ذرا سوچئے کہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے ایک لیڈر نے آپ کا سرتن سے جدا کرنے پر دو کروڑ روپے کا انعام مقرر کر رکھا ہو تو کیا آپ بھارت جائیں گے؟
یہ وہ سوال ہے جو کچھ دن پہلے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ بھارت کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا تھا۔
چند ماہ پہلے دسمبر 2022ء میں بھارتی وزیر خارجہ کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے بلاول نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو قصائی قرار دیا تھا جس کے بعد اترپردیش میں بی جے پی کے لیڈرمنو پال بنسل نے بلاول کے سر کی قیمت دو کروڑ روپے مقرر کی تھی۔ بی جے پی نے پورے بھارت میں پاکستان کے وزیر خارجہ کے خلاف مظاہرے کئے اور ان کے پتلے جلائے۔
جب بھارتی وزیر خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لئے پاکستانی وزیر خارجہ کو دعوت دی تو کئی بھارتی صحافیوں نے مجھے پوچھا کہ بلاول صاحب بھارت آئیں گے یا نہیں کیونکہ یہاں تو ان کے قتل پر انعام مقرر کیا گیا ہے؟ میں نے جواب میں کہا کہ ایس سی او کے وزرائے خارجہ کا اجلاس گوا میں بلایا گیا ہے اور گوا میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے لیکن بلاول صاحب کسی قاتلانہ حملے کے خطرے سے گھبرانے والے نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ انکے دورہ بھارت کو پاکستان میں اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں کس نظر سے دیکھا جائے گا؟
سچ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی اکثریت بلاول کے دورہ بھارت کے خلاف تھی کیونکہ بھارت کی طرف سے تمام عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں اس لئے مقبوضہ جموں و کشمیر سے بھی یہی پیغامات آ رہے تھے کہ بلاول کو بھارت نہیں جانا چاہئے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایس سی او اجلاس میں شرکت کی دعوت کا ہر پہلو سے جائزہ لیا۔ حکمران اتحاد نے دیگر ریاستی اداروں سے بھی صلاح مشورہ کیا کیونکہ یہ دعوت بھارت کی طرف سے نہیں ایس سی او کی طرف سے تھی جس کا ہیڈ کوارٹر بیجنگ میں ہے۔
ابتداء میں ایس سی او کا نام ’’شنگھائی فائیو‘‘ تھا اور اس میں صرف چین، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور روس شامل تھے ۔ بعد میں ازبکستان کو بھی اس تنظیم میں شامل کرکے ایس سی او کا نام دے دیا گیا۔ بھارت اور پاکستان کو بھی بعد میں ایس سی او کی رکنیت دے دی گئی۔ ایس سی او میں شامل ممالک کے حدود اربعہ اور آبادی کو سامنے رکھیں تو یہ دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تعاون کی تنظیم ہے جو دنیا کی 40 فیصد آبادی کی نمائندہ ہے۔
چین کی طرف سے بھی پاکستان کو خاموش پیغام دیا گیا تھا کہ بھارت میں ایس سی او کے اجلاس کو کامیاب بنانے کیلئے پاکستانی وزیر خارجہ کو گوا ضرور جانا چاہئے لہٰذا پاکستان میں تمام تر اعتراضات کے باوجود بلاول بھٹو زرداری نے بھارت جانے کا فیصلہ کرلیا۔
جب بلاول بھٹو زرداری نے بھارت جانے کا فیصلہ کیا تو سب سے زیادہ تنقید پاکستان تحریک انصاف نے کی۔ سینیٹ کے اجلاس میں تحریک انصاف والوں نے بلاول کیساتھ ساتھ ان پاکستانی صحافیوں پر بھی تنقید کی جو ایس سی او اجلاس کی کوریج کے لئے گوا گئے تھے تاہم اسی پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ایس سی او اجلاس میں پاکستان کی شرکت کو ’’کثیر الجہتی ضرورت‘‘ قرار دیا۔
بلاول بھٹو زرداری بارہ سال کے بعد بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر خارجہ تھے لیکن دورے کا مقصد صرف اور صرف ایس سی او اجلاس میں شرکت تھی۔ مودی کو قصائی قرار دینے والا پاکستانی وزیر خارجہ بھارت پہنچا تو بھارتی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
