوالفقار علی بھٹو کی یاد تازہ کردی۔ برصغیر میں ماحول کتنا کشیدہ ہے اسکا اندازہ بھارت میں میڈیا کے میزبانی ردعمل اور پاکستان میں تحریک انصاف کی بے محل تنقید سے کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی خارجہ امور کے وزیر سبرا مانیم جے شنکر نے غالباً بلاول بھٹو سے مصافحہ کرنے کے گناہ سے بچنے کیلئے سارے مہمانوں کو دور سے ہی نمشکار کرنے میں عافیت جانی، لیکن کھانے کی میز پر ماحول خوشگوار رہا اور خوب گپ شپ رہی، لیکن دونوں وزرائے خارجہ کی دو طرفہ ملاقات طے تھی نہ ہوئی۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ نے ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ کی شکایت اس زور سے کی کہ بلاول بھٹو کے جواباً عقابی ردعمل سے کانفرنس کا ماحول تلخ ہوگیا۔ انہوں نے SCO کے ایجنڈے پہ رہتے ہوئے علاقائی تجارت اور کاروباری شاہراہوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے SCO کے ادارے RATS کے توسط سے اجتماعی کوششوں کی دعوت بھی دی جسے سراہا گیا۔ بھارتی میڈیا پہ جو طوفان بدتمیزی مچا تھا ، اس کے توڑ کیلئے بلاول بھٹو کے انڈیا ٹوڈے، دی ہندو اور صحافیوں کے انٹرویوز میں پاکستانی وزیر خارجہ نے بھارتی ہذیانی بیانیے کے نہایت تحمل سے چھکے چھڑا کر صف ماتم تو بچھا دی، لیکن ماحول ظاہر ہے بہت خراب ہوگیا جسکا کہ شاید انکا ارادہ نہ تھا۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ بلاول بھٹو دھیمے لہجے کے خونخوار عقاب ہیں اور مجھ جیسے امن کے پجاری کو کسی بھی عقاب کی باتیں کبھی نہیں بھاتیں۔ بہرکیف، بلاول کو بھارت میں عمران خان کو گواہ بنا کر خوب لتاڑا جارہا ہے اور پاکستان میں واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں۔ بہتر ہے کہ پاکستان اپنے گلے پڑے دہشت گردی کے ڈھول کو اُتارنے کیلئے بھارت کو پراکسی جنگیں بند کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تجویز دے کر بھارت کو تحریک طالبان پاکستان کی پشت پناہی اور بلوچستان میں جاری شورش میں آگ بھڑکائے رکھنے سے باز کرے۔

شنگھائی تعاون کی تنظیم اور برعکس ایک عالمی مالیاتی و تجارتی متبادل کے طور پر واشنگٹن اتفاق رائے اور امریکی مالیاتی بالادستی اور عالمی غیر مساوی تجارت کے خلاف ایک کثیر القطبی دنیا کی تشکیل نو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ منسٹر آف اسٹیٹ حنا ربانی کھر نے امریکہ سے دیرینہ وابستگی کی خواہش کی خاطر چین سے دیرینہ ہمہ طرف شراکت داری کو قربان کرنے کے خلاف بروقت صائب صلاح دی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں 5 اگست 2019 کے کشمیر کے بھارت میں انضمام کے بعد بھی لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے جو قائم ہے۔ اسوقت یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ تمام گزشتہ معاہدوں کی تکریم اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ بھارت اورپاکستان کے آئندہ انتخابات سے قبل کسی بڑی سفارتی پیش قدمی کے امکان کم ہیں، لیکن کم از کم سفارتی تعلقات تو معمول پر لائے جاسکتے ہیں۔ اگر بھارت کشمیر پہ بات چیت کیلئے تیار ہوتا ہے تو پاکستان کوکیوں دہشت گردی پر بات چیت کیلئے تیار نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان کے موجودہ دگرگوں حالات کا تقاضا ہے اور ہماری ضرورت کہ شمال مغرب سے امڈتی دہشت گردی کو روکنے کیلئے مشرقی محاذ کو ٹھنڈا رکھا جائے اور دوطرفہ تعلقات کے جو باہمی طور پر منفعت بخش پہلو ہیں ان سے فیضیاب ہونے سے کیوں انکار کیا جائے۔

