وزیرخزانہ اسحق ڈار نے امریکی سفیر اینڈریو شوفر سے ملاقات کر کے درخواست کی ہے کہ امریکہ آئی ایم ایف کو اسٹاف لیول معاہدے کیلئے قائل کرنے میں مدد فراہم کرے۔حالانکہ پاکستان آئی ایم ایف کی ایسی پیشگی شرائط تسلیم کرنے پر بھی راضی ہوگیا ہے جس کی نذیر دنیا میں پہلے کہیں نہیں ملتی۔ پاکستان نے سعودیہ اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے تین ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کی ضمانت بھی جمع کرائی ہے لیکن آئی ایم ایف کسی بھی صورت ماننے کو تیار نہیں اور مزید عالمی مالیاتی اداروں کی توثیق چاہتاہے۔ کیا وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کی امداد ملنے کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیںجبکہ دوسری طرف ڈالر کی قیمت روزبروز بڑھ رہی ہے اورآئی ایم ایف کے مطالبے پر سبسڈی کم کرنے سے پاکستان جنوبی ایشیاء کا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے۔پاکستان نے یوکرین کے مسئلے پر مغربی ممالک کی قرار داد پر 31 ممالک سمیت ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔ دوسری طرف روس سے تیل کی فراہمی کا معاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ روزبروزچین کے ساتھ اپنی معیشت کو مزید منسلک کررہا ہے جو امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا اوروہ آئی ایم ایف کے معاہدے میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔
1992ء میں امریکہ کی کچھ خفیہ دستاویزات سامنے آئی تھیں جن کے مطابق اس نے ایسے اقدامات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا جن سے آئندہ دنیا میں سوویت یونین جیسی کوئی دوسری طاقت ظہور پزیر نہ ہو سکے کہ جس کی وجہ سےاس کو 60ء اور70ء کی دہائیوں میں اپنی اقتصادی اجارہ داری دنیا میں قائم کرنےمیں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ان دستاویزات کے سامنے آنے کے بعد چین نے دیکھتے ہی دیکھتے دس فیصد سالانہ کی رفتار سے اقتصادی ترقی شروع کر دی جس سے امریکہ کے بین الاقوامی مقاصدکو دھچکا لگااور آج اسے عالمی معیشت کو اپنے مقاصد کیلئےاستعمال کرنے میں مشکلات کاسامناہے۔وہ کوشش کررہاہے کہ چین اور اس سے تعلقات رکھنے والے تمام ممالک کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔ 1945ء میں جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تو اینگلو امریکن دبائو کے تحت پہلے دن سے ہی کچھ نئے ادارے بنا ئے گئے جن میں آئی ایم ایف،ورلڈ بینک(IBRD) اور انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے اداروں کو اپنے تسلط میں فروغ دیا گیاتاکہ عالمی معیشت پر ہمیشہ کیلئے قبضہ کیا جاسکے لیکن 1953ء میں روس نے بین الاقوامی سیاست میں کھل کر حصہ لینا شروع کردیا۔جس سے اینگلو امریکن اجارہ داری کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔روس نے تیسری دنیاکے ممالک کواکٹھاکرکے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کے تحت یونیکٹاڈ UNCTAD اوریونیڈوUNIDOجیسے ادارے بنائے ،یوںان اداروں کی رہنمائی میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کا ادارہ بنایا جس نے تیسری دنیا اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان تضادات کو وضع کیا،پیرس کلب بنانے کی راہ ہموار کی جس سے تیسری دنیا کے ممالک کا قرضہ کم ہوااور 1991ء تک پچاس غریب ملکوںکو 6.5ملین ڈالر کا قرضہ معاف کیا گیا۔اجناس کے عالمی معاہدے کرائے گئے اور لینڈ لاک ممالک کو بہت ساری مراعات دی گئیں لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یونیکٹاڈ اور یونیڈو جیسے اقوام متحدہ کے اداروں کا کوئی سائبان نہ رہا۔امریکہ ،کینیڈا اور آسٹریلیا نے ان اداروں کی امداد بند کردی جس سے یہ ادارے قائم رہنے کے باوجود تیسری دنیا کی کوئی مدد نہ کر سکے اور یوں ان اداروں کی ذمہ داریاں دوبارہ آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور ڈبلیو ٹی او کو منتقل کردی گئیں۔دوسری طرف پاکستان جیسے ممالک نے نہ تو اپنی اقتصادی پالیسیوں پر نظرثانی کی اور پاکستانی اشرافیہ ،سول اور ملٹری بیوروکریٹ اس امریکی امداد کے مزے لوٹتے رہے، جس کیوجہ سے آج ہم آئی ایم ایف کی مدد حاصل کرنےکیلئےامریکہ کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے آئی ایم ایف کے کہنے پر برآمدی صنعتوں کو دیا گیامسابقتی انرجی ٹیرف بھی ختم کردیا،جس سے رہی سہی ایکسپورٹ کرنے والی صنعتوں کی کمر بھی ٹوٹ گئی ۔دوسری طرف جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی تجدید کا وقت یعنی دسمبر2023ء بھی سر پر آکھڑا ہواہے جس سے امریکہ پاکستان پر اپنی سختیاں مزید بڑھائے گا۔یہ معاملہ دسمبرسے پہلے یورپین پارلیمنٹ میں جائے گااور اگر امریکہ کے دبائو پر اس معاہدے کی تجدید نہ ہوئی تو پاکستان کی دوتہائی مصنوعات جن کی درآمدی ڈیوٹی اس معاہدے کی رو سے صفر ہے اتنی بڑھ جائے گی کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بقاکا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔آج جن حالات کا سامنا پاکستان کو ہے ایسے ہی حالات کی وجہ سے برازیل اور تیسری دنیا کے دوسرے ممالک(شنگھائی کوآپریٹو) نے امریکہ کے جارحانہ عزائم سے تنگ آکر بڑے پیمانے پر علاقائی تعاون کو فروغ دینا شروع کردیا ہےلیکن ہم نے بھارت اور ایران سے کسی صورت دوستی نہ بڑھائی اور نہ ہی اپنے غیر پیداواری اخراجات کم کرنے کی کوشش کی۔دفاعی بجٹ پر کوئی نظر ثانی کی اور نہ ہی چین اور روس کی مددسے کوئی بڑی صنعت لگائی ۔آج ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی غیر منصفانہ اجارہ داری کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان چین ،روس،بھارت اور لاطینی امریکہ کے پلیٹ فارم پر اس طرح منظم ہو جس طرح 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں نان الائن موومنٹ اور اقوام متحدہ کے اداروں کا پلیٹ فارم بنا تھا۔یہی ایک حل ہے جس سے پاکستان اقتصادی طور پر مستحکم ہو سکتا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا اقتصادی نظام وجود میں آسکتا ہے جس سے پوری دنیا میں امن اور خوشحالی کا بول بالاہوگا۔