بھارتی وزیرخارجہ بند کمروں میں بلاول سے ہاتھ ملاتے رہے لیکن میڈیا کے سامنے ہاتھ باندھ کر نمستے کہہ دیا۔ پاکستان میں تحریک انصاف والوں کو موقع مل گیا اور انہوں نے چیخ و پکار شروع کردی کہ دیکھو دیکھو جے شنکر نے بلاول کیساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ بلاول نے ایس سی او اجلاس میں بھرپور شرکت کی۔
دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس سوئم کی رسم تاجپوشی میں شرکت کیلئے لندن پہنچ گئے اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنے لگے۔
وہ لوگ جو پاکستان کو سفارتی تنہائی کے طعنے دے رہے تھے انہیں منہ کی کھانی پڑی کیونکہ پاکستان کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ دنیا کے دو مختلف ممالک میں عالمی رہنمائوں کے سامنے اپنی ریاست کا موقف پیش کر رہے تھے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلاول بھٹو زرداری نے گوا میں ایس سی او کا میلہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ لیا اور اس لوٹ مار پر جے شنکر اتنے سیخ پا ہوئے کہ انہوں نے تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو دہشت گردی کی صنعت کا ترجمان قرار دے دیا۔
جے شنکر کے ان سفاکانہ ریمارکس پر بھارت کے کچھ اہل درد بھی تڑپ اٹھے اور انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے بلاول سے اس کی ماں چھین لی، بھلا بلاول دہشت گردوں کا ترجمان کیسے ہو سکتا ہے؟
جواب میں بلاول نے بھارت میں بیٹھ کر بھارت کے وزیر خارجہ کو دندان شکن جواب دیا۔ بلاول نے ناصرف بھارت کو مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں یاد کرائیں بلکہ بھارتی صحافی راج دیپ سرڈیسائی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم پر دہشت گردی کا الزام لگانے والے بتائیں کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو پاکستان میں کیا کر رہا تھا؟
بلاول نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ بھارت کے ہر الیکشن میں پاکستان بڑا اہم ہوتا ہے لیکن پاکستان کے الیکشن میں بھارت اہم نہیں ہوتا۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں جو عامیانہ زبان استعمال کی اس کی وجہ سے بلاول کا یہ موقف تھا کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات اس وقت تک بحال نہیں ہوں گے جب تک مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابقہ آئینی حیثیت بحال نہیں ہوتی۔
جے شنکر نے انتہائی وحشت ناک انداز میں کہا کہ اب پاکستان سے بات ہوگی تو صرف یہ کہ وہ آزاد کشمیر کو کب خالی کرے گا؟
جے شنکر کی نفرت بھری باتیں بلاول کے لئے کسی میڈل سے کم نہیں۔ جب جے شنکر انہیں دہشت گردی کی صنعت کا ترجمان قرار دے رہے تھے عین اسی وقت بھارتی ریاست منی پور میں نسلی فسادات کی آگ بھڑک رہی تھی جس میں درجنوں لوگ مارے گئے۔
جے شنکر مانیں یا نہ مانیں۔ بھارت کی سب سے بڑی ضرورت پاکستان ہے۔ بھارت میں ایک نہیں درجنوں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں لہٰذا پاکستان سے نفرت کو جان بوجھ کر بھڑکایا جاتا ہے تاکہ اس نفرت کو بھارت کا وفاق قائم رکھنے کیلئے استعمال کیا جا سکے۔
بھارت کی بالی ووڈ انڈسٹری کے سپرسٹار شاہ رخ خان کو بھی اپنی کامیابی کیلئے پٹھان اور پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے۔ انکی نئی فلم پٹھان دراصل پاکستان کے خلاف ہے۔
ایس سی او اجلاس کے بعد چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے پاکستان کا دورہ کیا اور مشورہ دیا کہ اپنے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کریں۔ بھارت کیساتھ دوطرفہ مذاکرات کو فی الحال بھول جائیں اور آپس کے مذاکرات پر توجہ دیں۔
مہاتما گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کے پیروکاروں سے دوستی ایک مشکل کام ہے۔ وہ بعد میں کرلیں گے پہلے پاکستانی سیاستدان آپس میں تو کوئی مفاہمت کرلیں۔