(یوم تھیلیسیمیا کی مناسب سے خصوصی تحریر)
8 مئی تھیلیسیمیا کا بین الاقوامی عالمی دِن تھیلیسیمیا کے مریضوں اور انکے والدین کیساتھ اِن مریضوں کے اعزاز میں منایا جاتا ہے ، جو بیماری کے بوجھ کے باوجود اپنی زندگی سے نااُمید نہیں ہوتے۔ محقق اور محسن اس بیماری میں مبتلا مریضوں کا معیار زندگی بہتر بنانے اور مرض کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں۔انہی محسنو ں میں ایک ایسا نام جو زبان زدِ عام ہے ۔ وہ منو بھائی اور سُندس فائونڈیشن کا ہے۔سُندس فاؤنڈیشن عرصہ 25سال سے تھیلے سیمیا ،ہیمو فیلیا اور خون کی دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے علاج معالجہ میں مصروف ِعمل ہے ۔ سُندس فاؤنڈیشن تھیلے سیمیاانٹر نیشنل فیڈریشن ، پنجاب چیر یٹی کمیشن ،سیف بلڈ ٹرانسفیو ژ ن پروگرام ، تھیلے سیمیا فیڈ ریشن آف پاکستان ، اکنامک افیئر ڈویژن ، پاکستان سینٹر فار فیلن تھراپی،محکمہ سوشل ویلفیئر پنجاب اور پنجاب بلڈ ٹرا نسفیوژن اتھارٹی سے منظور شدہ ہے ۔اِدارہ میں تقریباً 7000سے زائد بچے رجسٹرڈ ہیں ۔ تمام تر مریض بلا معاوضہ صاف اور صحت مند خون ، اجزائے خون اور ادویات حاصل کرر ہے ہیں ۔تھیلیسیمیا خون کی ایک موروثی بیماری ہے جنیاتی اعتبار سے اس کی دو بڑی قسمیں ہیں ایک الفا (Alpha) تھیلیسیمیا اور دوسری بیٹا(Beta ) تھیلیسیمیا ۔ جبکہ مرض کی شدت کے اعتبار سے اس کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلی تھیلیسیمیا میجر دوسری تھیلیسیمیا انٹر میڈیا اور تیسری تھیلیسیمیا مائنر ہے جسے کیرئیر بھی کہتے ہیں۔ ایسا جوڑا جو تھیلیسیمیا مائنر میں مبتلا ہو اگر آپس میں شادی کرلے تو 25 فیصدتوقع ہے کہ آنے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریض بچے کو پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد سے ہی خون کا انتقال شروع ہو جاتا ہے اور تاحیات جاری رہتا ہے اِ س بیماری کا مکمل علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ ہے یہ علاج عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ،متواتر خون کے انتقال کی وجہ سے مریض کے جسم میں فولاد کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کو ادویات کی صورت میں بر وقت جسم سے خارج نہ کیا جائے تو مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
اس سال تھیلسیمیا کے دن کا موضوع : "BE AWARE SHARE CARE"
"Strengthening Education to Bridge the Thalassaemia Care Gap
جس کا مقصد ہے محتاط رہیں دوسروں کو بتائیں اور خیال رکھیں :ایک ہو کر تھیلیسیمیا کے علم کو عالمی برادری کے ساتھ کام کر کے مزید بڑھائیں اور پوری دنیا کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں ۔پاکستان میں تھیلیسیمیا کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تھیلیسیمیا میجر سے متاثرہ بچوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ہمارے مُلک میں نیشنل ڈیٹا بیس نہ ہونے کی وجہ سےمریضوں کی صحیح تعداد کا علم نہیںہے۔ جبکہ ہر سال تقریباََ 6000بچےاس مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ موروثی مرض سے متعلق عدم آگاہی کی وجہ سے اِس مرض کے پھیلنے کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی دونو ں کا تھیلیسیمیا کیرئیر ٹیسٹ ہونا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو موذی موروثی مرض سے محفوظ کیا جاسکےبلکہ قومی شناختی کارڈ پر تھیلیسیمیا ٹیسٹ کا اندراج ہو تاکہ آنے والی نسلوں میں یہ بیماری منتقل نہ ہوسکے۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا پر قانون سازی او ر اِ س پر عمل در آمد کی اشد ضرورت ہےکیونکہ ایران، مالدیپ ، سائپرس وغیرہ میں مناسب قانون سازی کے ذریعے ہی تھیلیسیمیا کا تدارک ممکن ہُوا ہے۔ یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ تھیلیسیمیا کے مضمون کو نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔اس بیماری کے ماہانہ علاج پر ادویات اور انتقال خون کی مد میں 35سے 40ہزارروپے خرچ آتا ہے۔ جو ایک غریب آدمی کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ،یہ خرچ مختلف فلاحی ادارے برداشت کرتے ہیں ۔ یہ صرف اور صرف ارباب اختیار اور دیگر مخیر حضرات کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ سُندس فائونڈیشن جیسے ادارے نہ صرف اس مرض میں مبتلا بچوں کیلئے صحت مند انتقال خون کی فراہمی کو یقینی بنائے ہوئے ہیں بلکہ سُندس فائونڈیشن نے اس بیماری کے خاتمے کے لئے جدید مشینوں سے آراستہ لیبارٹری کا قیام اور ایک منصوبہ SUNMAC متعارف کروایا ہے جہاںروزانہ کی بنیاد پر مریضوں کے لواحقین اور عوام الناس کو تھیلیسیمیا کیرئیر کیلئے مفت جانچا جا رہا ہے تاکہ آنے والی نسلوں سے اس موذی بیماری کا خاتمہ کیا جاسکے۔اس کیساتھ ساتھ سندس فاؤنڈیشن کے زیر سایہ جدید تکنیکی بنیادوں پر تھیلیسیمیا کے مریضوں پر ریسرچ کے ذریعے بہتری کے اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں ۔جن کو عالمی سطح پر تقویت بھی ملی ہے ۔تین دہائیاں قبل اِس مرض میں مبتلا بچوں کی اوسط عُمر 8سے 12سال ہُوا کرتی تھی لیکن سُندس فائونڈیشن اوراِس جیسے دیگر اداروں کی بدولت بتدریج جدید ٹیکنالوجی ، موثر ادویات ، صحت مند خون اور معیاری علاج معالجہ کی بدولت اِ ن مریضوں کی عُمریں 40سے50 سال ہوچکی ہیں۔ اِن میں اکثر مریض تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے معاشرے کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں اور معاشرے پر بوجھ نہیں ہیں۔
سندس فاؤنڈیشن کا نظام عوام الناس کی زکوٰۃ، خیرات اور صدقات سے چلتا ہے۔اس سال مریضوں کے علاج معالجہ کاتخمینہ 50 کروڑ روپے ہے۔ مستقبل میں سُندس فاؤنڈیشن ایک اسپتال قائم کرنے جا رہا ہے جس میںمریضوں کو خون کی فراہمی کیساتھ ساتھ تمام جملہ امراض کیلئے ایک ہی چھت تلےتمام سہولتیں دی جائینگی۔ اسپتال کی تعمیر کا تخمینہ 2 ارب روپے ہے جبکہ مشینری و دیگر آلات کا تخمینہ بھی تقریباً 2 ارب ہی ہے ۔ اس مقصد کیلئے اراضی بھی حاصل کر لی گئی ہے عوام سے بھرپور تعاون کی اپیل ہے ۔
(صاحب ِمضمون سُندس فاؤنڈیشن کے صدر ہیں)