تو بات بھارت کے چوٹی کے سفارت کار لامبا کی کتاب ’In Pursuit of Peace‘ پر ہورہی تھی جس کا میں نے طویل تنقیدی ریویو انگریزی میں کیا ہے۔ لامبا صاحب پشاورکے نہایت متمول خاندان میں پیدا ہوئے اور پارٹیشن کی خونی ماردھاڑ میں بچپن میں ہی تارک وطن ہونے پہ مجبور ہوئے، انہوں نے بھارت کی پاکستان پالیسی میں تقریباً تین دہائیوں تک بڑا ہی موثر کردار اداکیا۔ انکی یادداشتیں دو طرفہ اندرونی ملاقاتوں اور ان کی بنتی بگڑتی کوششوں کی تفصیلات سے بھری پڑی ہیں۔ گوکہ انکا نقطہ نظر خالصتاً بھارتی وزارت خارجہ کے روایتی موقف کا عکاس ہے، وہ پاک بھارت تنازعات کو حل کرنے کی بار بار کوششوں میں براہ راست و بالواسطہ شریک رہے۔ پاکستانی عقابوں اور بھارت کو نیست و نابود کرنے کے قومی فریضہ ادا کرنے والوں کیلئے یہ کتاب خاص طور پر مطالعہ کے لائق ہے کہ کس طرح فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف جیسے جری سپہ سالاروں نے پس پشت پاک بھارت عدم جارحیت/ امن و دوستی کے معاہدوں کیلئے اپنی بھارت مخالف عقابیت کے باوجود مسلسل سرتوڑ کوششیں کیں۔ اگر جنرل ضیا الحق کا طیارہ تباہ نہ ہوتا تو بھارت سے دوستی کا معاہدہ طے ہو چکا ہوتا۔ اسی طرح فاتح کارگل ایڈونچر جنرل مشرف کی پہلے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور پھر وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی میں کشمیر کے مسئلے پر مشرف ہی کے چار نکات پر اتفاق ہوچکا تھا، جس کا صرف اعلان ہونا تھا کہ جنرل کیانی اور وکلا کی عدلیہ بحالی تحریک نے جنرل مشرف کو غیر مستحکم کر دیا۔ اسکے علاوہ سویلین وزرائے اعظم میں میاں نواز شریف واحد وزیراعظم تھے جن کے ساتھ وزیراعظم گجرال سے وزیراعظم واجپائی اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی بات چیت چناب فارمولے سے شروع ہوکر لائن آف کنٹرول کو کاغذ پہ لکیر کی حد تک ماند کرتے ہوئے دونوں اطراف کے کشمیریوں کیلئے حتمی مقامی خود مختاری اور باہمی شراکتی اداروں کی تشکیل کے ساتھ کشمیر کے شہری علاقوں سے فوجوں کی واپسی پہ منتج ہوئی تھی۔ وزیراعظم مودی اور نواز شریف میں بات چیت تیزی سے آگے بڑھ سکتی تھی، لیکن نادیدہ قوتوں کو یہ منظور نہ تھا۔ پھر مودی آر ایس ایس کے ایجنڈے پہ مراجعت کر گئے اور آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی۔ اب بھارت عجب مخمصے میں ہے وہ کشمیر پہ یو این کی قراردادوں اور آرٹیکل 370 کو مردہ قرار دے چکا ہے، لیکن پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے سی پیک کی گلگت و بلتستان سے راہداری پہ بھی معترض ہے۔ حالانکہ بار بار نیو دہلی اپنی اور اسلام آباد اپنی روایتی سرکاری پوزیشنوں سے ہٹتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ جنگ باز قوتیں کشمیر کو محض بہانے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ لیکن یہ دور جنگ بازی کا نہیں۔ معاشی و سائنسی ترقی کا ہے اور یہی برصغیر کے مفلوک الحال لوگوں کی بڑی ضرورت بھی ہے۔ عقاب فاختائوں کی صدائیں سنیں تو کیوں؟

تازہ ترین