• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ کالم میں ہم گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز (ڈی اے وی کالج) کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔ یہ تاریخی کالج جو اصل میں کبھی 29ایکڑ رقبے پر مشتمل تھا، اب صرف 9ایکڑ رقبے پر رہ گیاہے۔ قیامِ پاکستان تک اس تاریخی کالج کا اتنا ہی رقبہ تھا جسے ہم کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد ہر تاریخی عمارت، قدیم باغات، تہذیب اور ثقافت کو تباہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ سو جناب اس انتہائی تاریخی اور خوبصورت کالج کی عمارت کو بھی ہم نے تباہ و برباد کرنے کا سلسلہ 1947ء میں شروع کر دیا تھا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ 14ایکڑ پر اس تاریخی تعلیمی ادارے کے ہوسٹلز تھے، جو کورٹ ا سٹریٹ سے شروع ہو کر ہوتا سنگھ اور سنت نگر روڈ تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس وقت کی حکومت نے مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کو یہاں عارضی طور پر اور دس سے پندرہ روپے ماہانہ کرائے پر کمرے دے دیئے۔ پہلے یہ مہاجرین مفت رہے اور جب حکومت کے پاس کوئی متبادل جگہ نہ بن سکی تو متروکہ وقف املاک بورڈ ( ہندو بورڈ) کی زیرنگرانی انہیں انتہائی معمولی کرائےپر دے دیا۔

لاہور میں مال روڈ، دیال سنگھ مینشن اور لاہور کے دیہاتی ایریا کے علاقے جو تمام کے تمام سکھوں کے نام پر ہیں، انتہائی معمولی کرائے پر آج بھی تین سال سے 99سالہ تک کی لیز پر لوگوں کے پاس ہیں۔ اس کے بارے میں کبھی آپ کو بتائیں گے! تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ اس کالج کے ایک کونے پر چار ایکڑ جگہ مول چند ٹرسٹ کی ہے، جو ہے تو پنجاب حکومت کی مگر اس پر وفاقی حکومت کے محکمہ زکوٰۃ و عشر نے قبضہ کر رکھا ہے، جس جائیداد پر آج بھی مول چند ٹرسٹ کا نام سرکاری کاغذات میں ہے، یہ وہی مول چند ہیں، جنہوں نے سر گنگا رام اسپتال کے اندر مول چند بچوں کا اسپتال تعمیر کرایا تھا، جو آج بھی موجود ہے اور ہر سال ہزاروں بچے یہاں سے صحت یاب ہو کر جاتے ہیں۔ لاہور شہر میں ہندو اور سکھ امراء نے بڑے فلاحی کام کئے ہیں، اس حقیقت کو چھپانا نہیں چاہئے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم نے ان اسپتالوں اور دیگر جگہوں کی اس طرح دیکھ بھال نہ کی۔ خیر جناب ہم جب کالج کی پچھلی طرف سے ایک ہوسٹل پر جس پر مہاجرین قابض تھے جا پہنچے۔ کیا شاندار دو اور تین منزلہ عمارت ہے جہاں سے بعض لوگ ٹوٹے ہوئے پرنالوں سے پانی جان بوجھ کر عمارت اور راستہ پر مدتوں سے پھینک رہے ہیں تاکہ یہ عمارت اور راستہ مزید خستہ اور تباہ حال ہو جائے۔ بڑی مشکل سے اپنے کپڑے اور گندے پانی سے بچ کر ہم اور ڈاکٹر کاشف فراز کالج کے ایک اور تاریخی ہوسٹل کریسنٹ ہوسٹل تک پہنچے۔ ان ہوسٹلوں میں دس ہزار سے زیادہ افراد رہائش پذیر ہیں۔ بہت بڑا ووٹ بینک ہے اور ہر سیاسی لیڈر اور امیدوار ان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ تمہیں یہاں سے کوئی نہیں اٹھائے گا، تم یہاں پر بیٹھے رہو۔ اب ان مہاجرین نے متروکہ اوقاف بورڈ سے چند روپوں میں کرایہ پر یہ جگہ لے کر آگے وکلاء اور فوٹو کاپی کرنے والوں کو کرائے پر دے دی ہے۔ اس ہوسٹل کی اصل شکل و صورت بگاڑ دی گئی ہے۔ اس کالج کے ہوسٹل جس پر مہاجرین قابض ہیں، اس کی عمارت پر ہندی میں دیونند اینگلو آیورویدک کالج کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، جو اب ماند پڑ چکے ہیں۔ اس ہوسٹل کی بالکونی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، لال پتھر کی یہ بالکونی بہت خوبصورت ہے۔

کسی زمانے میں اس کالج میں ایک کالج ایل ایس ایم ایف،ا سکول کالج بھی تھا جس میں مخلوط تعلیم تھی یعنی کو ایجوکیشن اسلامیہ کالج سول لائنز کا افتتاح 1955میں ملک فیروز خان نون وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا تھا۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ ایل ایس ایم ایف ا سکول، کالج اور اسلامیہ کالج سول لائنز کے درمیان ایک بانس کی باڑھ ہوا کرتی تھی۔ اس کالج کے کئی نامور پرنسپلز رہے۔ مولانا ظفر علی خاں کے ایک سوتیلے بھائی پروفیسر حمید احمد خاں بھی یہاں پرنسپل رہے۔ اس تاریخی کالج میں بابائے اردو مولوی عبدالحق، مشہور ناول نگار اگاتھا کرسن، کانووکیشن میں جنرل اعظم خاں آئے اور انہوں نے اس کالج کے طالب علم فقیر حسین ساگارکو ثقافتی انعام دیا۔ ڈاکٹر فقیر حسین ساگا ویٹرنری ڈاکٹر تھےانہوں نے پاکستان میں مورناچ متعارف کرایا تھا کسی زمانے میں ہمارے گھر بہت آیا کرتے تھے چونکہ ہمارا گھر گھوڑا اسپتال (موجودہ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ انیمل سائنسز) بیٹ روڈ ویٹی گن روڈ پر تھا۔ سابق گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خاں بھی اس ادارے کے کانووکیشن میں آئےتھے۔ انبالہ میں ڈی اے وی کالج کے نام کے ساتھ لاہور (انبالہ)لکھا ہوا ہے۔ یہ بڑا تاریخی کالج ہے اور بڑی وسیع تاریخ رکھتا ہے مگر ہم نے اس تعلیمی ادارے کو پاکستان کا بہترین تعلیمی ادارہ بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بہرحال اسلامیہ کالج سول لائنز نے بڑے نامور لوگ پیدا کئے اور کئی نامور اساتذہ اس ادارے سے وابستہ رہے۔جناب خبر یہ ملی ہے کہ تاریخی گورنمنٹ سینٹرل اسکول لوئر مال بھی اب دانش اتھارٹی کے حوالے کیا جائےگا یہ وہ اسکول ہے جو انگریزوں نے رول ماڈل کے طور پر یکم مارچ 1883ء میں ایک مڈل اسکول کے طور پر شروع کیا تھا۔ لاہوریوں کو کیا پتہ بلکہ گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول کے کئی اولڈ اسٹوڈنٹس کو بھی اس کی تاریخ کا پتہ نہیں اس کا آغاز پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ ہال کے سامنے انارکلی گرلز اسکول کی عمارت میں ہوا تھا۔ انارکلی گرلزا سکول اب پتہ نہیں کہاں ہے۔ اس کی تلاش جاری ہے (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین