عالمی اور علاقائی سیاست کے بدلتے موسموں میں چینی اور افغان وزیر خارجہ کا دورۂ پاکستان یقینا خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔پورے خطے میں امن و استحکام چینی قیادت کے سیاسی اور معاشی وژن میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے باہمی تعلقات کی بحالی میں نتیجہ خیز کردار ادا کرکے چینی قیادت نے دنیا کو جنگ و جدل میں جھونکنے والی عالمی قوتوں کے مقابلے میں اپنی بصیرت کی برتری پوری طرح ثابت کردی ہے۔ ہفتے کے روز دفتر خارجہ میں پاکستان اور چین کے درمیان چوتھے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے افغانستان اور پاکستان کو باہمی مذاکرات سے معاملات طے کرنے کا مشورہ دینے اور کشمیر پر پاکستان کی حمایت جاری رکھنے کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ اس موقع پر پاکستان کی سیاسی قیادت اور اداروں کو خیرخواہانہ و دانشمندانہ مشورہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ مستحکم ترقی کے لیے پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی استحکام لائیں تاکہ پاکستان معاشی اور داخلی سطح پر ہمارے ساتھ آگے بڑھ سکے۔ چینی وزیر خارجہ نے یقین دہانی کرائی کہ ہم ہر معاملے میں آپ مدد کرتے رہیں گے،عالمی اقتصادی دبائو کم کرنے کیلئے اسلام آباد سے تعاون کریں گے اور سی پیک کے تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ دیں گے کیونکہ اس کا تعلق پاکستان کی ترقی عوام کی خوشحالی سے ہے ۔ پاکستان کی ترقی کے لیے چینی وزیر خارجہ کی جانب سے سیاسی استحکام کا تازہ مشورہ ایک طویل تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ پاک چین دوستی اگرچہ کئی عشروں سے مثالی ہے لیکن نو سال پہلے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے نے اسے مشترکہ ترقی و خوشحالی کی خاطر پائیدار اور مستحکم جدوجہد کی ایسی بلندیوں تک پہنچا دیا جس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس منصوبے پر حتمی بات چیت اور ابتدائی طور پر تیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے مختلف منصوبوں پر دستخطوںکے لیے چین کے صدرکو نومبر2014 میں اسلام آباد آنا تھا لیکن وفاقی دارالحکومت میں ملک کی منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے جاری طویل دھرنے کی وجہ سے حکومت چین نے سیکویٹی خدشات کے پیش نظر اس دورے کو منسوخ کردیا جس کے بعد چینی صدر اپریل 2015 میں پاکستان آسکے اور سی پیک منصوبوں کی حتمی منظوری عمل میں آئی۔ اس کے بعد ان منصوبوں پر بڑی تیزرفتاری سے کام شروع ہوا جس کے نتائج قومی معیشت میں مسلسل بہتری کی شکل میں سامنے آئے تاہم پاناما لیکس کے بعد ملک کے منتخب وزیر اعظم کو عدالت میں مقدمے اور تاحیات نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھرعام انتخابات کے بعد جو حکومت بنی اس نے اپنے آغاز ہی سے ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے سی پیک منصوبہ سست روی بلکہ تعطل کا شکار ہوگیا ۔ تاہم موجودہ حکومت نے پہلے روز سے چین کی سردمہری کے اسباب کے ازالے کی کوششیں شروع کیں جن کے مثبت نتائج واضح ہیں لیکن پاکستان میں جاری سیاسی انتشار چین کے بھرپور تعاون میں آج بھی رکاوٹ ہے۔واقعاتی حقائق کی رو سے یہ سیاسی عدم استحکام سابق حکمراں جماعت کی جانب سے آئینی طور پر اپنی حکومت کے خاتمے کو قبول کرکے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے بجائے احتجاجی سیاست کا راستہ اختیار کرنے کا نتیجہ ہے ۔ یوں ماضی کی طرح آج بھی احتجاجی سیاست چینی تعاون کی راہ میں حائل ہے۔ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کھلے دل سے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور عام انتخابات کے شیڈول علاوہ ایک متفقہ میثاق جمہوریت بھی مرتب کریں تاکہ چین سمیت ہمارے دوست ممالک معاشی پالیسیوں میں تبدیلی کے خدشات کے بغیر ہمارے ساتھ مشترکہ منصوبوں پر تعاون جاری رکھ سکیں۔